ہوم << مجرم کون ؟ پولیس یا ہم؟ سید بدر سعید

مجرم کون ؟ پولیس یا ہم؟ سید بدر سعید

بدر سعید پولیس کا نام آتے ہی تھرڈ ڈگری، طاقت، کرپشن اور بدمعاشی جیسے خیالات جنم لیتے ہیں۔ یہ ہماری مجموعی سوچ ہے۔ آئیے اس سوچ کو منطقی انداز سے پرکھتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگوں کو گذشتہ 6 ماہ میں گرفتار ہونا پڑا؟ یا یوں کہہ لیں کہ ہمیں کتنی بار تھانے جا کر رپٹ لکھوانے پڑی۔ یقینا کئی لوگ تھانے گئے ہوں گے لیکن ان سے کہیں زیادہ افراد گذشتہ ایک برس یا اس سے بھی زیادہ عرصہ سے کسی پولیس اسٹیشن کے قریب بھی نہیں پھٹکے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں کے الگ تجربات اور سوچ ہو لیکن جو شخص کبھی پولیس اسٹیشن نہیں گیا اورکبھی کسی پولیس اہلکار سے اس کا واسطہ نہیں پڑا، وہ بھی پولیس سے نالاں نظر آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ پولیس کے خلاف ہم مخصوص ذہن بنا چکے ہیں اور سوشل میڈیا پر پولیس مخالف سٹیٹس لکھنے سے ریٹنگ ملتی ہے۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا ہم ایماندار پولیس اہلکار کو برداشت کرنے کو تیار ہیں؟ یقینا ہم سب ایماندار اور فرض شناس پولیس کے حق میں ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ پولیس کی ایمانداری کے قاتل ہم خود ہیں۔ ہم قانون کی پابندی کے بجائے قانون ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ ایمانداری، قانون کی حکومت اور معاشرے کی بہتری کے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن ووٹ اسی بدمعاش کو دینا پسند کرتے ہیں جو تھانے سے ہمارا بگڑا ہوا بچہ چھڑوا لائے۔ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہمارا بچہ ون ویلنگ، لڑائی جھگڑے یا کسی اور جرم کے تحت گرفتار کیا گیا ہے تو اسےگرفتار کرنے والا پولیس اہلکار برا نہیں ہے، برائی تو ہمارے اپنے دامن سے لپٹی ہوئی ہے۔ ہمیں شریف اور ایماندار سیاسی قیادت کے بجائے وہ بدمعاش چاہیے جو ہمارے ناجائز کام کروانے کی سکت رکھتا ہو۔
آپ کسی روز سڑک پر کھڑے ہو کر خود سروے کر لیں۔ لائن اور لین کی پابندی تو دور ہمارے اکثر شہریوں کو ان کاعلم تک نہیں ہوگا۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں اشارے موجود ہونے کے باوجود ٹریفک اہلکار کھڑا کرنا پڑتا ہے۔ ہر دوسرے ڈرائیور کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہوتا اور وہ شناختی کارڈ پر چالان کرواتا نظر آتا ہے۔ گاڑیوں کی فٹنس کا حال اس سے بھی برا ہے۔ گاڑیوں کے کاغذات پاس رکھنا ہم جرم سمجھتے ہیں۔ ہیلمٹ اور سائیڈ مرر سے ہماری شان گھٹتی ہے۔ معمولی باتوں پر اشتعال میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑنا معمول ہے۔ ہیرا پھیری کا یہ عالم ہے کہ سیاسی اکابرین سے لے کر دودھ فروش تک اس میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ اکثر ٹریفک جام ہونے کی وجہ ہماری اپنی جلدبازی ہوتی ہے۔ ان حالات میں جب پولیس اہلکار کسی کو گرفتار کرتا ہے تو الٹا اس پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری پولیس کرپٹ ہے یا ہم خود کرپشن کی کھیر پسند کرتے ہیں۔
اسی صورت حال کو ایک اور رخ سے دیکھ لیتے ہیں۔ ہمارا مجموعی خیال یہی ہے کہ کسی صحافی کو گرفتار کرنے کی جرات سنگین جرم ہے۔ کوئی قلمکار یا صحافی غلط ہو تب بھی ہمارے نعرے پولیس مخالف ہوتے ہیں۔ کسی تاجر کو چوری کا مال خریدنے پرگرفتار کیا جائے تو مارکیٹ یونین احتجاجاً پوری مارکیٹ بند کر دیتی ہے۔ کسی وکیل کے خلاف رپٹ بھی لکھی جائے تو عدالتوں کو تالے لگا دیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ محلہ کے کسی کونسلر کو بھی کسی جرم میں گرفتار کیا جائے تو اسے سیاسی انتقام کا رنگ دے کر ٹائر جلانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم ایسے ہر موقع پر نہ تو تحقیق کی زحمت گوارا کرتے ہیں اور نہ ہی تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں کہ کوئی صحافی، وکیل، تاجر یا سیاست دان بھی مجرم ہو سکتا ہے۔ ہم یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ سیاست دانوں کی اکثریت ملک لوٹ کر کھا گئی ہے اور ہم انہی سیاست دانوں کی گرفتاری پر ملک بند کر دینے کا اعلان بھی کرنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر پولیس کسے گرفتار کرے؟ میری طرح آپ بھی کچھ دیر کے لیے سب کام چھوڑ کر یہی سوچیں کہ مجرم کون ہے؟ ملزم کو گرفتار کرنے والی پولیس یا ملزم کو چھڑاوانے والے بااثر شہری؟ ہمارے معاشرے اور اسلام کے عدل و انصاف کے کلچر کو کون تباہ کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ چند لمحات کی یہ خود احتسابی آپ کو بھی قانون کی پاسداری پر مجبور کر دے گی۔

Comments

Click here to post a comment