حج اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک عظیم رکن ہے، تمام عمر میں ایک مرتبہ ہر اس مسلمان عاقل بالغ شخص پر فرض ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اتنا مال دیا ہو کہ وہ مکہ مکرمہ آنے جانے پر نہ صرف قادر ہو، بلکہ واپسی تک اپنے اہل وعیال کے مصارف بھی برداشت کرسکتا ہو۔ ( حج کی باقی شرائط بھی اس میں پائی جاتی ہوں)
حج امت محمدیہ کی خصوصیت ہے. حج کا رواج اگرچہ سیدنا حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کے زمانے سے ہے، مگر اس وقت فرضیت کا حکم نہ تھا، حج کی فرضیت امت محمدیہ علی صاحبھا السلام کے ساتھ خاص ہے۔
حج کب فرض ہوا؟
جمہور علمائے اہل سنت اور راجح قول کے مطابق حج ہجرت کے بعد 9 ہجری کے اواخر میں فرض ہوا، اس وقت حج کا زمانہ نہ ہونے کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے سال 10 ہجری کو حج ادا فرمایا، اس کو حجۃ الوداع بھی کہتے ہیں، کیوں کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو داغ مفارقت دے گئے۔
حج کی فرضیت کا ثبوت
حج کی فرضیت قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
قرآن مجید سے ثبوت
قرآن مجید کی متعدد آیات سے حج کی فرضیت ثابت ہے، مگر سورہ آل عمران کی درج ذیل آیت اس حوالے سے بالکل صریح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ” اللہ ( کی خوشنودی) کے لیے لوگوں پر بیت اللہ کا حج (ضروری) ہے، اس شخص پر جو وہاں تک جاسکے۔“
احادیث مبارکہ سے ثبوت
متعدد احادیث میں حج فرض ہونے کا تذکرہ ہے، یہاں ان میں سے بعض کو بیان کیا جاتا ہے :
مسلم شریف میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے وعظ فرمایااور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے، پس تم حج کرو۔
صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور سول ہیں، اور نماز پڑھنا، اور زکوٰۃ دینا، اوربیت اللہ کا حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا۔
صحیحین ہی کی ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کا فریضہ حج جو بندوں پر ہے، وہ میرے والد پر بڑھاپے کی حالت میں فرض ہو گیا ہے، وہ سواری نہیں کرسکتے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر جج فرض ہو جائے اور کوئی عذر لاحق ہو تو کسی اور شخص کے ذریعے حج کروایا جائے۔
حج کی فرضیت پر اجماع
ملک العلماء علامہ کاسانی رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف بدائع الصنائع میں حج کی فرضیت پر اجماع کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں۔
”واما الاجماع: فالان الامہ اجمعت علی فرضیتہ“ یعنی تمام امت نے حج کی فرضیت پر اجماع کیا ہے۔
شرائط حج
حج کی ادائیگی اور فرضیت کے لیے کچھ شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، بعض علماء نے ان کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے : شرائط وجوب، شرائط وجوب ادا، شرائط صحت ادا ، شرائط وقوع فرض۔
شرائط وجوب
یہ سات شرطیں ہیں، جن کے پائے جانے سے حج فرض ہو جاتا ہے، اگر ان میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو فرضیت ساقط ہو جاتی ہے:
اسلام (کافر پر حج نہیں)۔
بلوغ (نابالغ پر حج فرض نہیں)۔
عاقل ہونا، آزاد ہونا (پاگل اور غلام پر حج فرض نہیں)۔
حج فرض ہونے کا علم ( لیکن یہ مسلمان ممالک میں رہنے والوں کے لیے شرط نہیں، بلکہ کفار کے ممالک میں رہنے والوں کے لیے ہے )۔
استطاعت و قدرت ( یعنی حج کے اخراجات ومصارف، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ سرمایہ اہل و عیال کے حج سے واپسی تک کا خرچ، مرض، سواری، اپنے پیشے کے آلات، مرمت مکان وغیرہ ضروریات سے فاضل و زائد ہو، لہٰذا اگر مکان، زمین، مال تجارت اور آلات پیشہ وغیرہ ضرورت سے زائد ہیں تو ان کا فروخت کرکے حج کا ادا کرنا ضروری ہے۔
حج کا وقت ہونا ( یعنی اشہر حج شوال، ذی قعدہ اور دس روز ذوالحجہ کے۔ ہمارے ملک میں وقت کا اعتبار اس وقت سے ہوگا جب عام طور سے حج درخواستیں وصول ہونا شروع ہو جائیں)۔
شرائط وجوب ادا
یہ پانچ شرطیں ہیں، حج کا وجوب اگرچہ ان پر موقوف نہیں ہوتا، لیکن ادا کرنا ان کے پائے جانے پر واجب ہوتا ہے، لہٰذا شرائط وجوب اور شرائط وجوب ادا دونوں بیک وقت پائی جائیں تو پھر خود حج کرنا فرض ہوتا ہے اور اگر شرائط وجوب ادا میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو خود حج کرنا واجب نہیں ہوتا، البتہ حج بدل کی وصیت کرنا واجب ہوتا ہے۔
تندرست ہونا، قید یا حاکم کی طرف سے ممانعت کا نہ ہونا، راستے کا پرامن ہونا، عورت کے لیے محرم کا ہونا (محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے نکاح کسی بھی وقت جائز نہ ہو) محرم کا دین دار ہونا بھی ضروری ہے، اگر محرم دین دار نہ ہو تو عورت پر حج نہیں، عورت کا عدت سے خالی ہونا۔
یہ وہ شرائط ہیں جن کے بغیر حج صحیح نہیں ہوتا:
اسلام، احرام، حج کے زمانہ میں افعال حج یعنی طواف اور سعی وغیرہ کا مقررہ اوقات میں کرنا، مکان یعنی ہر عمل کو اس کی متعین جگہ پر ادا کرنا، جیسے وقوف میں ہونا اور طواف کا مسجد حرام میں ہونا وغیرہ، تمیز، عقل، احرام کے بعد وقوف عرفہ سے پہلے جماع کا نہ ہونا، افعال حج کو خود ادا کرنا، جس سال احرام باندھے، اسی سال حج کرنا۔
شرائط وقوع حج
حج کے فرائض واقع ہونے اور ذمہ ساقط ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
حج کے وقت مسلمان ہونا، آخری عمر تک اسلام کا رہنا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا، خود حج کرنا بشرطیکہ قدرت ہو، حج کو جماع سے فاسد نہ کرنا، کسی دوسرے کی طرف سے حج کی نیت نہ کرنا، نفل کی نیت نہ کرنا۔
سفر حج کے آداب
اگر کسی مسلمان پر حج فرض ہو جائے اور تمام شرائط پائی جائیں تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل کرکے اس کی تیاری شروع کرے، تاخیر نہ کرے ، اس سلسلے میں چند آداب کی رعایت سے ان شاء اللہ حج مقبول کی سعادت نصیب ہوگی۔ سب سے پہلے اپنی نیت درست کرے اور اس کی اصلاح کرے کہ یہ عمل ادائے فریضہ اور محض اللہ کی رضا کے لیے کر رہا ہوں، سفر سے پہلے صدق دل سے تمام گناہوں سے توبہ کرے، اگر کسی کے حقوق ادا کرنے ہیں تو ادا کرے یا معاف کروائے، والدین زندہ ہوں تو ان سے اجازت لے، اگر وہ خدمت کے محتاج ہوں تو بلا اجازت جانا مکروہ ہے، اسی طرح سفر حج سے پہلے کسی دین دار اور تجربہ کار شخص سے ضروریات سفر وغیرہ کے سلسلہ میں مشورہ کرے، حلال مال سے حج ادا کرے، حرام مال سے حج قبول نہیں ہوتا، اگرچہ فرضیت ذمہ سے ساقط ہو جاتی ہے، کوئی صالح رفیق سفر تلاش کرے، اگر عالم دین میسر ہو تو بہت بہتر ہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے اور احکام حج کے سلسلہ میں مدد و معاونت کرے۔
حج کے سفر سے پہلے خوب اہتمام سے کسی معتبر عالم دین سے حج کے مسائل سیکھے تاکہ حج کو جیسے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح ادا کر سکے۔ سفر حج کے دوران ہر طرح کے معاصی سے اجتناب کرے، لڑائی جھگڑا، فحش گوئی اور فضول بازار میں گھومنے پھرنے اور وقت ضائع کرنے سے احتراز کرے، فضول خرچی بھی نہ ہو اور کنجوسی بھی نہ ہو، بلکہ میانہ روی اور اعتدال سے خرچ کرے۔ اپنے لیے، اہل وعیال، علاقہ وملک اور تمام عالم اسلام کے لیے خوب اہتمام سے دعائیں کرے۔
حج کی تاکید اور تارک کے لیے وعید
حج فرض ہو جانے کے بعد بلاعذر اس میں تاخیر کے بجائے جلد از جلد ادائیگی کی کوشش کی جائے، حج کے بارے میں احادیث میں بہت تاکید اور باوجود قدرت واستطاعت کے نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
امام ابوداؤد رحمۃ اللہ نے اپنی سنن کے کتاب المناسک میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ حضو راکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ جلدی کرے۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن کے ابواب الحج، باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص زاد راہ اور سواری کا مالک ہو کہ وہ اسے بیت اللہ تک پہنچا دے تو اس کے یہودی یانصرانی مر جانے میں (اور بغیر حج کیے مر جانے میں) کوئی فرق نہیں اور یہ (وعید) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لیے لوگوں پر کعبہ کا حج ضروری ہے، جو وہاں تک جاسکتا ہو۔
اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مشکوٰۃ کی شرح مرقاہ میں فرماتے ہیں کہ استطاعت کے باوجود فرضیت کا منکر ہونے کی وجہ سے حج نہیں کیا تو یہود و نصاری کے ساتھ کفر میں مشابہت ہو گی اور اگر کاہلی وسستی کی وجہ سے بغیر عذر کے حج نہیں کیا تو مشابہت گناہ میں ہوگی۔
حدیث بالا کا مضمون ایک اور حدیث میں بھی وارد ہو ا ہے، حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو حج کرنے سے کوئی کھلی ہوئی ضرورت، یا کوئی ظالم بادشاہ، یا کوئی معذور کر دینے والا مرض نہ روکے اور وہ بغیر حج کیے مر جائے تو اسے اختیار ہے، چاہے یہودی مرے ، چاہے نصرانی مرے۔
یہود و نصاری کے ساتھ تشبیہ کی وجہ بیان کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں کہ تارک حج کو یہودی اور نصرانی کے ساتھ مشابہ قرار دینے میں نکتہ یہ ہے کہ یہود و نصاری نماز تو پڑھتے تھے لیکن حج نہیں کرتے تھے۔
فضائل حج
انسان فائدے کا حریص ہے، فائدہ دیکھ کر مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے، حج کی خوبیاں وفضائل تو بہت زیادہ ہیں، یہاں بعض کو بطور تذکیر ذکر کیا جاتا ہے تاکہ حج کا داعیہ اور شوق پیدا ہو ۔
صحیحین میں ہے : ”من حج فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ․“ ترجمہ ”جو شخص اللہ کے لیے حج کرے اور ( دوران حج) نہ اپنی اہلیہ سے ہم بستری کرے اور نہ فسق میں مبتلا ہو تووہ اس طرح ( بےگناہ ہو کر) لوٹتا ہے جیسے ( اس دن بےگناہ تھا) جس دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا۔“ شراح حدیث نے رفث سے اگرچہ جماع مراد لیا ہے، لیکن معنی عام مراد لینے سے دیگر معانی جیسے تعریض بالجماع، فحش گوئی وغیرہ بھی اس میں شامل ہوجائیں گے ، امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کا میلان بھی اسی طرف ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حج اور عمرہ ساتھ ساتھ کرو ، دونوں فقر و محتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں، جس طرح لوہار اور سنار کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے اور حج مبرور کا صلہ اور ثواب تو بس جنت ہی ہے۔
طبرانی شریف کی ایک روایت میں ہے کہ حج اور عمرہ کے لیے جانے والے خدا کے خصوصی مہمان ہیں، وہ خدا سے دعا کریں تو خدا قبول فرماتا ہے اور مغفرت طلب کریں تو بخش دیتا ہے !
حضرت عبداللہ بن جراد رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فریضہ حج ادا کرو، اس لیے کہ حج گناہوں کو ایسے دھو دیتا ہے، جیسے پانی میل کو دھو دیتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج کرنے والے کی مغفرت کی جاتی ہے اور جس کے لیے حاجی مغفرت کی دعا کرے اس کی بھی مغفرت کی جاتی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اے اللہ! مغفرت فرما حاجی کی اور جس کے لیے وہ مغفرت طلب کرے۔
حج مبرور
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پوچھا گیا کہ پھر کون سا عمل؟ فرمایا: خدا کی راہ میں جہاد کرنا، پوچھا گیا کہ پھر کون سا؟ فرمایا: حج مبرور یعنی حج مقبول۔
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرہ ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دوسرے عمرہ تک ہوں اور حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہیں۔
حج مبرور کیا ہے ؟
شراح حدیث نے حج مبرور کی مختلف تفسیریں بیان کی ہیں، علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”المبرور ھو الذی لا یرتکب صاحبہ فیہ معصیۃ․“ یعنی حج مبرور وہ ہے جس میں حاجی کسی گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حاجی اس حال میں لوٹے کہ دنیا سے بے رغبت ہو اور آخرت کا شوق رکھنے والا ہو تو وہ حج مبرور ہے۔ علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حج کے مقبول ہونے کی نشانی یہ ہے کہ حاجی تمام ارکان و واجبات کو اخلاص نیت کے ساتھ ادا کرے اور جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے بچے۔
بعض نے کہا حج مبرور اسے کہتے ہیں جو جنایات سے خالی ہو، بعض نے کہا وہ ہے جس میں ریا نہ ہو، بعض نے کہا کہ اس کی نشانی یہ ہے کہ حاجی کی حالت تقوی کے اعتبار سے حج سے پہلی والی حالت سے بہتر ہو، علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اقوال متقارب المعنی ہیں، یعنی حج مبرور ہے جس کے تمام احکام کو پورا کیا گیا ہو اور مکلف سے حج کو جس طرح طلب کیا گیا ہے اس کو کمال طریقے سے ادا کیا ہو ۔
حضرت علامہ محمدیوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ معارف السنن میں ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ حج مبرور کی تفسیر میرے نزدیک وہی ہے جو اللہ کے ارشاد﴿ فلارفث ولا فسوق ولاجدال فی الحج﴾ میں مذکور ہے، پس جس کا حج اللہ کے ارشاد کے موافق ہو تو وہ مبرور ہے، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے حج کرے اور دوران حج اپنی اہلیہ سے نہ ہم بستری کرے اور نہ فسق میں مبتلا ہو تو وہ اس طرح ( بےگناہ) واپس لوٹتا ہے جیسے ( اس دن بےگناہ تھا) جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔
تنبیہ: جن حضرات کے پاس گنجائش ہو تو وہ حج کے ساتھ مدینہ منورہ اور روضہ شریف کی زیارت کا شرف ضرور حاصل کریں، اس کی بھی بڑی فضیلت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت ضروری ہو گئی بلکہ بعض روایات سے اس کی تاکید معلوم ہوتی ہے. ایک روایت میں ہے کہ جو شخص مالی وسعت رکھے اور میری زیارت کو نہ آئے تو اس نے میرے ساتھ بڑی بے مروتی کی ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے گھر اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کی زیارت نصیب فرما دے ۔ آمین!
تبصرہ لکھیے