اہل شکم جس تجربہ کاری اور ویژن کو ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کا نام دیتے ہیں، کیا آپ نے اس’’پنجاب سپیڈ ‘‘ کی ڈھینچوں ڈھینچوں ،کٹ کٹ کٹاک اور ککڑوں کوں سنی ہے؟ لیکن ٹھہریے پہلے ذرا یہ کافروں کی بات ہو جائے۔ پھر تجربہ کاری اور ویژن سے مالا مال پنجاب سپیڈ کی ڈھینچوں ڈھینچوں ،کٹ کٹ کٹاک اور ککڑوں کوں سنیں گے۔
کبھی آپ نے سوچا یہ یہودی کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں؟ کینسر جیسے موذی مرض کی انہوں نے ویکسین بنا لی ہے۔اس ویکسین کا کمال یہ ہے کہ اس کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہے۔ یہ صرف کینسر کا باعث بننے والے خلیوں کو تباہ کرے گی۔ یروشلم کے حداش آئن کیرم یونیورسٹی ہاسپٹل اور حیفہ کے رامبام میڈیکل سنٹر میں اس ویکسین کے کامیاب تجربات ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کے ڈاکٹر لیور کیمرون کا کہنا ہے کہ بلڈ کینسر سمیت نوے فیصد کینسر کا کامیاب علاج اس ویکسین کے ذریعے ممکن ہے۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر اپنے جی ڈی پی کا تیس فیصد سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ آبادی کے تناسب سے اسرائیل میں سائنسدانوں کی تعداد دنیا بھر کے تناسب سے دس گنا زیادہ ہے۔ بی بی سی کی 14اکتوبر 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والا ملک اسرائیل ہے۔ تل ابیب اس وقت دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا رہا ہے۔ نیوز ویک کا کہنا ہے کہ تل ابیب کا شمار دنیا کے دس بڑے سائنسی مراکز میں ہوتا ہے۔ گوگل کے چیئر مین ایرک شمریت کا کہنا ہے کہ اسرائیل امریکہ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ہائی ٹیک سنٹر ہے۔
اسرائیل چونکہ صحرا پر مشتمل ہے، اس لیے اسے توانائی اور پانی کے بحران کا سامنا رہا۔ اس نے ہماری طرح دنیا کے آ گے دست سوال دراز نہیں کیا بلکہ اپنی خوشیاں خود تلاش کیں۔ بجلی کے بحران کا حل اس نے سولر واٹر ہیٹر کی صورت میں ڈھونڈا۔ آج اسرائیل کی پچھتر فیصد آبادی یہ ہیٹر استعمال کر رہی ہے اور دنیا بھر میں یہ ہیٹرز استعمال ہو رہے ہیں۔ اسرائیل میں پینتیس کمپنیاں یہ ہیٹر تیار کر کے دنیا کو فروخت کر رہی ہیں اور قومی آمدن میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ صحرا میں دور تک پانی پہنچانا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔پائپ موسم کی حدت سے لیک ہو جاتے تھے۔ اسرائیل نے یہ پراجیکٹ ہیبریو یونیورسٹی کے حوالے کیا۔ یونیورسٹی میں یہودیوں نے طلبہ تنظیموں کے ذریعے دنیا فتح کرنے کا ملا نصیر الدینی فارمولا لاگو نہیں کیا تھا بلکہ وہاں صرف علمی و تحقیقی کام ہوتا ہے چنانچہ دو سالوں میں یونیورسٹی نے اس کا حل نکال لیا۔ اب وہاں پانی کی لیکج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انٹر نیشنل واٹر ایسو سی ایشن نے اسرائیل کے اس کامیاب پراجیکٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: اسرائیل نے کمال کر دیا ہے۔ صرف اسرائیل کے اس واٹر پراجیکٹ پر آسٹریلیا میں آٹھ پی ایچ ڈی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔گیارہ ممالک اسرائیل سے یہ ٹیکنالوجی خرید رہے ہیں۔
صحرا میں زراعت کے منصوبے پر کام کرنا انتہائی کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، بالخصوص ہم پاکستانیوں کے لیے تو یہ ایک ناممکن کام ہے کیونکہ ہم سے ابھی تک چولستان کی ویرانیاں ختم نہیں ہو رہیں۔ اسرائیل نے نہ صرف اس چیلنج کو قبول کیا بلکہ اس نے کمال کر دکھایا۔ اس نے 1959ء میں ’ڈرپ اری گیشن‘کا کامیاب تجربہ کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ذرا وقت دیکھیں جب وہ یہ تجربہ کر رہا ہے۔یہ وہ دن تھے جب اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ عرب دنیا ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئی تھی اور اسرائیل کے لیے چار سو خطرات تھے کہ ایک طوفان اٹھے گا اور اس ناجائز ریاست کا وجود ختم ہو جائے گا۔ لیکن ان حالات میں بھی وہ اپنی زراعت پر توجہ دے رہے تھے اور انقلابی منصوبے بنا رہے تھے۔اس سے آپ اندازہ قائم کر سکتے ہیں کہ وہ کس بلا کے منصوبہ ساز ہیں اور خود پر ان کے اعتماد کا عالم کیا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ ڈرپ اری گیشن سے اسرائیل نے اپنے صحرائوں کو قابل کاشت بنا لیا ہے۔ صرف قابل کاشت نہیں بنایا اس کی پیداواری صلاحیتوں نے دنیا بھر کے زرعی ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ دنیا کے زرخیز ترین علاقے میں کاشت ہونے والی فصلوں سے چار گنا زیادہ فصل اسرائیل اب اپنے صحرائوں سے اٹھا رہا ہے۔ یہ اوسط دنیا کے بہترین زرعی میدان رکھنے والے مملک بھی نہیں دے سکے۔ اسرائیل کے صحرائوں سے کاشت ہونے والے فصل پاکستان کے زرعی میدانوں سے حاصل ہونے والی فصل سے اوسطا پانچ گنا زیادہ ہے۔ اس غیرمعمولی کامیابی نے امریکہ اور آسٹریلیا کو مجبور کیا کہ وہ اسرائیل سے رجوع کریں چنانچہ آج امریکہ اور آسٹریلیا اسرائیل سے یہ ٹیکنالوجی اور آلات خرید رہے ہیں۔
سپیس سائنس میں اسرائیل اس وقت دنیا میں دوسرے نمبر پر کھڑا ہے۔ پہلا سیٹلائٹ’ اوفیق ون‘اس نے 1988ء ہی میں بنا لیا تھا۔ سوئٹزر لینڈ کا ’ لارج ہائیڈرون کولیڈر سنٹر ‘ دنیا بھر میں ایک مقام رکھتا ہے۔ اس میں کام کرنا سائنسدانوں کے لیے ایک اعزاز ہوتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس وقت اسرائیل کے پچاس سائنسدان اس ادارے میں کام کر رہے ہیں۔ اسرائیل اس وقت دنیا میں ایرو سپیس پراڈکٹ بیچنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں بھی اسرائیل سب سے آ گے ہے۔ انٹل نے ڈوئل کور کور ڈو ٹیکنالوجی حیفہ ریسرچ سینٹر میں متعارف کرائی تھی۔ فلیش ڈرائیو آج ہماری زندگی کا اہم جزو بن چکی ہے، یہ بھی ایک اسرائیلی نے تیار کی تھی، اس کا نام ڈوو موون تھا۔
بریسٹ کینسر کا علاج اسرائیل نے متعارف کروایا تھا۔ دنیا بھر میں جتنی ادویات تیار ہو رہی ہیں، اسرائیل اس میں سرفہرست ہے۔ اسرائیل کی ٹیوا فارما سوٹیکل کمپنی دنیا میں سب سے زیادہ ادویات تیار کر رہی ہے۔
یروشلم پوسٹ نے چند روز قبل فخر سے یہ دعوی کیا :’’ ہم چنے ہوئے لوگ ہیں‘‘۔ اخبار کا کہنا تھا جن شعبوں میں ہم دوسرے نمبر ہیں وہاں امریکہ اس لیے پہلے نمبر پر ہے کہ امریکہ میں مقیم یہودی اس کی سائنسی تحقیق کو آ گے بڑھا رہے ہیں۔ گویا امریکہ کی سائنسی ترقی بھی یہودیوں کی مرہون منت ہے۔
یہودیوں کی اس علمی ترقی سے جب آدمی حیرت زدہ ہو جاتا ہے تو تجربہ کاری اور ویژن سے مالامال پنجاب سپیڈ کی ڈھینچوں ڈھینچوں، کٹ کٹ کٹاک اور ککڑوں کوں آدمی کو ششدر کر دیتی ہے۔ دنیا کے تعلیمی ادارے علم و تحقیق کے نئے جہان آباد کر رہے ہیں۔ اسرائیل تو رہا ایک طرف بھارت کے تعلیمی ادارے بھی مختلف شعبوں میں علم و تحقیق کے سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں لیکن عالم یہ ہے کہ ایک طرف پی ایچ ڈی کے تھیسز چربہ سازی کا شاہکار پائے جاتے ہیں تو دوسری جانب تعلیمی ادارے مختلف قسم کے انقلابوں کی تجربہ گاہ بنا دیے گئے ہیں جہاں آپ کو ہر قسم کے قائدین انقلاب تھوک کے حساب سے ملیں گے۔ نہیں ملے گی تو علمی جستجونہیں ملے گی۔ رہی سہی کسر پنجاب سپیڈ کی ڈھینچوں ڈھینچوں ، کٹ کٹ کٹاک اور ککڑوں کوں نے پوری کر دی ہے۔ خبر یہ ہے کہ پنجاب حکومت لڑکیوں کے سکولوں میں علم و تحقیق کی نئی دنیا آباد کرنے کے لیے تین سو بیس ملین روپے کی خطیر رقم سے ایک پروگرام متعارف کرا رہی ہے۔ اس کے تحت ایک ہزار گرلز سکولوں کو چنا گیا ہے۔ ان سکولوں کو چار مرغیاں اور ایک مرغا مع پنجرہ عنایت فرمایا جائے گا۔ تجربہ کاری کا کہنا ہے کہ اس سے بچیوں کو کچن کے بارے تجربہ حاصل ہو گا۔ پنجاب سپیڈ کی اس افلاطونیت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ سکول میں بچیاں سیکڑوں کی تعداد میں ہوں گی مرغیاں چار ہوں گی، کچن کا تجربہ کہاں سے حاصل ہو گا۔ یہ کس ہستی کا پولٹری کا کاروبار ہے جسے اس افلاطونیت سے سہارا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تین سو بیس ملین کی یہ مرغیاں کس شخصیت کے پولٹری فارمز سے خریدی جائیں گی۔ اور پنجاب سپیڈ کو کس نے بتایا ہے کہ لڑکیاں صرف کچن میں کام کرنے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ کیا پنجاب سپیڈ میں یہ ہمت ہے کہ ایسا واہیات پروگرام بیکن ہائوس، فروبلز یا سٹی سکول وغیرہ میں بھی متعارف کرا سکے۔ کیا ان بے ہودہ تجربات کے لیے صرف غریبوں کی اولاد نظر آتی ہے۔ یہاں اتفاق سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ پنجروں کے لیے سریا کس فائونڈری سے لیا جائے گا۔
اہل اقتدار کی فکری معراج یہیں ختم نہیں ہو تی۔ کچھ عرصہ قبل حکومت پنجاب کا ایک اشتہار شائع ہوا جس کا عنوان تھا:’’ چھو لو آسماں‘‘۔ بادی النظر میں لگا قوم کی فکری اور سماجی ترقی کا کوئی غیر معمولی منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے لیکن متن پر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا عزیز ہم وطن گدھوں اور کتوں کی ریس لگانے والے ہیں۔ نور دین کے گدھے نے جب جیت کر ڈھینچوں ڈھینچوں کی ہو گی تو پنجاب سپیڈ نے آسمان چھو لیا ہو گا۔
انتخابات سے چند روز قبل جناب احسن اقبال نے فرمایا تھا کہ پی پی کے پاس تجربہ ہے لیکن جذبہ نہیں، تحریک انصاف کے پاس جذبہ ہے لیکن تجربہ نہیں جبکہ ن لیگ کے پاس تجربہ بھی ہے اور جذبہ بھی۔ اس تجربے اور جذبے کو اب ایسی پنجاب سپیڈ لگی ہے کہ یہ ککڑوں کوں، کٹ کٹ کٹاک اور ڈھینچوں ڈھینچوں کر نے لگاہے۔
کیا بات ہے پنجاب سپیڈ کی؟
تبصرہ لکھیے