ایک گز کا ٹکڑا بس ایک گز کا ٹکڑا ہی تو ہوتا ہے! اور میں بھی کپڑے کا ایک گز کا ٹکڑا ہی تو تھا جو حیا کی تاریخ میں امر ہوگیا۔ جب بھی لکھنے والے لکھیں گے، سننے والے سنیں گے اور پڑھنے والے پڑھیں گے، دنیا میں جب اور جہاں بھی حیا کا کوئی حوالہ دیا جائے گا، میرا ذکر ضرور ہوگا، کیونکہ اس روز میں ہی تھا جو ام خلادؓ کے باحیا چہرے کو اچھی طرح ڈھانپے ہوئے تھا۔ مجھے ان کے وہ آنسو یاد ہیں جو آنکھوں سے نکل کر مجھ میں جذب ہو رہے تھے۔ میں ان کا دکھ سمجھ سکتا تھا۔ وہ گہرا اور شدید کرب جو ان کی آہستہ آہستہ سسکیوں میں ڈھل گیا۔ میں ہی وہ ایک گز کا ٹکڑا، وہ نقاب ہوں جسے اس قیامت خیز دن بھی میری مالکن نے زندگی کے اذیت ناک ترین دن اپنے چہرے پر لپیٹا ہوا تھا اور اس شدت کے لمحے بھی انھوں نے مجھے ایک انچ سرکنے نہ دیا۔ میں نے بارہا عرب کی عام عورتوں کو ایسے ہی غم کے لمحات میں پاگل ہوتے، دکھ کی شدت سے اپنے کپڑے پھاڑتے، سر میں دھول ڈالتے اور دوپٹوں و اوڑھنیوں کے بغیر بےتابی و غم کی کیفیت میں باہر گلیوں میں نکل آتے دیکھا تھا۔ مگر آج ام خلادؓ تاریخ لکھنے جارہی تھیں۔ دکھ کی شدت کے عالم میں بھی اطاعت کی تاریخ! اور اس تاریخ ساز لمحے ان کا حجاب انسانیت کو یہ پیغام دینے جارہا تھا کہ حالات خواہ کیسے ہی شدید کیوں نہ ہوں۔ حیا مومنہ عورت کا وہ زیور ہے جو کبھی کسی بھی حال میں اس سے جدا نہیں ہوتا۔ یہ ام خلادؓ کون ہیں؟ انھوں نے ایسا کیا کیا تھا جس کی تعریف میں یوں بولے جارہا ہوں۔ آئیے میں آپ کو ان کا تعارف کراتا ہوں۔
میری مالکن میرے نبی محترم ﷺ کی ایک اطاعت شعار مئومنہ ام خلادؓ ، میرے نبیﷺ کی وہ صحابیہ تھیں کہ جب ایک شدت کی لڑائی میں ان کا پیارا بیٹا اللہ کی راہ میں لڑتا ہوا شہید ہوگیا اور معرکے کے بعد وہ اس کی شہادت سے بےخبر نبی مہربان ﷺ سے بیٹے کی خیریت جاننے کے لیے تشریف لاتی ہیں تو انہیں اپنے کڑیل جوان کی شہادت کی خبر ملتی ہے۔ اردگرد موجود لوگوں کو عرب کے عمومی رواج کے مطابق توقع تھی کہ اس ماں کا کلیجہ پھٹ پڑے گا۔ وہ حیا اور حجاب کو بالائے طاق رکھ کر نہ جانے کس طرح بین کرے گی۔ مگر یہ کیا! لوگ حیران رہ گئے جب ام خلادؓ نے کمال صبر و ضبط سے بیٹے کی شہادت کی خبر سنی اور اسے برداشت کرگئیں۔ جس صبر سے انھوں نے یہ دل دہلا دینے والی خبر سنی اور کمال ضبط کا مظاہرہ کیا۔ قریب موجود تمام لوگ حیرت میں ڈوب گئے۔ ایک ماں کے لیے اولاد سے بڑھ کر قیمتی چیز اور ہوتی ہی کیا ہے۔ ام خلادؓ کا سختی سے کسا ہوا نقاب تک نہ سرکا۔ یہ کیا میں خود بھی حیران تھا۔ مجھے بھی عین توقع تھی کہ دکھ کی شدت میں وہ مجھے یعنی اپنے نقاب کو نوچ پھینکیں گی مگر نہیں، بلکہ الٹا جب انھوں نے لوگوں کا تعجب دیکھا تو وہ خوبصورت تاریخی جملے کہہ گئیں جو قیامت تک حیاء و حجاب کی تحریک کو مہمیز دیتے رہیں گے۔ انھوں نے فرمایا
”بیٹے کی مصیبت آئی تو کیا ہوا، میری شرم و حیاء پر تو مصیبت نہیں آئی ہے.“
مجھے فخر ہے کہ اس تاریخی لمحے کا میں بھی ایک حصہ تھا۔ میں ہی اس وقت اس عظیم ماں کے مقدس چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھا۔ میں ہی ام خلادؓ کے حیاء سے لبریز دل اور آنکھوں کے اظہار کی علامت تھا۔ میں ہی وہ گز بھر کا نقاب تھا جو ام خلادؓ کی عظمت و شان کا سبب بنا۔ اور آخر کیوں نہ بنتا میری مالکن تھی ہی اس قابل کہ محدث و مورخ اس کے الفاظ ہمیشہ کے لیے امر کر دیتے۔ میری مالکن نبی مہربان ﷺ کی فرمانبردار صحابیہؓ تھیں۔ وہ اس دور کی مسلمہ تھیں جب لوگ اپنی آنکھوں سے نبی ﷺپر وحی نازل ہوتے دیکھا کرتے تھے۔ وہ حجاب کے احکامات سنتی تھیں۔ سورہ نور ان کی آنکھوں کے سامنے نازل ہو رہی تھی۔ وہ اس تابناک عہد کی ایک محصنہ اور قانتہ تھیں کہ جب ان کی ایک بہنؓ صحابیہ نے بازار سے گزرتے ہوئے حجاب کے احکامات سنے تو وہیں ایک دیوار کی طرف منہ کرکے منہ چھپا کر بیٹھ گئیں۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ کی بندی گھر تو چلی جاؤ، پھر چادر لے لینا۔ وہ بولیں زندگی کا کیا بھروسہ، نہ پہنچ پائی تو نافرمانوں میں شمار کی جاؤں گی۔ بچے کو بھیج کر گھر سے چادر منگوائی۔ اور اسے اوڑھ لپیٹ کر چہرہ اور جسم خوب چھپا کر اطاعت کا عملی نمونہ بن کرگھر روانہ ہوئیں۔
میری مالکن ام خلادؓ اس دور کی انسان تھیں جو میرے نبی محترم ﷺ سے سنتی تھیں کہ جو عورتیں بن سنور کر غیروں میں جاتی ہیں، ان کی مثال قیامت کی اس تاریکی کی ہے جس میں کوئی روشنی نہ ہوگی۔ وہ اللہ کے نبیﷺ سے سنتی تھیں کہ کپڑے پہن کر ننگی ہونے والی، دوسروں کو رجھانے اور ان پر ریجھنے والی عورتیں جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکیں گی۔ اور خوشبو بھی وہ جو 5سو برس کی دوری سے سونگھی جاسکتی ہو۔ مجھے فخر ہے میں وہ گز بھر کا نقاب ہوں جو ایک تہذیب کی علامت تھا۔ میں ان کا فخرتھا۔ میں ان کی حیاء تھا۔ ان کا اعزاز تھا۔ ان کے اکرام کا سبب تھا۔ احترام کا ذریعہ تھا۔ میری وجہ سے ام خلادؓ حجاب کا حوالہ بن گئیں۔
اللہ کے رسولﷺ کی 2016ء کی امتی بہنو اور بیٹیو! ام خلادؓ کے گز بھر کے نقاب کو ذرا چشم تصور سے دیکھو! وہ بڑی معصومیت سے پوچھتا ہے کہ وہ بندیاں کہاں ہیں جن کے دل حیاء کی دولت سے بھرے ہوں؟ جو خلادکی ماںؓ کی طرح غم و دکھ کے لمحات یا خوشی کی تقریبات میں، بازارمیں جاتے وقت اور تعلیم گاہوں میں اپنے سروں کو ڈھانپے اپنے پیارے نبی ﷺ کی عزت و شان میں اضافے کا سبب بنتی ہوں؟ جن کو حوض کوثر پر میرے نبی محترم ﷺ اپنے پاس بلا کر پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیریں گے اور سب سے کہیں گے کہ یہ ہیں میری وہ پیاری بیٹیاں جن کے دل و دماغ حیاء کی پاکیزگی سے معطر تھے۔ یہ ہیں فتنوں کے زمانے کی میری وہ بیٹیاں جو ساری ترغیبات نفس اور شیطانی وسوسوں کو شکست دے کر خود کو اچھی طرح ڈھانپا کرتی تھیں۔ حیاء ان کے دل و دماغ اور رگ و ریشے میں خوب اچھی طرح پیوست تھی۔ پھر وہ بہت محبت سے اپنے ہاتھوں سے ان ڈھانپے ہوئے سروں پر ہاتھ پھیر کر انھیں خود اپنے دست مبارک سے جام کوثر پیش کریں گے۔ تو پھر کیوں نہ ہم آج حیاء و حجاب کا راستہ اختیار کریں تاکہ کل نبی مہربانﷺ کی رفاقت کا اعزاز پا سکیں.
تبصرہ لکھیے