ہوم << حکیم مومن خاں مومن - اویس قرنی

حکیم مومن خاں مومن - اویس قرنی

وہ مغلیہ سلطنت کا آخری دور تھا اور شاہ عالم تخت نشین تھا. جب کشمیر سے ایک نجیب خاندان کے ایک طبیب حکیم نامدار خاں ہندوستان میں تشریف لائے. حکیم صاحب فنِ طب میں مہارت و کمال رکھتے تھے , اس لیے شاہی طبیب کا عہدہ اور نارنول میں جاگیر پائی.
شاہ عالم کی آنکھ بند ہوئی تو انگریز بھی بدو کے اونٹ کی طرح ہندوستان میں مزید دخیل ہو گئے. اور نئے مغل بادشاہ کی عملداری دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی. انگریزوں نے بندر بانٹ میں جھجھر کی ریاست فیض طلب خان کو دے دی. نارنول بھی اسی کی حدود میں واقع تھا. نواب نے حکیم صاحب کی جاگیر ضبط کر کے سالانہ ایک ہزار روپیہ پنشن مقرر کردی. بڑے حکیم صاحب کے بعد ان کے صاحبزادے حکیم غلام نبی خان اور حکیم غلام حسین خان اپنے خاندانی فن اور اس پنشن کے وارث ہوئے.
حکیم غلام نبی خان دلی کے کوچہ چیلاں میں شاہ عبدالعزیز صاحب کے مدرسے کے قریب رہائش پذیر تھے. اور شاہ صاحب سے کمال عقیدت رکھتے تھے. 1800ء میں ان کے گھر ایک فرزند کی ولادت ہوئی. شاہ عبد العزیز صاحب نے بچے کے کان میں اذان دی اور پوچھا کہ صاحبزادے کا کیا نام رکھنے کا ارادہ ہے. حکیم صاحب نے بتایا کہ ہم نے حبیب اللہ خان نام سوچا ہے. مگر شاہ صاحب نے فرمایا نہیں, اس بچے کا نام "مومن خان" ہے.
مومن خان نے ہوش سنبھالا تو ان کے والد صاحب انہیں مدرسے میں شاہ عبدالقادر صاحب کی خدمت میں لے گئے. شاہ صاحب سے عربی اور عبداللہ خان علوی صاحب سے فارسی پڑھتے رہے. اسی اثنا میں اپنے والد اور چچا سے علمِ طب بھی پڑھا اور ان کے مطب میں نسخہ نویسی کرتے رہے.
ان کی مثنوی "شکایتِ ستم" سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب انہوں نے شاعری شروع کی تب ان کی عمر تیرہ چودہ سال سے زیادہ نہ تھی. شاعری کی ابتدا میں شاہ نصیر دہلوی کے شاگرد ہوئے اور ان سے اصلاح لیتے رہے. کچھ عرصہ بعد مرزا غالب سے ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی. اور پھر شاید یہ غالب کی صحبت کا اثر تھا کہ شاہ نصیر صاحب سے سلسلہ تلمذ منقطع کر لیا اور اپنے استاد آپ ہوئے.
قوتِ حافظہ اور ذہانت میں کمال رکھتے تھے. طب اور شاعری کے بعد نجوم سیکھنے کا خیال آیا اور اہلِ کمال سے اس علم کی تحصیل سے ایسی مہارت پائی کہ ان کے احکام (پیش گوئیاں) سن سن کر بڑے بڑے منجم حیران رہ جاتے. شطرنج کہ ذہین لوگوں کا من پسند کھیل ہے. اس سے بھی ان کو کمال مناسبت تھی. شہر کے ایک دو شاطروں کے سوا کسی سے کم نہ تھے.
شعر و سخن سے انہیں طبعی مناسبت تھی اور عاشق مزاجی نے اسے اور بھی چمکا دیا تھا. رنگین طبع , خوش مزاج , خوش لباس اور کشیدہ قامت تھے. لمبی لمبی گھونگریالی زلفیں تھیں جن میں ہر وقت انگلیوں سے کنگھی کرتے رہتے تھے. مشاعروں میں اس ترنم سے کلام پڑھتے کہ مشاعرہ وجد کرتا تھا.
عالی دماغی اور خودی کا یہ عالم تھا کہ جب 1842 میں مرزا غالب نے دلی کالج میں فارسی پروفیسری سے انکار کردیا تو ٹامسن نے یہی پیشکش مومن کے سامنے رکھی مگر مومن نے بھی انکار کردیا. راجہ کپورتھلہ نے انہیں بلوایا ایک ہزار روپیہ سفر خرچ کے طور پر بھیجا اور 350 روپے ماہانہ دینے کا وعدہ کیا. مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ کپورتھلہ میں ایک گویے کی بھی یہی تنخواہ ہے تو جانے سے انکار کردیا.
جوانی میں سید احمد شہید کے مرید ہوئے, اور انہی کے عقائد کے قائل رہے. منہیات سے توبہ کر لی اور نماز روزہ کے سختی سے پابند ہوگئے. اس زمانے کے کلام میں عاشقانہ رنگ کی جگہ اصلاحی رنگ نے لے لی. تصانیف میں ایک دیوان یادگار ہے. جسے ان کے شاگرد نواب مصطفےٰ خان شیفتہ نے مرتب کیا تھا اور پہلی بار 1846 میں شائع ہوا.
یہ اردو شاعری کے صاحبِ طرز استاد ہیں. مومن خان مومن سکول آف تھاٹ داغ اور میر کے بعد اردو کا مقبول ترین طرزِ شاعری ہے. بلکہ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو اردو غزل اپنے حقیقی معنوں میں مومن کے ہاں ملتی ہے. اس طرز میں ان کے پیروکاروں میں نسیم دہلوی , مولانا حسرت موہانی , جگر مراد آبادی , احمد فراز جیسے بڑے شعرا کے نام شامل ہیں.
ان کی وفات ایک اتفاقی حادثے کانتیجہ تھی. ایک دن اپنے مکان کی چھت پر کھڑے فکرِ سخن میں میں مشغول تھے کہ پاؤں پھسلا اور زمین پر آگرے. ہاتھ پاؤں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں. ہوش میں آئے تو اپنا زائچہ بنا کر حکم لگایا (پیش گوئی کی) کہ پانچ دن پانچ مہینے یا پانچ سال میں مر جاؤں گا. چنانچہ پانچ ماہ بعد 14 مئی 1851ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے. دہلی دروازہ کے باہر میدھیوں کے جانبِ غرب , احاطہ کی دیوار کے قریب دفن ہوئے. (شاہ عبدالعزیز صاحب کا خاندان بھی یہیں مدفون ہے)
وفات کے دو برس بعد نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے خواب دیکھا کہ ایک قاصد نے خط لا کر دیا کہ مومن مرحوم کا خط ہے. انہوں نے لفافہ کھولا تو لکھا تھا "آج کل میرے عیال پر مکان کی طرف سے بہت تکلیف ہے,تم ان کی خبر لو." اور خاتمے پر ایک مہر لگی تھی. جس میں مومن جنتی لکھا تھا. صبح نواب صاحب نے دو سو روپے ان کے گھر بھجوائے اور خواب کی تفصیل بھی کہلوا بھیجی. مومن کے صاحبزادے احمد نصیر خان کا بیان ہے کہ فی الواقع ان دنوں ہم پر مکان کی نہایت تکلیف تھی, برسات کا موسم تھا اور سارا مکان ٹپکتا تھا. (دروغ بر گردنِ راوی)
مرزا غالب اور مومن کی 44 سال پرانی دوستی تھی. 21 مئی 1851ء کے خط بنام منشی نبی بخش حقیر میں غالب نے انتہائی پردرد الفاظ میں لکھا ہے:- "سنا ہوگا کہ مومن خان مر گئے. مومن خان میرا ہمعصر تھا اور یار بھی تھا. بیالیس تینتالیس برس ہوئے یعنی چودہ چودہ پندرہ پندرہ برس کی میری اور مرحوم کی عمر تھی , مجھ میں اور اس میں ربط پیدا ہوا. اس عرصے میں کبھی کسی طرح کا رنج و ملال درمیان نہ آیا. حضرت چالیس برس دشمن بھی پیدا نہیں ہوتا , دوست تو کہاں ہاتھ آتا ہے. یہ شخص بھی اپنی وضع کا اچھا کہنے والا تھا. طبیعت اس کی معنیٰ آفرین تھی."

Comments

Click here to post a comment