پہلے کی طرح اس بار پھر پیپلزپارٹی کو سپریم کورٹ کے سامنےگھٹنے ٹیکنے پڑے۔ بالاآخر 24 اگست 2016ء کو زرداری کی پارٹی کو کڑوی گولی کھانا پڑی اور سندھ بھر میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات ہوئے اور کراچی سے الطاف حسین کے دست راست وسیم اختر میئر منتخب ہوئے۔ وسیم اختر نے تمام امور کو ایماندارٖی سے غیرجانبدار ہوکر پاکستان کے قوانین کے تحت ادا کرنے اور اس ملک کے آئین اور اس کی بقا کے تحفظ کا حلف لیا۔ موصوف نے پہلے بھی مشرف دور میں اہم وزارت کا حلف لیا تھا اور اس حلف کی پاسداری کرتے ہوئے 12مئی کو مہاجر مائوں سے اُن لخت جگر، بہنوں سے بھائی، نوجوان لڑکیوں سے اُن کے سہاگ اور معصوم بچوں کے سر سے باپ کا سائے چھین کر، 60 نہتے شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا تھا.
کراچی کی عوام سوچ رہی تھی کہ ہمارا میئر ہماری امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اس شہر کی روشنیں واپس لانے، پانی، کوڑا کرکٹ اور نکاسی آب جیسے مسائل کے حل اور شہر میں لگی دہشت گردی کی آگ کو بجھانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کرے گا۔ شاید کراچی کی عوام بھول گئی تھی کہ وہ شخص ان کی امنگوں کی ترجمانی کیا کرے گا؟ جو اُس لشکر کا حصہ تھا جس نے الطاف کے حکم پر بلدیہ فیکٹری میں اُس طبقے کے 300 افراد کو زندہ جلا دیا تھا جن کے گھر میں دو وقت کی روٹی کے لیے آٹا نہیں ہوتا ۔ جن کے بچے سکول جانے کے بجائے محض ایک سو روپے کے لیے ہوٹلوں پر برتن دھوتے ہیں جن کی بچیاں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کنواری مرجاتی ہیں، جن کو خوشی کے تہوار پر پہنے کےلیے بھی نئے کپڑے میسر نہیں آتے۔
ویسے پاکستانی قوم کی یادداشت کمزور ہے لیکن کراچی والوں کی ذرا زیادہ ہی کمزور ہے جو یہ بھول بیٹھے کہ ایسا شخص اور پارٹی جو خود مسائل کی وجہ ہیں، انھیں کیسے حل کریں گے، اور اس شہر کی روشنیاں کیسے واپس آئیں گی؟
لیے جو پھرتے ہیں تمغہ فن، رہے جو ہم خیال رہزن
ہماری آزادیوں کے دشمن ہماری کیا رہبری کریں گے
کیا کراچی کو فرض شناس میئر مل گیا؟ - ثقلین مشتاق

تبصرہ لکھیے