4ستمبر کا دن اسلامی تحریکوں کی اپیل پر گزشتہ کئی سالوں سے عالمی یوم حجاب کے طور پر منایا جارہا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں تقریبات، سمینارز اور سموزیم منعقد کیے جاتے ہیں۔ اخبارات میں خصوصی ایڈیشنز شائع ہوتے ہیں۔ ٹی و ی چینلز خصوصی نشریات ترتیب دیتے ہیں جس سے شعوروآگہی کا سفر جاری رہتا ہے۔ اللہ اور رسولﷺ کے احکامات بارے جاننے ،انہیں اپنانے اور ان پر عمل کرنے کا داعیہ فروغ پاتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے اور رب کائنات نے انسان کی فطرت میں جو چیز ودیعت کی ہے اسلام اس کا بول بالا چاہتا ہے۔ اخلاقیات، اچھائی، پاکیزگی، نیکی، حلال و حرام کی تمیز اسلام کی تعلیمات کاحصہ ہیں۔
حجاب اسلامی معاشرے کا ایک اہم وصف ہے جو خواتین کو عزت، وقار اور افتخار سے نوازتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں زور زبردستی نہیں لیکن مغرب اور مغرب سے متاثرہ افراد یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشروں میں بھی عورت مغرب کی طرح بے حجاب رہے۔ یہ عورت کا اپنے اللہ ،اس کے رسولﷺ اور اسلامی تعلیمات اور اقدار کے ساتھ معاملہ ہے کہ وہ کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ مغرب مسلمان عورت پر بےحجابی اور بے پردگی مسلط کرنا چاہتا ہے اس لیے مغربی معاشروں میں حجاب اور سکارف کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ مغرب میں حجابی عورت کو تشدد اور طعن و تشنیع برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن وہ حجاب پر عمل پیرا رہتی ہے اور ہر طرح کا ظلم و تشدد سہتی ہے، سرراہ آوازے کسے جاتے ہیں، لباس کھینچا جاتا ہے، حجاب نوچا جاتا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ آزادیوں کا پرچار کرنے والا فرانس ہو یا برطانیہ، امریکہ ہو یا یورپ کا کوئی اور ملک، پردے اور حجاب پر پابندی کے ضمن میں یک زبان ہیں۔ ان کا رویہ دوغلے پن اور تضاد کا شکار ہے۔ ایک طرف مغرب آزادیوں کا راگ الاپتا ہے اور دوسری جانب اگر کوئی اپنی آزاد مرضی سے اپنی دینی تعلیمات پر عمل کرتا ہے تو اسے اس دوغلے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حجاب کیا ہے؟ حجاب اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں عورت کے لیے سر اور سینہ ڈھانپا لازمی ہے۔ حجاب ایسا ہو کہ زینت کی جگہیں نمایاں نہ ہوں۔ ایسا حجاب جس سے حجاب کی جگہیں نمایاں ہوں اسے حجاب کہنا مذاق تو ہو سکتا ہے حجاب نہیں۔ حجاب حیا دار لباس ہے جس سے حیا کا کلچر فروغ پاتا ہے، برائی اور بے حیائی کا سدباب ہوتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حجاب آنکھ اور دل کے پردے کا نام ہے وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں جو جسمانی پردے سے انکار کرے وہ دل اورآنکھوں کا کیا پردے کرے گا۔ یہ صرف خلط مبحث ہے۔
اگر کوئی حجاب کے حق میں نہیں تو یہ اس کی ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہو سکتا ہے لیکن اسلام اور اسلامی شریعت کا تقاضا تو یہی ہے اس کی پاپندی کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ بے پردہ یا بےحجاب ہونا آزادی کا نام نہیں، یہ مغرب کے معاشرے میں تو چل سکتا ہے لیکن ایک اسلامی معاشرے میں اس کا گزر ممکن نہیں۔ اگر کوئی اپنے آپ کو مسلمان بھی کہے اور مسلمانی کے تقاضے پورے نہ کرے تو وہ نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے کام کا اور صحیح مسلمان نہیں ہوسکتا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حجاب کی ضرورت نہیں، وہ دراصل اسلامی تعلیمات اور شریعت سے آشنا نہیں ہیں۔ دین اسلام سے یہ ناآشنائی انہیں یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ حجاب کی ضرورت نہیں حالانکہ اسلامی تعلیمات و احکامات میں حجاب کا اہم مقام ہے۔ حجاب عورت کے تحفظ کا ضامن، عفت و پاکدامنی کا رکھوالا اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ حجاب اسلامی روایات و اقدار کا امین اور جسمانی و روحانی تہذیب کی تشکیل کا اہم ذریعہ ہے اور یہ اس عالمی تہذیب، حیاء اور کلچر کا حصہ ہے جو پوری مسلم دنیا کا شعار ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والا فرد ہو یا معاشرہ، وہ کبھی بے ثمر نہیں رہتا۔ اللہ کی برکات و فیوض ان معاشروں اور افراد کو اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لیتی ہے اور وہ اس سے فیضیاب پاتے ہیں۔
حجاب کے بارے بے ہودہ گفتگو، تبصرے، طعن و تشنع سے بھرپور جملے مغرب کے تعصب، گمراہی اور اسلامی تعلیمات سے ناآشنائی کی علامت ہیں۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جو آزادی دی ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلامی معاشرہ، مغربی معاشرے کی پیروی نہیں کر سکتا اور نہ ہی کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اسلام دین کامل ہے اور اس میں تمام امور زندگی کے بارے مکمل راہنمائی دی گئی ہے جبکہ عیسائیت، یہودیت، جین مت، بدھ مت اور ہندومت اور دوسرے مذاہب اپنی اصل چھوڑ کر بھول بھلیوں میں گم ہو گئے، ان کے لیے بھی اسلام اخروی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے اگر وہ اس کو اختیار کر لیں۔ دنیاوی کامیابیوں کو اخروی کامیابیوں سے کوئی نسبت نہیں۔ اخروی کامیابی اور نجات کا پیمانہ اور ہے اور دنیاوی کامیابی اور نجات کا اور۔ اب جس کا جو جی چاہے وہ اس کا انتخاب کر لے۔
تبصرہ لکھیے