شخصیات پر بحث عام ذہنوں کا کام ہے۔ یہ انگریزی مقولہ ہم نے لڑکپن میں انگریزی ادب کی کتاب میں کیا پڑھا کہ ہم عمر بھر ان نابغہ روزگار شخصیات کے اعتراف میں دو جملے بھی نہ لکھ پائے۔ جنہوں نے ملک و قوم کی اجتماعی سوچ اور فکر کو ہمارے تعیں مہمیز دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس بات کا اعتراف برمحل ہو گا کہ ڈاکٹر احمد جاوید سے لے کر اوریا مقبول جان تک کتنی ہی ایسی زندہ و جاوید شخصیات ہیں کہ جن کے خیالات عالیہ نے بہت سے لوگوں کی فکر و نظر کو ایک نئی راہ سجھائی۔ لیکن ہم نے اپنی کم ظرفی اور بعض موضوعات پر ان سے نظریاتی اختلاف کے باعث ان کی شخصیات پر قلم اٹھانے میں احتراز برتا۔ اب چوں کہ اوریا صاحب نے ہمارا سب سے بڑا اعتراض دور کر دیا ہے۔ یعنی سرکار کی نوکری سے فراغت ہو گئی ہے اس لئے ہم ان کے ساتھ کھڑا ہونے کی جسارت کر رہے ہیں۔
گذشتہ کچھ دنوں سے جس طرح ہمارے نام نہاد سیکولر اور ترقی پسند حضرات جس طرح اکٹھ بنا کر محترم اوریا مقبول جان پر ٹوٹ پڑے ہیں ہمیں اپنی غیر جانبداری پر شرمندگی ہو رہی ہے۔ نام نہاد سیکولر اس لئے کہ جس طرح ہمارے ملک میں کوئی چیز خالص نہیں ملتی ، اُسی طرح سیکولرازم بھی ناخالص ہے۔ اس ملک میں نام نہاد ننھی منی سی سیکولر لابی کے کاسہ لیس جو ہمیشہ سے شاہوں کے درباروں کی اندھیری غلام گردشوں سے رو بہ عمل ہوتے ہیں، چیلوں کی طرح ان پر جھپٹ رہے ہیں اور اوریا مقبول جان نظریات کی اس کربلا کا حسین بن کر ڈٹا ہوا ہے۔ ایسے میں مرد حر بننے میں کوئی حرج نہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ اوریا صاحب نے کیپٹل ازم کے سب سے بڑے ہتھیار ، یعنی جمہوریت کی ایک شاخ یعنی اشتہار بازی (ایڈورٹائزمنٹ) کے بارے میں کچھ تنقید ی کلمات ادا کرنے کی جسارت کر دی ہے۔ ویسے جس ملک میں جنرل رانی کا نواسہ اور بھارتی پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی حالیہ بیوی کا بیٹا ،سینسر بورڈ کا چئیرمین ہو، اُس ملک کے اشتہارات اور فلموں میں کیا کیا کچھ نہیں چل رہا ہوگا اس کے لئے زیادہ دماغ لڑائے بغیر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔
اوریا صاحب نے کیو موبائل کے ایک اشتہار کا جب مندرجاتی تجزیہ ( Content Analysis)پیش کیا تو کیپٹل ازم کے ایجنٹ ان کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑ گئے۔ جی ہاں یہ خاندانی ایجنٹ ہوتے ہیں ۔اور ہر دور میں ہوتے ہیں۔ کوئی بھی ہو۔ کبھی یہ کمیونزم اور سوشلزم کبھی کیپٹل ازم، اور کبھی اسلام ، انہیں اس سے غرض نہیں کہ آقا کون ہے۔ یہ تو بس خاندانی اور پیشہ ورانہ ایجنٹ ہوتے ہیں۔کبھی یہ کیپٹل ازم کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ روس افغانوں پر حملہ کرئے تو یہ روس کے ساتھ اور امریکہ افغانیوں کے ملک میں تباہ و بربادی پھیلا کر انہیں محکوم بنانے کے لئے آئے تو یہ امریکہ کے ساتھ۔ بھارت پاکستان کی سیاسی اور سفارتی حدود پر حملہ آور ہوتویہ بھارت کے ساتھ۔ اپنے ملک کی تاریخ پڑھ لیں ۔یہ انگریز کے ساتھ تھے۔اٹھارہویں صدی کے پہلے ادھواڑے میں ان کے آباو اجداد نے انگریزوں کی فرمائش پر اسلام کے اندر سے ایسے ایسے عقلی اعتراضات نکال مارے کہ ان کے دانت کھٹے کرنے کے لئے مسلمانوں کو بریلوی اور دیوبند کی دو عظیم الشان جوابی اصلاحی اسلامی تحریکیں اٹھانا پڑیں۔ جی ہاں یہ دونوں تحریکیں ان ہی کی ریشہ دوانیوں کے باعث برصغیر میں منصہ شہود پر آئیں۔ ان کی جائز و ناجائز اولادیں آج بھی انہی اعتراضات کی جگالی کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں اور ہماری نئی نسل مطالعے کی عمومی عادت سے عاری ہونے کے باعث ان کے بے بنیاد سوالوں کے اٹھائے گئے جوابات کے بارے میں نہیں جانتی اور یہ اپنا سودا بیچتے رہتے ہیں۔ تا آن کہ انہیں کوئی اوریا مقبول جان ٹکر جائے۔ہاں البتہ مذہب مخالف ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود احساسِ کمتری کی ماری ہوئی اس مخلوق کو چرچ اور مندر میں بہت سکون ملتاہے اور مسجد سے گھن آتی ہے۔ اپنے مسلمان ہونے پر شرمندہ خود ترحمی کا شکار یہ لوگ ہر دم خود مذمتی پر آمادہ۔
لیکن یہاں پر بھی یہ کوئی آزادانہ طور پر رو بہ عمل تھوڑے ہی آئے ہیں؟ ہمیں پاکستان کی ایڈورٹائزمنٹ کی صنعت کے ایک اعلیٰ دماغ نے بتایا کہ اوریا صاحب نے جس ٹیکنیکل طریقے سے پاکستان کے میڈیا پرچلنے والے اشتہارات سے رگیدا ہے اُس پر پوری ایڈورٹائزمنٹ کی صنعت میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ اس لئے انہوں نے ان خاندانی جدی پشتی ایجنٹوں کی خدمات حاصل کی ہیں ۔ مدت ہوئی پاکستان میں اشتہار سازی کی مہم کا دیہانت ہوگیااور یہ لوگ بھارتیوں کے کمیشن ایجنٹ بن چکے۔ اشتہار بھارت میں بنے گا ۔ اس میں کام کرنے والی ماڈل اشتہار بنوانے والی کمپنی کے مالک سے دبئی میں ملاقات کرئے گی۔ یہ کل اوقات ہے پاکستان کی ایڈورٹائزمنٹ کے بڑے بڑے دماغوں کی۔ کاپی لکھنا ان ذہنی بانجھوں کے بس میں نہیں۔ اس لئے اگر کوئی اشتہار بنانا پڑ بھی جائے تو اتنا گھٹیا کہ کسی بین الاقوامی مقابلے میں پیش ہی نہ ہوسکے۔ اور اس کے مندرجات میں گھٹیا درجے کی ذو معنی باتیں کہ جن کو یہ خاکسار نقل کرنے سے بھی عاری ہے۔ اب ان کی دم پر پاؤں آ گیا ہے اور انہوں نے سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر اوریا صاحب کے خلاف ایک یلغار کردی ہے۔ تو ایک لحاظ سے ہمارا سیکولر طبقہ اپنے آباو اجداد کی سنت پر قائم ہے اور ’’برائے فروخت ‘‘ کا بورڈ لگائے پورے پیسے پیشگی پکڑ کر رو بہ عمل ہے۔
ایک لحاظ سے یہ دسترخوانی راتب خور بہت عقل مند بھی ہیں کہ ہمیشہ شاہ کے قدموں میں یا پھر سرکاری دسترخوان پر پائے جاتے ہیں۔ سرکار کے پیسوں سے اپنے دامن بھرتے ہیں اور سرکاری خرچے پر اپنے خیالات کا ابلاغ کرتے ہیں۔نظریات وہ جو منافع لائے ان کا بنیادی نعرہ ہے۔ اوریا صاحب تو اب ریٹائرمنٹ کے بعد میدانِ عمل ہیں۔ لیکن ان کے ناقد اپنے ابا جان سمیت آج بھی سرکاری دسترخوان پر راتب خوری میں مصروف پائے جا رہے ہیں۔ ابا جی نے ساری ساری عمر اسلام کو بیچ کر کھایا اب بیٹے نے سیکولرازم کا کھوکھا کھول لیا ہے۔ کیوں کہ میاں محمد نواز شریف صاحب کی طرف سے سیفما کے اجلاس کا وہ خطابِ لاجواب جس میں عیسائی چرچ سکول کے پڑھے ہوئے اس مسلمان زادے نے ہمیں بتایا تھا کہ ’’رام اور رحیم ایک ہی ذات کے دو نام ہیں‘‘۔ اس کو کیا پتہ ، مگر پتہ ہے کہ پاکستان کی تو بنیاد ہی اس انکار سے اٹھی تھی ’’رام اور رحیم ایک ہی ذات کے دو نام نہیں ہیں‘‘۔ یہ وہی مشرکین مکہ والی فرمائش تھی کہ ایک دن تم ہمارے خدا کو پوج لو اور ایک دن ہم تمہارے خدا کو پوج لیا کریں گے۔ لیکن میاں نواز شریف نے جب یہ کہہ ڈالا تو کچھ لوگوں نے اسلام فروشی کی ہٹی بند کی اور اس کی جگہ اپنے بچے کو سیکولرازم کا کھوکھا کھول دیا۔ انہوں نے تو ایجنٹی ہی کرنی ہے جس کی بھی دستیاب ہو جائے؟
اب اُس سرکاری ٹی وی پر جس کے لئے ہر مہینے آپ کے اور میرے بجلی کے بلوں ، حتیٰ کی مسجدوں اور قبرستانوں کے بلوں سے بھی پیسے جمع کرکے سرکاری ٹی وی کو ماہانہ دو ارب روپے ادا کئے جاتے ہیں، اس سرکاری ٹی وی پر بیٹھ کر ایک اسی طرح کے صاحب نے اوریا مقبول جان صاحب کے ایک ٹی وی اشتہار کے ناقدانہ جائزے کے عمل کو ہدفِ تنقید بنا ڈالا ہے۔ اس کے بعد اللہ تیری یاری۔
اوریا صاحب نے اس کا جواب اپنے نیو ٹی وی کے پروگرام میں دیا۔ جواب اس قدر بھرپور اور جامع تھا چاوں چاوں کی آوازیں چاردانگِ عالم میں برآمد ہو رہی ہیں۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیکولرسٹوں کے بڑے بڑے سرخیل اور جرنیل بھی خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آئے ۔ پتہ نہیں کون کون کہاں کہاں سے اپنی غیر جانبداری کا پردہ چاک کرتے ہوئے برہنہ میدان میں آ کودا ۔ کوئی کراچی سے براستہ بی بی سی اور کوئی اسلام آباد سے براستہ ڈان ٹی وی۔ خاکسار سوشل میڈیا پر دبکا، خاموشی سے ان تمام اباحیت پسندوں کے تڑپنے اور تلملانے کا مزہ لیتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ بات شاید نہیں بن رہی تھی کیوں کہ اوریا صاحب کا وار ہی اسقدر گہراتھا۔
اس لئے مجھے اصل مسرت اس وقت حاصل ہوئی جب بلاول بھٹو زرداری، اور آصفہ بھٹو زرداری کے ٹویٹر ہینڈل سے بھی اوریا کے خلاف ری ٹویٹ ہوئے ، اور میرے منہ سے بے اختیار نکلا، اوریا صاحب آپ جیت گئے ۔ دشمن کے دامن میں جو کچھ تھا اس نے آپ کے خلاف میدان میں اتار دیا ہے۔ یہ جنگ کا نکتہ آغاز ہے آپ میدان ڈٹے رہنا ۔ میں بھی اپنی ننھی منی تلوار لئے تمہارے ساتھ ہوں۔ بس خدارا کہیں مُک مکا نہ کر لینا۔ کہیں کسی سرکاری مراعات پر۔ ٹی وی کے چند پروگراموں کے ٹکڑوں پر۔ بس میدان میں ڈٹے رہنا۔۔ آپ جیت چکے ہیں۔
بہت خوب
زبردست ، اللہ اوریا صاحب کی تحریک کو کامیاب بنائے ۔ آمین
اس پر فتن صحافت میں اوریا صاحب ایک غنیمت ہیں . . . وما توفیقی الا باللہ