ہوم << مسلمانوں اور بدھوں کے ایک دوسرے پر اثرات (2) - دائود ظفر ندیم

مسلمانوں اور بدھوں کے ایک دوسرے پر اثرات (2) - دائود ظفر ندیم

دائود ظفر ندیم کچھ علما کا قیاس ہے کہ تصوف پر بھی بودھی اثرات ہیں۔ مثلاً بایزید بسطامی (804 تا 874 عیسوی) نے اپنے شیخ ابو علی السندی کے زیرِاثر تصوف میں ”فنا“ اور ”خدعہ“ کے تصورات متعارف کرائے۔ فنا کا مطلب ہے انسانی ہستی کا خاتمہ اور انفرادی خودی کو کلیتاً فنا کرتے ہوئے اللہ کے ساتھ ایک ہو جانا، اور خدعہ کا مطلب دھوکہ یا فریب ہے، وہ الفاظ جن سے مادی دنیا کو بیان کیا جاتا ہے۔ بدھ مت کے تمام مکاتبِ فکر اس سے ملتے جلتے موضوع، ”نروان“یعنی مسلسل جنم در جنم سے نجات کو زیر بحث لاتے ہیں اور بہت سے مہایانی مکاتبِ فکر کا مؤقف یہ ہے کہ یہ عالم ظاہر گو کہ ”مایا“ یعنی فریب نہیں لیکن مایا جیسا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ بدھ مت کی کسی بھی صورت نے صوفیانہ فکر کے ارتقا میں کوئی کردار ادا کیا ہو۔
صوفی تعلیمات میں زور خدا سے بھرپور محبت کرنے اور اس سے لو لگانے پر ہے، ان کا خدا ہر شے سے عیاں اور ظاہر ہے۔ مسلمان ان صوفیوں اور ان کے انداز فکر اور اس طریقے کو بہت پسند کرتے ہیں لیکن یہ صوفی جس وجد آفرین عشق کی بات کرتے ہیں وہ بدھ کی تعلیمات میں پہلے سے موجود ہے جو نام ہے خاموش مراقبہ، دھیان کرنے اور اپنے اندر تلاش کے عمل کا۔ بہت سے صوفی سلسلوں میں دعا و مناجات کا جو پہلو نظر آتا ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا بدھ مت میں سکھایا اور کروایا جاتا ہے۔ بدھ مت کے بہت سے پیروکار اکٹھے ہو کر گانے اور پڑھنے کو بہت پسند کرتے ہیں
وسطی ایشیا کی ایک اور شعری روایت ہے جو اسلام اور بدھ مت کے درمیان ایک دلچسپ انداز میں پُل بنانے کا کام کرتی ہے۔ اسے رباعیات کہتے ہیں۔ ترک زبانوں میں اسے ”کوشما“ کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ”وہ جو ذہن میں رواں ہو۔“ ایک گریزاں خیال ہے جسے آپ گرفت میں لے آتے ہیں، ایسا خیال جسے چھوڑ دینا چاہیے لیکن آپ اسے قابو میں لے آتے ہیں۔ پھر آپ شعر کہتے ہیں اور آخری مصرعہ کا اضافہ یوں کرتے ہیں کہ وہ معانی کو پلٹ دیتا ہے، مشہور شاعر عمر خیام نے اس کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہے اور بہت سے صوفیا نے بھی خاص طور پر وہ صوفیا جن کا تعلق وسطی ایشیا سے تھا۔ ترکی کے معروف لوک شاعر یونوس ایمرے اس کی اچھی مثال ہیں جو صوفی کے طور پر بھی بخوبی جانے جاتے ہیں ان کی بہت سی نظموں کا آغاز قبرستان میں کسی قبر پر بیٹھ کر غوروفکر کرنے سے ہوتا ہے جو مراقبے کی عام شکل ہے۔
واحد بودھی متنی روایت جو کہ اسلامی روایات اور اعتقادات کا ذکر کرتی ہے، سنسکرت کی ”کالچکر تنتر“ تحریریں ہیں جو کہ دسویں صدی عیسوی کے اختتام اور گیارہویں کے شروع میں اغلباً جنوب مشرقی افغانستان اور شمالی پاکستان میں ظاہر ہوئیں۔ سنسکرت کی ”کالچکر تنتر“ تحریریں دسویں صدی عیسوی کے اختتام اور گیارھویں صدی کے شروع میں سامنے آئیں۔ بودھی اساتذہ نے یہ ضروری جانا کہ اپنے پیروکاروں کو مسلمانوں کے اعتقادات سے متعارف کروائیں۔ ان تحریروں میں مسلمانوں کے لیے جو اصطلاح استعمال کی گئی ہے وہ ”طائی“ ہے۔ طائی اسلام سے پہلے سب سے طاقتور عرب قبیلہ تھا اور ”تازی“ فارسی زبان میں عربوں کا نام پڑ گیا۔ مثال کے طور پر آخری ساسانی پادشاہ یزدگرد سوّم نے عرب حملہ آوروں کے لیے تازی کی اصطلاح استمعال کی تھی۔
کالچکر تحریریں مسلمانوں کے کچھ عقائد اور رسومات کا ذکر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر،
”شاندار کالچکر تنتر کے مزید تنتر کا اصل“ میں (مسلمانوں کے بارے میں) آیا ہے ”اُن کی ایک ہی ذات ہے، وہ چوری نہیں کرتے اور سچ بولتے ہیں۔ وہ پاک صاف رہتے ہیں، دوسروں کی بیویوں سے احتراز کرتے ہیں، مسلّم زاہدانہ طریقوں پر عمل کرتے ہیں اور اپنی بیویوں کے وفادار رہتے ہیں۔“
”مختصر راجائی کالچکر تنتر“ (باب: 1، شعر: 153) اشلوک میں ان مسلمانوں کے آٹھ پیغمبروں کی فہرست دی گئی ہے۔ ”آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، سفید پوش، محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور مہدی۔“
یوں لگتا ہے کہ اسماعیلی عقائد کی وجہ سے اس میں سفید پوش اور مہدی کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سفید پوش تیسری صدی عیسوی کی شخصیت مانی کی طرف اشارہ ہے جو مانویت کے بانی تھے۔ یہ اس لیے کہ ابتدائی اسماعیلی مفکرین پر مانی کے زیادہ اثرات تھے۔ اسماعیلی فرقے کے ایک اہم راہنما اور فاطمی اماموں کے جدِ امجد عبداللہ بن میمون القدح (وفات:825 عیسوی) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مانی سے بہت متاثر تھا۔
کالچکر تحریروں کی اس فہرستِ پیامبران میں 8 پیغمبر گنوانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس سے پہلے کے اشلوک (باب:1، شعر:152) میں وشنو کے جو 8 اوتار بتائے گئے ہیں، تو ان انبیاء کی تعداد کو بھی اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کالچکر تحریریں اسلامی موضوعات کو ہندو بودھی قارئین کے لیے آشنا الفاظ میں پیش کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پنڈاریکا اپنی کتاب ”بےداغ روشنی 'مختصر راجائی کالچکر تنتر' کی وضاحتی شرح“ میں لکھتا ہے: محمد، رحمن کے ایک اوتار تھے۔
”مختصر راجائی کالچکر تنتر“ (باب 2، شعر 164) میں آیا ہے کہ ”خالق کی پیدا کردہ ہے ہر تخلیق شدہ چیز، ساکت اور متحرک۔ اسے خوش کرنے سے، طائیوں [مسلمانوں] کے لیے نجات کا باعث، جنت ہے۔ اور یقیناً یہ رحمان کی تعلیمات ہیں انسانوں کے لیے۔“
پنڈاریکا ”بے داغ روشنی 'مختصر راجائی کالچکر تنتر' کی وضاحتی شرح“ میں اس کی تشریح کچھ یوں کرتا ہے: ”سو، طائی [مسلمانوں] کا کہنا ہے کہ رحمن خالق نے ہر برسرعمل شے کو پیدا کیا، چاہے وہ متحرک ہو يا ساکت ہو۔ مسلمانوں یعنی طائی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ نجات اس سے ملتی ہے کہ رحمن ان سے خوش ہو جائے اور اس سے ان کو یقینی طور پر (جنت میں) ایک اونچا نیا جنم ملے گا۔ اسے ناراض کرنے سے جہنم میں (دوبارہ جنم لے کر) جانا ہو گا۔“
پنڈاریکا اس کی مزید تفصیل یوں بتاتا ہے: ”طائی لوگوں [مسلمانوں] کا کہنا یہ ہے کہ جو لوگ مر جاتے ہیں ان کو رحمان کے فیصلے کے مطابق ایک بالاتر جنم میں (جنت میں) یا جہنم میں اپنے انسانی جسم کے ساتھ خوشی یا عذاب ملے گا.“
”مختصر راجائی کالچکر تنتر" (باب2، شعر174) میں آیا ہے ”ہمیشہ رہنے والی آخرت کی زندگی سے ہی فرد کو اپنے ان تجربات کے نتیجے کا سامنا ہوتا ہے جو اس دنیا میں اپنے پہلے کے کیے ہوئے کرموں کا پھل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو ایک جنم سے دوسرے جنم میں جاتے ہوئے انسانی کرموں کا بوجھ اترنے کا امکان نہ رہےگا۔ اس طرح سمسار سے اخراج نہ ہو سکے گا اور مُکش میں قدم دھرنے کی نوبت نہ آئے گی خواہ اس کو ہستئ لامحدود کے معنی ہی میں کیوں نہ لیا جائے۔ یہ خیال طائیوں میں بلاشبہ پایا جاتا ہے۔“
بودھی سیاق و سباق میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام محض ابتلا کے عذاب سے نجات کی، یا بدتر پنر جنم حالتوں سے نجات کی بات کر رہا ہے۔ یہ نجات جنت میں ایک اعلی تر دوسرا جنم ہے۔ بدھ مت اس سے آگے، ہمہ جانب سرایت شدہ سمسار کے عذاب سے نجات کی بات کرتا ہے اور سمسار میں جنم در جنم سلسہ ابدی ہے سوائے اس کہ آپ اس بارہ میں کچھ کریں، یعنی دھرم کی طرف رُخ کریں۔
واجر سورج کی تابانی، عظیم کالچکر تنتر کی عبارت کے مطلب کی وضاحت، باب پنجم کی شرح، گہری آگہی میں لکھا ہے۔ ”مسلمانوں کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ ہر فرد جو عارضی جنم لیتا ہے یا جس کا کوئی ایک پہلو سمسار میں جنم لیتا ہے اس کی روح کا مقصد ہے خدا کی خوشنودی حاصل کرنا۔ اس کے سوا وہ کسی اور طرح کے نروان کا دعوی نہیں رکھتے۔“
'ذمہ داری اٹھانے کے سوتر' میں مہاتما بدھ نے فرمایا کہ ”وہ لوگ جو اپنے کیے کے ذمہ دار ہوں واقعی موجود ہیں مہاتما بدھ کی مراد ان لفظوں سے یہ ہے کہ انسان ایک ایسی ذات کا تسلسل ہے جو اپنے کرموں کی ذمہ دار ہے اور اس ذمہ داری کا اطلاق محض اس تسلسل پر لاگو ہوتا ہے جو اپنی ماہیت میں نہ تو دائمی ہے نہ مٹ جانے والی ہے۔“
(جاری ہے)
پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

Comments

Click here to post a comment