”یہ کلٹ ہے.“
میں نے یہ سنا تو سوچنے لگا کہ اردو میں کلٹ کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟
مسلک؟ ایک کونے سے آواز ابھری،
”نہیں نہیں مسلک نہیں. دیکھیں! کلٹ ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو بظاہر اوپن سرگرمیاں کرتا ہے مگر اس کے بہت سے معاملات خفیہ ہوتے ہیں، انتہائی منظم ہوتا ہے، فرد واحد کی کمانڈ میں ہوتا ہے، اس میں شورائیت نہیں ہوتی۔ اس تنظیم کے بہت سےحصے ایک دوسرے سے بےخبر ہوتے ہیں، صرف اپنے کام، مشن سے واقف اور اسی پر عمل پیرا۔ ایک انڈر ورلڈ مافیا کی سی طرز پر۔ اس کی مثال آپ پاکستان میں کسی سطح پر ایم کیوایم جیسی تنظیم سے سمجھ سکتے ہیں، جو عوام میں بھی موجود ہو، خدمت کے کام بھی ہوں، سرکاری محکموں، دفاتر، شعبوں میں ہر جگہ اس سے وابستہ افراد ہوں اور ایک کال پر شہر منجمد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور بیرون ملک خفیہ رابطے اور دہشت گرد کارروائیاں بھی ہوں۔“
اسے کلٹ کہتے ہیں، اگر یہ کہیں موجود ہو تو وہ یقیناً ایک ناسور ہے۔ جس سے معاشرے اور اپنے سسٹم کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کا جڑ سے خاتمہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ترکی میں اس وقت حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے کہ گولن مومنٹ ایک کلٹ ہے۔ لہذا اس نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ جمہوریت اور ترکی کے مفاد میں ہے۔
الخدمت فاونڈیشن کے مرکزی صدر جناب عبدالشکور نے یہ کہہ کر قدرے توقف کیا توگویا بات سمجھ میں آنے لگی۔ ترکی کے دورے سے واپسی پر جناب احسان اللہ وقاص نے اپنی رہائش گاہ پر ان کے اعزاز میں پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا تھا. محفل میں معروف کالم نگار سجاد میر، رئوف طاہر، حفیظ اللہ نیازی، حافظ شفیق الرحمان سمیت جماعت اسلامی کے کئی اکابرین بھی موجود تھے۔ عبدالشکور صاحب کے ہمراہ بچوں کے ادب سے شہرت پانے والے اور اب شخصیت سازی کی ٹریننگ میں نام کمانے والے جناب اختر عباس بھی ترکی کے دورے پر تھے۔ وہاں انہوں نے دنیا بھر کی مسلم این جی اوز کے مشرکہ پلیٹ فارم کی سرگرمیوں میں شرکت کی۔
سب سے اہم بات یہ کہ ان دونوں حضرات کی ترک صدر طیب اردوان سے ملاقات بھی ہوئی۔ اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے عبدالشکور صاحب کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی بغاوت کو کچلنے اور اس کے بعد عوامی حمایت کے شاندار مظاہروں نے جو سماں باندھ رکھا ہے، اس سے کسی بھی لیڈر کا غرور و تکبر میں مبتلا ہوجانا کوئی انہونی بات نہیں، مگر عوام کی اس قدر محبتیں سمیٹنے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی مکمل حمایت کے باوجود طیب اردوان کی شخصیت سے تکبر کوسوں دور تھا اور ان کے لہجے کی مضبوطی رعونت کے بجائے ان کے اعتماد کی گواہی دے رہی تھی۔ ان کے الفاظ بڑھک کے بجائےقدرے احتیاط کا دامن تھامے ہوئے تھے، جن میں سفارتکاری کے سارے آداب اور وقتی تقاضے ملحوظ خاطر رکھے ہوں۔ ان کے تفصیلی خطاب میں یقین جھلکتا تھا کہ انہوں نے جو پالیسی اپنائی ہے وہ تمام تر اندیشوں کے باوجود درست اور فیصلہ کن ہے۔
عبدالشکور صاحب کہہ رہے تھے کہ طیب اردوان کا ویژن بہت بلند ہے، وہ بہت دور تلک دیکھنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں، اور اس وقت طیب اردوان جہاں ترکی کی عظمت رفتہ اور خلافت عثمانیہ کے حسین ادوار کی بحالی کے خوابوں کو عملی تعبیر دینے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، وہیں ان کے پیش نظر دنیا سے واحد سپر پاور کی اجارہ داری کا خاتمہ بھی ہے. وہ سپر پاور کی قوت کو تقسیم کرکے دنیا میں طاقت کا توازن پیدا کرنے کی تدابیر کر رہے ہیں۔
عبدالشکور صاحب نے گفتگو ختم کی تو محفل میں موجود افراد کے لبوں پر طیب اردوان کی سلامتی اور ترکی کے استحکام کی دعائیں تھیں۔ مگر ہمیں تو فوراً ہی ایک گہرے خیال نے چونکا دیا۔ میں نے اپنے پہلو میں بیٹھے عمیر ادریس سے سرگوشی کی کہ جناب اردوان سپر پاور کو لگام دینے کے لیے جس نئے بلاک کی تعمیر میں کوشاں ہیں، اس کی طاقت کا مرکز روس ہے۔ یعنی زمانے کا ستم دیکھیے جس روس کی چیرہ دستیوں سے نجات اور دنیا میں طاقت کے توازن کے لیے ہم نے دہائیوں تک امریکہ کا ساتھ دیا۔ آج اسی امریکہ کی منافقتوں اور ظلم وستم سے تنگ آ کر ایک بار پھر اسی روس کو توانائی فراہم کرنے جا رہے ہیں۔
تبصرہ لکھیے