یہ اسی کی دہائی کی بات ہے کہ جب روشنیوں کے شہر میں ایم کیو ایم کا طوطی بول رہا تھا، جب شہر کے بام و در قد آدم پتنگوں اور اور ”قائد تحریک“ کی تصاویر سے مزین تھے اور اس فرد واحد کے ون ٹو تھری کہنے پر تین ہٹی سے عزیز آباد، اور دس نمبر سے عائشہ منزل تک ہزاروں کے مجمع کو سانپ سونگھ جایا کرتا تھا۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب بانیان پاکستان کی اولادوں میں تعصب کی وہ فصل بوئی جا رہی تھی جس کوکاٹنے اور اس کا سدباب کرنے کی سعی لا حاصل میں اگلی کئی دہائیاں صرف ہونے والی ہیں۔ اس کڑے وقت میں عصبیت کے اس سیلاب کے آگے شہر میں مٹھی بھر دھان پان سے نوجوان، جن میں سے کچھ کی مسیں بھی نا بھیگی ہوں گی، شہر نا پرساں کے در و دیوار پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث چسپاں کرتے نظر آتے تھے: ”جس نے عصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں، جس نےعصبیت کے لیے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں، جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے. (ابودائود)“ اس پیغام کی سزا کیا تھی؟ عقوبت خانے، خیل، اور ڈرل شدہ نعشیں۔ سعد بن صلاح اور غیور انور.
آج جس فرعون صفت کو شہر میں لب کشائی کی اجازت نہیں، کل اسی کی مدح سرائی میں سارا شہر گم تھا، جب کچھ کفن پوش یہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ کیا دور جاہلیت کی بات ہے کہ کلمہ گو بھائی کی تقسیم اس بنیاد پر کی جائے کہ وہ مقامی ہے یا غیرمقامی، اس کی زبان کیا ہے، وہ یوپی سی پی کا ہے، دکنی ہے، پنجابی ہے، یا اس کی رگوں میں کسی بلوچ یا پٹھان کا خون دوڑ رہا ہے؟ جبکہ میرے آقا و مولا نے یہ بات 14 سو سال پہلے اپنے آخری خطبے میں واضح طور پر کہہ دی تھی کہ: اے لوگو! خبردار تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے، خبر دار! کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر یا کالے کو سرخ پر اور نہ سرخ کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقوی کے۔ (مسند احمد)
جدید جاہلیت کے علمبرداروں کا نعرہ ہے کہ نسل و رنگ و قبائل پر تقسیم فطری ہے لہذا اسے ختم کرنا فطرت سے جنگ ہے۔ ان کے لیے اطلاعا عرض ہے کہ اسلام دین فطرت ہے، اگر تعصب کی عینک ہٹا کر اس آیت کو پڑھیں جس میں کہا گیا کہ قبیلے تو تعارف کےلیے ہیں، عزت تو متقی کےلیے ہے، تو یہ بات اظہر من الشمس ہوگی کہ اسلام قومیت و گروہ کی شناخت کے فطری رجحان کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے منسلک کسی امتیازی سلوک یا تفاوت کو رد کرتا ہے۔ لبرلز کا حال یہ ہے کہ جب مغرب اسی تفاوت کا خاتمہ ”افرمیٹیو ایکشن“ یا ”اینٹی ڈسکریمینیشن“ کے قوانین کے ذریعے کرتا ہے تو آپ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں لیکن جب اسلام پسند یہی کام کریں تو ان پر بنیاد پرستی کا لیبل چسپاں کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں کرتے۔ آپ لوگوں کو بانٹنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو اللہ کی بندگی سے نکال کر اپنی غلامی میں لا سکیں، جبکہ اسلام لوگوں کو جوڑنا چاہتا ہے۔ آپ لوگوں کو ان کی جبلی خواہشات کا اسیر رکھنا چاہتے ہیں، جس تنوع سے خالق نے انہیں تخلیق کیا، اس کا مذاق اُڑاتے رہے ہیں، یہ باتیں کسی محراب و منبر سے تو نا سنی ہوں گی آپ نے کہ بہاری نا کھپن، یا پنجابی کوئی زبان نہیں بولی ہے، یا سندھی تو کاہل مفت خور ہیں، اور بلوچ تو غار کے زمانے کے میلے کچیلے، سست جاہل جنگلی لوگوں سے زیادہ دور نہیں، یا بنگالی، وہ تو کالے، چھوٹے قد والے ہیں، موسی چاول کھائے گا، اور پشتون، ان کو تو ہم جنس اور بےوقوف ثابت کرنے کے لیے لطائف کا کثیر ذخیرہ موجود ہے، جبکہ ہم اردو بولنے والے سب سے اعلی و ارفع ہیں کہ ہماری زبان و بیان کی قوتیں اس پر استدلال کرتی ہیں، فاعتبروا یا اولوالابصار۔ وہ رب جس کے آگے ہم سب اپنی پیشانیاں سرنگوں کرتے ہیں، صاف الفاظ میں حکم کرچکا ہے کہ اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہو، اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ الحجرات۔
تقسیم در تقسیم کا یہ عمل نہیں رکتا، پر پی ایس پی و حقیقی کی کتنی ہی بینڈ ایڈز لگا لی جائیں، جس شاخ نازک پر یہ آشیانہ بنایا جا رہا ہے وہ اسلامی شناخت کی اکائی سے دوری ہے۔ جس ملک کی اساس اسلام ہے، اس کو قومیتوں اور گروہوں میں تقسیم کر کے پریشر گروپس کے ذریعے چلانا مسئلے کا حل نہیں۔ اگر یہ بات آپ کو عجیب لگے تو جان لیں کہ آپ اکیلے نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اسلام اس حال میں شروع ہوا کہ وہ اجنبی تھاا ور عنقریب اجنبی ہوجائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبی لوگوں کے لیے۔ عرض کیا گیا کہ اجنبی لوگ کون ہیں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جواسلام کی محبت میں قبیلوں سے علیحدہ ہوگئے۔ ( ابن ماجہ، ترمذی)
آج بھی وہ داعیان کلمۃ اللہ، وہ خواب دیکھنے والے آئیڈیلسٹ لوگ، وہ مواخات کا جذبہ رکھنے آپ کے بہت قریب ہیں جو وحدت ملت کی بات کرتے ہیں، جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں، جو تمام مسلمانوں کو ایک اکائی جانتے ہیں، ان کے مقابل عبداللہ بن اُبی کی مثل کے لوگ ہیں جس نے غزوہ بنی المصطلق کے موقع پر مسلمانوں کو باہم لڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مہاجرین جب ہمارے ہاں آئے تھے تو بھوکے ننگے تھے۔ اور اس کے بعد پھر یہ حالت ہوگئی ہے کہ یہ انصار کے خلاف جری ہوگئے ہیں اور ان سے لڑنے کے لیے تیار ہیں. جدید جاہلیت اپنے آپ کو کتنا ہی نفیس و ممذوق سمجھ لے، جاہلیت کا ہر ریفرنس ”جو ہم میں سے عزت والا ہے وہ ذلت والے کو نکال باہر کرے گا“ سے ہی جا ملے گا۔
درست..