ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور آفادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے. ٹی وی چینلز کی حیثیت ابلاغ میں ریڑھ کی ہڈی سی ہے، نیوزچینلز خبر کا بہترین اور مئوثر ذریعہ ہیں جو معلومات کی بروقت فراہمی کے لیے ہر کسی کی بنیادی ضرورت ہے۔ تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ ہر خبر فوراً سے پہلے کے مصداق ٹی وی سکرین پر موجود ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کا کام عوام کو باخبر رکھنا ہے، پرنٹ میڈیا کو اس میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ پرنٹ میڈیا نہ صرف ہر خبر کی تفصیل فراہم کرتا ہے بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی خبر کو مکمل تحقیق اور ذمہ داری سے پہنچاتا ہے۔ اسی لیے بےشمار نیوزچینلز کی تمام تر تیزیوں اور چکاچوند کے باوجود پرنٹ میڈیا نے اپنی شناخت کو نہ صرف قائم ودائم رکھا ہے بلکہ آج بھی آگاہی کے لیے ہر کسی کی ضرورت اور خاص طور پر مڈل کلاس طبقہ کی آواز سمجھا جاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی بات کریں تو خبروں کے ساتھ مثبت تفریح بھی لازم ہے۔طنز و مزاح پر مشتمل مزاحیہ سیاسی پروگرامات اچھی کاوش ہیں لیکن جب سے صحافتی میدان میں کامیڈین آنا شروع ہوئے ہیں، نیوزچینلز کی صحافتی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے۔ جب صحافت میں بھانڈ اور مراثی آجائیں گے تو پھ رخیر کی امید کیونکر رکھی جاسکتی ہے۔
لمحہ فکریہ ہے کہ مختلف نجی چینلز پر تفریح کے نام پر پیش کیے جانے والے مزاحیہ پروگرامات میں لوگوں کی عزت ِ نفس مجروح کرکے معززین کا مذاق اڑا یا جا رہا ہے۔ الٹے سیدھے ناموں اور برے القابات سے پکارا جاتا ہے اور مختلف رشتوں پر مبنی کرداروں میں پیش کی جانے والی اخلاق باختہ گفتگو بھی خونی رشتوں کی عظمت و احترام اور ہماری اسلامی و مشرقی روایات کے منافی ہے۔
دوسروں کو ملکی قوانین کی پاسداری اور اخلاقیات کے لمبے چوڑے لیکچر دینے والے میزبان اینکرز خود اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں، پیمرا قوانین اور صحافتی اقدار کو بری طرح پامال کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ تفریح کے نام پر عام آدمی سے لے کر سیاستدانوں تک سب کو ’’ڈی گریڈ‘‘ کرنا اور بےحیائی کو ترویج دینا مقصود ہے۔ مستقل کرداروں میں پروفیسر جیسے قابل احترام اور اعلیٰ منصب پر فائز شخصیت کو انتہائی تضحیک آمیز رویے کے ساتھ شرمناک جملے کسے جاتے ہیں، جو کہ اینکرز کی تعلیمی استعداد، تخریبی سوچ اور ناقص تربیت کی عکاسی کرتا ہے کہ قوم کو بےجا، بےمقصد اور بےلگام تفریح کے بخار میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ سب ریٹنگ کی دوڑ میں ہواس باختہ ہوگئے ہیں اور خوداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ بسا اوقات مزاحیہ تفریحی پروگرامات لائیو بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کامیڈین سالہا سال سے سٹیج ڈراموں میں لازوال پرفارمنس (جن پر پولیس کے چھاپے بھی پڑتے رہے ہیں) دینے کے بعد لائیو ٹی وی شو میں ایسے بےحیائی اور بےشرمی والے فقرے بھی بول جاتے ہیں کہ جسے لکھتے ہوئے قلم شرما رہا ہے جبکہ وہ تمام اخلاق باختہ فقرے معروف ٹی وی شوکی زینت بن کر نیوز چینل سے آن ائیر ہوچکے ہیں۔ اس کے برعکس بین الاقوامی چینلز کے تقریباً 70فیصد پروگرامات ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں اور آن ائیر ہونے سے قبل تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ پروگرام ملک کی سرحدوں کے خلاف تو نہیں، مذہبی ومسلکی منافرت پر مبنی تو نہیں، کسی کمیونٹی کی دل آزاری کا باعث تو نہیں۔
یہاں آوے کاآوا ہی بگڑا ہوا ہے، آخر یہ سب کیا ہے؟ الیکٹرانک میڈیا تفریح کے نام پر کیا دے رہا ہے؟ اور اس سے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آخر الیکٹرانک میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو کب سمجھے گا اور معاشرے کے لیے مثبت سوچ کب اپنائے گا۔
خود کو عقل کُل ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے نام نہاد ٹی وی اسکالرز علم کے عین سے بھی واقف نہیں ہیں کہ علم کا سب سے بنیادی تقاضا اہل ِعلم افراد کی عزت و تکریم اور اخلاقیات ہے۔ لاکھ سیاسی اختلافات کے باوجود سیاستدان ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں، اسی طرح اسپورٹس سے وابستہ افراد ملک کے سفیر اور قوم کے ہیرو ہیں۔ ان کی غلطیوں اور ناکامیوں پر مثبت تنقید اور اصلاح کرنے کے بجائے تضحیک کرنا، اخلاقیات سے گرے ہوئے الفاظ کے ساتھ مذاق اڑانا کہاں کی صحافت ہے۔ صحافتی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دوسروں کی آزادی سلب کرلیں اور آزادی ِ صحافت کی آڑمیں معززین کو بدنام کرنے کے درپے ہوجائیں۔ ہر روز نئی مخبری کرنے والوں کے بارے میں کسی مخبری کی ضرورت نہیں، بس گذشتہ پروگرامات دیکھ لیں آپ کو آئینہ ہوجائے گا کہ ہر کسی کو لتاڑنا اور مخصوص افراد کو نوازنا یقینی طور پر کسی لفافے کی کرامت ہی ہوسکتا ہے۔
پیمرا کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور ایسے افراد کے خلاف پیمرا ایکٹ کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے۔ ’’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس 2015‘‘ کے سیکشن 17اور 18 کے مطابق سیاستدانوں کی کارٹون، بلاگ، تجزیہ میں تضحیک کرنا قابل گرفت جرم ہے جس پر قید اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے، اس ایکٹ کے تحت کسی بھی خلاف ورزی کے مرتکب شخص یا ادرے کو بغیر وارنٹ فوری گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ قانون نافظ کرنے والے ادروں کو چاہیے کہ کسی بھی امتیاز اور تعصب کے بغیر ’’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس‘‘ کے تحت جرم کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا ہائوسز مالکان اپنا احتساب کریں اور ریٹنگ کی ڈور میں سرپٹ بھاگنے کے بجائے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور آزادی صحافت کے نام ہونے والے اس کھلواڑ کا حصہ نہ بنیں، بےلگام تفریح اور جانبداری یہی وجوہات ہیں کہ لوگوں کا الیکٹرانک میڈیا سے اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے. یہ مکافات عمل ہے کہ نیوزچینلز پر دوسروں کی شکلیں اور نام بگاڑ کر تضحیک کرنے والے اینکرز آج سوشل میڈیا جو کہ کروڑوں پاکستانیوں کی آواز بن چکا ہے، پر انہی اینکرز کی بگڑی ہوئی شکلیں، طنزیہ نام اور بےشمار لعن طعن نظر آتی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ باقی ماندہ عزت کو سمیٹ لیا جائے، تضحیکی اور تخریبی ہتھکنڈوں کے بجائے مثبت اور تعمیری صحافت کو فروغ دے کر الیکٹرانک میڈیا کا وقار بحال کیا جائے۔
تبصرہ لکھیے