3 ہزار افراد پر مشتمل فوج شام کی جانب روانہ ہوئی تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے دشمن کے ایک لاکھ فوجیوں پر مشتمل لشکر جرّار موجود تھا. پھر کیا کریں؟ جنگ کا ارادہ بدل دیں؟ کمک کا انتظار کریں؟ یا جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ کر گزریں؟ آخری آپشن اختیار کیا گیا. شام کے ایک مقام مُوتَہ پر جنگ ہوئی. 3 ہزار کا ایک لاکھ سے کیا مقابلہ، خاصا جانی نقصان ہوا، ایک ایک کرکے 3 سپہ سالار (حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم) بھی شہید ہوگئے. تھکی ہاری فوج واپس پہنچی تو بعض نے طعنہ دیا. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فوراً فرمایا: ”یہ راہِ فرار اختیار کرنے والے نہیں، بلکہ تازہ دم ہو کر پھر حملہ آور ہونے والے ہیں.“
یہ ہے تحریک اسلامی سے وابستہ فوجیوں کی شان، اپنی تعداد کی قلّت، دشمنوں کی کثرت، حالات کی ناسازگاری، شہادت پر شہادت، انھیں ہراساں نہیں کرتی اور وہ پوری آن بان کے ساتھ شاہراہِ حق پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں.
بنگلہ دیش سے ایک اور شہادت کی اطلاع آئی ہے. وہاں جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما، عظیم دانشور، مدبّر، ماہرِ اقتصادیات جناب سید میر قاسم علی (ولادت 31 دسمبر 1952) کو پھانسی دے دی گئی ہے. اس طرح وہ بھی قافلہ شہداء میں شامل ہوگئے ہیں. اس سے قبل اسی طرح ایک ایک کر کے چار رہنماؤں کو پھانسی دی جا چکی ہے. سب کا تعلق ایک دینی جماعت سے ہے، سب ایک ہی فکر کے علم بردار ہیں، سب کا جرم ایک ہے [pullquote]وَ مَا نَقَمُوا مِنھُم الا ان یُومِنُوا بِاللہِ (البروج:8)[/pullquote]
ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھنے والے اور حق کے پرستار ہیں.
یہ کائنات فطرت کے اصولوں سے جکڑی ہوئی ہے. جس طرح زمین میں اگائی جانے والی کھیتی پانی پاکر تازگی حاصل کرتی ہے، اسے جتنا کھاد پانی دیا جائے اتنا ہی وہ لہلہاتی ہے، اسی طرح ایمان کی کھیتی خون سے لہلہاتی ہے، اس کی راہ میں جتنی قربانیاں اور جتنی شہادتیں پیش کی جاتی ہیں اتنا ہی اس کی شادابی، جمال و رعنائی اور استحکام میں اضافہ ہوتا ہے. بس دیکھنے اور جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت یہ ہے کہ جو لوگ اسلامی تحریک سے اپنی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں، کہیں ان کے عزائم میں کمزوری اور ارادوں میں فتور تو نہیں آ رہا ہے.
غزوہ احد(3ھ) میں 70 مسلمان شہید ہوئے، بہت سے مسلمان زخمی ہوئے، قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش ہوا، بیواؤں اور یتیموں کے مسائل پیدا ہوئے، اس کے 2 سال بعد پورا عرب ایمان والوں کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے لیے چڑھ دوڑا. ایسے انتہائی نازک حالات میں ایمان کے علمبردار کن جذبات سے سرشار تھے، قرآن نے اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:
[pullquote]مِنَ المُؤمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاھدُوا اللہ عَلَیہ ، فَمِنھم مَن قَضَى نَحبَہ وَ مِنھم مَن يَنتَظِر وَ مَا بَدَّلُوا تَبدِيلاً (الاحزاب :23)[/pullquote]
”ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے، ان میں سے کوئی اپنے عہد کو پورا کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے، انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی.“
روایات میں آتا ہے کہ جب کسی صحابی کو اللہ کی راہ میں شہادت نصیب ہوتی تو دوسرے صحابہ کہتے: ”یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کردیا ہے.“
بنگلہ دیش کی سرزمین بھی گواہ ہے کہ اس کے جیالوں نے اللہ سے جو کچھ عہد کیا تھا، اس کو سچ کر دکھایا ہے. انھوں نے اس راہ میں ذرا بھی کمزوری نہیں دکھائی ہے اور آزمائشوں، مصائب، قید و بند، پھانسی کے پھندوں، کسی سے وہ نہیں گھبرائے ہیں. ان میں سے کچھ نے اپنی نذریں پوری کردی ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنے دعووں پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے اور بقیہ کے قدم بھی راہِ استقامت پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کے عزائم میں ذرا بھی ڈگمگاہٹ نہیں آئی ہے.
اے اللہ! ہم نے بھی حق کی حمایت اور طرفداری کا اعلان کیا ہے. اے اللہ! تو ہمیں بھی استقامت عطا فرما. اے اللہ! ہمیں جتنے دن بھی زندگی عطا فرما، اسلام پر قائم رکھ اور جب موت آنی ہو تو ایمان کی حالت میں ہمیں اٹھا. آمین، یا رب العالمین!
تبصرہ لکھیے