ہوم << دلیل کی " دلیل " - حسیب احمد خان

دلیل کی " دلیل " - حسیب احمد خان

Haseeb قرآن جو بے شک ہدایت کی راہ دکھاتا ہے اور بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی کرتا ہے اور الله رب العزت کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کے بیان سے بھی نہیں شرماتے.
چیونٹی ایک چھوٹی سی مخلوق جو اکثر ہمارے پیروں میں روندی جاتی ہے، قرآن کی ایک سوره کا عنوان ہے " النمل "
[pullquote]وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ ﴿17﴾ حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿18﴾
[/pullquote] ” اورسلیمان کے لیے (کسی مہم کے سلسلہ میں )اس کے جنوں،انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے اوران کی جماعت بندی کر دی گئی تھی۔ یہاں تک جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی پر پہنچے تو ایک چیونٹی بول اٹھی ،”چیونٹیو!اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ایسانہ ہو کہ سلیمان اورا س کے لشکر تمہیں روند ڈالیں اورانہیں پتہ بھی نہ چلے.
چیونٹی کا اپنی قوم کے لیے فکر کرنا الله کو اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اپنے کلام میں محفوظ فرما دیا
کیا ہم چیونٹیوں سے بھی گئے گزرے ہو چکے ہیں۔ ہم جنھیں اشرف المخلوقات بیان کیا گیا ہے، ہم جن کے بارے میں کہا گیا ہے
[pullquote]لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿٤﴾
[/pullquote] یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا
حدیث میں آتا ہے اِنَ اللہ خَلَقَ آدَمَ عَلَٰی صُورَتِہِ ( مسلم ، کتاب البروالصلاۃ والاداب )“ اللہ تعالٰی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا “
لیکن ہمیں سفالت پسند ہے ثُمَّ رَ‌دَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ ﴿٥﴾ پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا
سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں کہا گیا
[pullquote]إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ‌ غَيْرُ‌ مَمْنُونٍ ﴿٦﴾
[/pullquote] لیکن جو لوگ ایمان ﻻئے اور (پھر) نیک عمل کیے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا
ادب کیا ہے؟ کسی شے کا اس خوبی سے بیان کہ وہ سننے والے کی جمالیات اور فکریات دونوں کو یکساں متاثر کر سکے۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں
غالبؔ کہتے ہیں:
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
رونے اور ہنسنے کی کوئی قومیت یا وطنیت نہیں ہوتی، اور نہ اس کو فن چاہیے، بلکہ سچا ہنسنا اور سچا رونا وہ ہے جو فن سے عاری ہو، جس میں تصنع نہ ہو، کوئی روتا ہے تو درد سے بے قرار ہوکر، کوئی ہنستا ہے تو کسی مسرت کی بنا پر، یہ اندر کا جذبہ ہے، اس لیے رونے اور ہنسنے کے لیے اندر کا جذبہ ہونا چاہیے، اور وہ رونا رونا کہلانے کا مستحق نہیں جس کو ابھارنے والی اندر کی کوئی چیز نہ ہو، درد نہ ہو، کسک نہ ہو، اور وہ ہنسنا ہنسنے کا مصداق نہیں جو کسی کی فرمائش سے ہو۔
ادب کا معاملہ بھی یہی ہے کہ ادب کی نہ کوئی قومیت ہے، نہ وطنیت ہے، نہ جنسیت ہے، اور نہ وہ خاص اصطلاحات کا پابند ہے، نہ خاص ضوابط کا، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ خود ادیبوں نے جنھوں نے اپنی زندگیاں ادب کے لیے وقف کیں، اور اپنی بہترین صلاحیتیں اس کے لیے مخصوص کردیں، انھوں نے بھی ادب کے سمندر کو کسی آب جو میں تصور کیا۔
ادب ادب ہے، خواہ وہ کسی مذہبی انسان کی زبان سے نکلے، کسی پیغمبر کی زبان سے ادا ہو، کسی آسمانی صحیفہ میں ہو، اس کی شرط یہ ہے کہ بات اس انداز سے کہی جائے کہ دل پر اثر ہو، کہنے والا مطمئن ہو کہ میں نے بات اچھی طرح کہہ دی، سننے والا اس سے لطف اٹھائے، اور اس کو قبول کرے۔ حسن پسندی تو یہ ہے کہ حسن جس شکل میں ہو اسے پسند کیا جائے، بلبل کو آپ پابند نہیں کرسکتے کہ اس پھول پر بیٹھے ، اس پھول پر نہ بیٹھے، لیکن یہ کہاں کا حسن مذاق ہے اور یہ کہاں کی حق پسندی ہے کہ اگر گلاب کا پھول کسی مے خانے کے صحن میں اس کے زیر سایہ کھلے تو وہ گلاب ہے اور اس سے لطف اٹھایا جائے، اور اگر کسی مسجد کے چمن میں کھل جائے تو پھر اس میں کوئی حسن نہیں۔ کیا یہ جرم ہے کہ اس نے اپنی نمود کے لیے مسجد کا سہارا لیا؟
حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
ہمیں حسن بے پروا سے مطلب ہے کہ شہر و صحرا سے؟ تو ادب کے ساتھ معاملہ یہی کیا گیا، اجازت دیجیے تو فارسی کا بھی شعر پڑھ دوں:
دلِ عبث لب بہ شکوہ دانہ کند
شیشہ تا نہ شکند صدا نہ کند
اگر شیشے کی آواز سنیے تو سمجھیے کہ وہ ٹوٹا ہے، تو یہ ٹوٹے ہوئے دل اور ایک ٹوٹے ہوئے ساغر کی صدا ہے، صدائے احتجاج ہے کہ ادیبوں اور ادب کی بارگاہ میں یہ شرط کردی گئی کہ فلاں قسم کی وردی پہن کر آئیے، رسمیات سے سب سے زیادہ بے پروا ادب ہے، اس کو ہرگز یہ قبول نہیں کہ وہ فلاں وردی پہن کر آئے، اور فلاں زبان بولتا ہو، وہ جہاں بھی ہے ادب ہے، اگر وہ پھٹے پرانے کپڑے میں بھی ہے تو ادب ہے، اور شہ نشین پر بٹھانے اور ذہن نشین کرانے کے قابل ہے، اور وہ اگربادشاہوں کا لباس پہن کر آئے لیکن اس کو اپنے مطلب کو صحیح طرح سے ادا کرنے کا سلیقہ نہ ہو، تو وہ ادب نہیں ہے، ادب اس لیے ادب نہیں ہوجاتا کہ وہ کسی انگریزی داں نے ادا کیا، کسی ترقی پسند نے ادا کیا، شعبۂ اردو کے کسی چیئرمین اور پروفیسر نے ادا کیا، صدر نے ادا کیا، وہ ادب ادب ہے خواہ اس کو آپ کسی سائل کی صدا میں سن لیں، کسی غریب کی فریاد میں سن لیں، کسی ماں کو اپنے بچے کو سلاتے ہوئے لوری سنانے میں سن لیں، کسی خدا شناس کے نالۂ نیم شبی میں سن لیں، جو صرف خدا ہی کو سنانا چاہتا ہے، اتفاق سے آپ نے سن لیا، اس لیے ادب جس شکل میں ہو، جس زبان میں ہو، اور جس شخص کی زبان سے ادا ہو، وہ ادب ہے۔
(دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں 1981ء میں منعقد مذاکرۂ ادبیات اسلامی کے اردو، فارسی، انگریزی سیکشن کے اختتامی خطبہ سے ماخوذ)
ادبی وسائط کا فکری میدانوں میں باقاعدہ تحریکی انداز میں استعمال بر صغیر میں مخصوص سیکولر فکر کی ترویج میں خاص رہا ہے جس کی سب سے عظیم مثال ترقی پسند تحریک ہے۔ 1917ءمیں روس میں انقلاب تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ثابت ہوا۔ اس نے پوری دنیا پر اثرات مرتب کیے۔ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی اس کے گہرے اثرات پڑے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں تیزی آئی۔ ہندو مسلم اختلاف میں اضافہ ہوا۔ ان حالات اور سیاسی کشمکش کی بدولت مایوسی کی فضا چھانے لگی، جس کی بنا پر حساس نوجوان طبقہ میں اشتراکی رجحانات فروغ پانے لگے۔ شاعر اور ادیب ٹالسٹائی کے برعکس لینن اور کارل مارکس کے اثر کو قبول کرنے لگے۔ جبکہ روسی ادب کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ مذہب کی حیثیت افیون کی سی ہے۔ مذہب باطل تصور ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ معاش ہے۔ اس طرح اس ادب کی رو سے سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے اور ادب کا کام مذہب سے متنفر کر کے انسانیت میں اعتقاد پیدا کرنا ہے۔ یہ نظریات ترقی پسند تحریک کے آغاز کا سبب بنے۔
1923ء میں جرمنی میں ہٹلر کی سرکردگی میں فسطائیت نے سر اُٹھایا جس کی وجہ سے پورے یورپ کو ایک بحران سے گزرنا پڑا۔ ہٹلر نے جرمنی میں تہذیب و تمدن کی اعلیٰ اقدار پر حملہ کیا ۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادبیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان شعراء و ادباء میں آئن سٹائن اور ارنسٹ ووکر بھی شامل تھے۔ ہٹلر کے اس اقدام پر جولائی 1935ء میں پیرس میں بعض شہرہ آفاق شخصیتوں مثلاً رومن رولان ، ٹامس مان اور آندر مالرو نے ثقافت کے تحفظ کے لیے تمام دنیا کے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلالی ۔اس کانفرس کا نام تھا:
The world congress of the writers for the defense of culture .
ہندوستان سے اگر چہ کسی بڑے ادیب نے اس کانفرس میں شرکت نہیں کہ البتہ سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے ہندوستان کی نمائند گی کی ۔ اس طرح بعد میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے کچھ دیگر ہندوستانی طلبہ کی مدد سے جو لندن میں مقیم تھے۔ ”انجمن ترقی پسند مصنفین“ کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن کا پہلا جلسہ لندن کے نانکنگ ریستوران میں ہوا۔ جہاں اس انجمن کا منشور یا اعلان مرتب کیا گیا ۔ اس اجلاس میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں سجاد ظہیر، ملک راج آنند ، ڈاکٹر جیوتی گھوش اور ڈاکٹر دین محمد تاثیر وغیرہ شامل تھے۔ انجمن کا صدر ملک راج آنند کومنتخب کیا گیا۔ اس طرح انجمن ترقی پسند مصنفین جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی وجود میں آئی۔ اس ترقی پسند تحریک نے اپنے منشور کے ذریعے جن مقاصد کا بیان کیا وہ کچھ یوں ہیں:
فن اور ادب کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجات دلانا اور فنون لطیفہ کو عوام کے قریب لانا۔
ادب میں بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا۔
واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا۔ بے مقصد روحانیت اور بے روح تصوف پرستی سے پرہیز کرنا۔
ایسی ادبی تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائینٹیفک رجحانات کو فروغ دے۔
ماضی کی اقدار اور روایات کا ازسر نو جائزہ لے کر صر ف ان اقدار اور روایتوں کو اپنانا جو صحت مند ہوں اور زندگی کی تعمیر میں کام آسکتی ہوں۔
بیمار فرسودہ روایات جو سماج و ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ان کو ترک کرنا وغیرہ۔
وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک کے نظریات کو غور و تدبر کے بعد اپنی فکر ی تربیت کرکے اپنے احساس کا حصہ بنایا اور فنی خلوص کو مارکسی نظریہ کے لیے کام کرتے ہوئے بھی مد نظر رکھا ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ان لوگوں میں کرشن چندر، فراق، فیض، ندیم، ساحر وغیرہ شامل ہیں۔ دراصل یہ لوگ تحریک کے وجود سے پہلے بھی اچھے فنکار تھے اور تحریک کے خاتمے کے بعد بھی اچھے رہے۔
دور جدید کی مقتل گاہ میں
اردو میں اسلامی یا اسلام پسند ادب کی تاریخ قدیم ہے، چاہے وہ صوفیانہ شاعری ہو یا اسلامی فکر و فلسفہ کا بیان۔ اقبال سے لے کر سید مودودی تک، نظم سے نثر تک۔ تاریخ، تفسیر، افسانہ یا ٹھیٹ فکری اور فلسفیانہ مضامین ،اسلامی ادب کی چھاپ ہر جگہ دکھائی دے گی لیکن فعال انداز میں مسلکی، جماعتی اور گروہی عصبیتوں سے ماوراء ہوکر کسی ایسے ادارے کا قیام جہاں اسلامی یا اسلام پسند ادیبوں کی کھیپ تیار ہو سکے ابھی تک تشنہ وجود ہے، گویا یہ ضرورت کے درجہ سے بڑھ کر فرض کفایہ بن چکی ہے جو پوری امت کے کچھ اہل علم پر لازم ہے۔ اور یہ کوئی ایسی سلف سے ہٹی ہوئی بات بھی نہیں کہ جس کو نظر انداز کر دیا جاۓ یہ تو آقا حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیہ وسلم کی سنت بھی ہے
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی۔ پھر سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ پھر سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ جب سیدنا حسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آ گیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دم سے مارتا ہے ( یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں)۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے، میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔ اک خواب جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے
دلیل جیسی اسلام پسند انجمنوں کا قیام ایسا ہی ایک خواب ہے جسے شرمندہ تعبیر ہونا ہے جس کو فسانے کی دنیا سے نکل حقیقت بننا ہے۔ گو بکری کی ذات چھوٹی ضرور ہے لیکن اس میں دل کو لگنے کے تمام اوصاف بھی ضرور موجود ہیں
گو ادب کی اس بسیط دنیا میں ایک چیونٹی ہی سہی لیکن اس کا وجود تو ہے بس قبولیت کی ایک نظر ہی تو چاہیے ......
[pullquote]رَبَّنَآ ءَاتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةًۭ وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًۭا[/pullquote]

Comments

Click here to post a comment