جب سے تعلق مکتب دیوبند سے بنا، ایک طعنہ ہمیشہ سننے کو ملا کہ دیوبندی متشدد ہیں، یہ مخالفین کو برداشت نہیں کرتے، ان کے ہاں کافرکافر کے فتوے ہی ملتے ہیں. پروپیگنڈہ اس زور سے پھیلایا گیا کہ بڑے بڑے لوگ متاثر ہوئے. آئیے ذرا چلتے ہیں ان الزامات کی طرف کہ ان میں کتنی صداقت ہے؟ کیا یہ باتیں درست ہیں؟ کیا واقعی اکابردیوبند ایسے تھے یا بعد کے لوگوں نے انہیں بدنام کروایا؟ اس کے بعد فیصلہ خود کیجیے گا.
ایک مثال سے سمجھیے کہ جب ہندوستان تقسیم ہو رہا تھا، اس وقت علمائےدیوبند میں اختلاف پیدا ہوا، کچھ تقسیم کے حق میں تھے اور کچھ تقسیم کے مخالف. تقسیم کے مخالف ہندوؤں کے ساتھ کھڑے تھے مولانا حسین احمدمدنی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا کفایت اللہ دہلوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مولانا سندھی سمیت کئی علماء گاندھی کے ساتھ کھڑے تھے. یہ سب بزرگ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے نہیں بلکہ سیکولر ریاست کے قیام کے لیے ہندوؤں کے ساتھ کھڑے تھے، کتنی برداشت تھی ان لوگوں میں؟ جن ہندوؤں کو ہم مکار اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں، وہ ان کے ساتھ کھڑے تھے، اس سے بڑھ کر اعتدال کی اور مثال کیا ہوگی؟
دوسری طرف کچھ لوگ مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے تھے، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مفتی شفیع و دیگر قائداعظم کے شانہ بشانہ تھے، سب کو معلوم ہے کہ قائداعظم ایک شیعہ رہنما تھے، انہوں نے اپنےآپ کو اسماعیلی شیعہ لکھوایا، ان کے شیعہ ہونے کے باوجود ان بزرگوں نے ا نکاساتھ دیا، صرف ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے ان کاجنازہ بھی پڑھایا. یہ اعتدال نہیں تو کیا ہے؟
آپ ذرا بعد کے لوگوں کی طرف آئیں. مفتی محمود صاحب نے پیرپگاڑا اور دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر سیاسی تحریک چلائی، کبھی ذات پات مسلک کو مشترکہ جدوجہد میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور مولانا فضل الرحمن سے لاکھ اختلاف سہی لیکن انھوں نے ایم ایم اے بنائی جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ جمع تھے، اہل تشیع، بریلوی، جماعت اسلامی، اہلحدیث و دیگرجماعتیں. مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں کئی غیرمسلم موجود ہیں.
یہ سب چیزیں کیا ہیں؟ اعتدال اور برداشت ہی تو ہے، لائو ایسے لوگ جو ایسے کردار کے مالک ہوں؟ ان بزرگوں نے کلمہ گو لوگوں کو ہی نہیں غیرمسلموں کو بھی برداشت کیا، یہی سچ اور اعتدال ہے.
تبصرہ لکھیے