تو کیا اب ہر محب وطن یہ سمجھ لے کہ وہ اکیلا ہے؟
اس کی پیٹھ خالی ہے؟
اس کو بس اپنے ہی بل بوتے پر جو کرنا ہے سو کرنا ہے؟
اسے کسی سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے ؟
ان سے بھی نہیں جنہوں نے ان کے ملک و دین کے لیے اخلاص کو ملکہ نور جہاں کی ایک مسکراہٹ جتنی اہمیت بھی نہیں دی؟
جن کی نظر میں ان کا اپنی زندگی سے گزر جانا کسی طوائف کے کوٹھے پر”چیچی دے چھلے“ والا گانا گا لینے سے بھی کم اہم ہے؟
ان کے لیے بھی نہیں جو ملک و قوم کے نام پر سیاست کرتے نہیں تھکتے؟
غضب خدا کا بنگلہ دیش میں پھانسی گھاٹ پر میرے شہداء کی قطاریں لگی ہیں اور پاکستان میں کوئی پھوٹے منہ ان کا ذکر کرنے کو بھی تیار نہیں؟
کوئی بنگلہ سفیر کو بلا کر رسمی کارروائی کا روادار بھی نہیں؟
کوئی میڈیا اینکر؟
کسی سیاسی جماعت کا کوئی ورکر؟
کوئی تیسرے درجہ کا سیاسی لیڈر ہی سہی؟
کوئی این جی او ؟
کوئی ادارہ ؟
کوئی بھی نہیں ؟
زبانیں گنگ ہیں، قدم زنگ آلود ہیں، کیوں آخر کیوں؟
یارو کچھ تو بولو، یہ قبرستان کی خاموشی کیوں ہے؟
یہ میرا میر قاسم
خدا کی قسم! تم ایک تو ایسا پیدا کر کے دکھائو؟
موت کی سزا ہوئی ہے اسے، موت کی سزا!
پتہ بھی ہے موت ہوتی کیا ہے؟
مگر وہ کمال کا آدمی مسکرا کر بولا ہے رحم کی اپیل؟
وہ بھی ان ظالموں سے؟
سوری یہ زبان اس کے لیے بنی ہی نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی تو کوئی بات نہیں
یہ وفاداروں کے قبیلہ کے لوگ ہیں
یہ نظام حاضر و موجود کے باغی ہیں
یہ مودودی کے شاگرد ہیں جس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ زندگی و موت کے فیصلہ یہاں نہیں ہوتے
یہ اس قافلہ کے شہ سوار ہیں جسے صحابہ کی روایتوں نے قوت اور توانائی فراہم کی ہے
ان کی راہیں عارضی وقتی فوری مفادات کی بنیاد پر بنتی اور تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ ازلی اور ابدی اصولوں سے کشید کی جاتی ہیں
ان کے پیش رو سید احمد شہید اور ٹیپو سلطان جیسے لوگ ہیں
تم انہیں پھانسی نہیں دیتے، شہادت کا تحفہ دیتے ہو
ان کی زندگی تو امانت ہوتی ہے اور امانت جتنی اچھی طرح مالک تک پہنچے، امین کے لیے اتنے ہی اچھے انعام کا سبب بنتی ہے
یہ تو اس روایت کے پیروکار ہیں کہ جب ان کے ایک بڑے کی پھانسی نظربندی میں تبدیل ہوئی تو انہوں نے کیا خوب کہا تھا کہ
مستحق دار کو حکم نظربندی ملا
کیا کہوں کیسے رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی
یہ تو اپنا بہترین صلہ پانے جا ہی رہے ہیں
یہ تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف لوٹ رہے ہیں مگر
تیرا کیا بنے گا حسینہ ؟
تو مودی کے ساتھ ہی اپنا انجام دیکھ لے
اور وہ سب بھی سوچ لیں جنہوں نے اپنی زبانیں بےنام سے مفادات اور سفارتی آداب کی سوئیوں سے سی لی ہیں
جلد میرے رب کے پھانسی گھاٹ سجنے کو ہیں
تمہارے اور ان پھانسی گھاٹوں میں فرق بس اتنا ہے کہ تم پھانسی دے کر عزت والی موت سے ہمکنار کرتے ہو اور میرے رب کی سزا میں موت نہیں آئے گی، ہر لمحہ مرنا اور اذیت ناک مرنا ظالموں کا نصیب بن جائے گا. ان شا اللہ
Very Nice ... لگ بھگ یہی تجزیہ میں نے چند ماہ پیشتر لکھا، جو بصورت کالم ایک اخبار میں بھی شائع ہوا۔ مختصر ترین الفاظ میں کہنا چاہئے کہ ہم آپ عام لوگ اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں سوائے اس کہ قلم اور قرطاس کا جو ذریعہ ہمیں میسر ہے اسے بروئے کار لا کے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں حتی المقدور حصہ ڈالا جائے۔ یہ کیس خالصتاً حکومتی سطح کا ہے، جو کام حکومتی کارپرداز کر سکتے ہیں، انھیں کرنا چاہئے مگر وہ نہیں کر رہے۔ جیسا کہ آپ نے کہا، اس کا خمیازہ اس شکل میں نہ بھی بھگتنا پڑے تب بھی ہر عالمی فورم پر اس آواز کو اُٹھانا لازم ہے کہ یہ اصلاً ریاست پاکستان کا مقدمہ ہے۔