پہلے بلوچستان کے عوام نے نریندر مودی کی پاکستان دشمنی کو گھروں سے باہر نکل کر خوب رد کیا اور اب مودی کے یار الطاف حسین کی غداری پر کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کے قائد کو نشان عبرت بنا دیا۔ کل تک وہ الطاف حسین جس کی مرضی کے بغیر وہاں پتا بھی نہیں ہلتا تھا، آج اس کی حق میں بولنے والی کوئی ایک آواز بھی نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اُس ایم کیو ایم نے جس کو الطاف حسین نے بنایا اور اُس کو اِس طرح سے چلایا کہ کوئی لیڈر کوئی ورکر اپنے قائد کی مرضی کے بغیر سانس نہیں لے سکتا تھا اُس پارٹی نے بھی اُسے نہ صرف رد کر دیا بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ اب پارٹی کا الطاف حسین سے کوئی تعلق نہیں۔
جس شخص کے ایک اشارے پر شہر بھر کو بند کر دیا جاتا تھا، جس کے کہے پر لاکھوں لوگ گھروں سے باہر نکل پڑتے رہے، اُسی الطاف حسین کی تصویروں کو کراچی حیدرآباد اور دوسرے علاقوں سے اتار دیا گیا، نائن زیرو کو تالے لگا دیئے گئے، ایم کیو ایم کے دفاتر کو گرادیا گیا ، گویا اُس کے تمام نشانوں کو مٹایا جا رہا ہے لیکن کوئی ایک فرد احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلا۔ کسی نے اعتراض تک نہیں کیا۔ بلکہ سچ پوچھیں تو کراچی کے لوگ اور مہاجر قوم خوش ہے کہ اُن کی ایک ایسے فرد سے جان چھوٹ گئی جس نے اُن کے حقوق کے نام پر کراچی کو ایک مافیا کی طرح چلایا۔ دہشتگردی، بھتہ خوری اور دوسرے سنگین جرائم میں ملوث رہا۔
کراچی کے لوگوں بشمول وہ جن کاتعلق ایم کیو ایم سے تھا اُن کی گزشتہ تین دہائیوں سے یہ کیفیت تھی گویا کہ اُن کی جان کسی دیو کے ہاتھ میں قابو ہے۔ اپنے پرائے بے شک کسی کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا یا کسی دوسری پارٹی سے، کوئی کراچی میں محفوظ نہ تھا۔ ماضی قریب تک کوئی ایم کیو ایم کا رہنما یا ورکر یہ سوچ نہ سکتا تھا کہ پارٹی کو چھوڑ ے۔ کیوں کہ اس کا مطلب موت تھا۔ ایم کیو ایم میں تو الطاف حسین سے اختلاف کرنے والے کی جان بخشی نہ ہوتی تھی۔ کراچی آپریشن کے باعث گزشتہ ایک دو سالوں سے حالات کافی بدلے لیکن ایم کیو ایم الطاف حسین کے مافیا کے کنٹرول میں ہی رہی۔
خوف کے اس عالم سے ایم کیو ایم کے اہم ترین رہنما بھی خالی نہ تھے۔ ذرائع کے مطابق چند روز قبل فاروق ستار جو ایم کیو ایم کے سینئر ترین رہنما ہیں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین سے قطع تعلقی کے بعد تقریباً تین دہائیوں کے بعد وہ سکون کی نیند سوئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ایک اور اہم رہنما نے مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عرصے کے بعد وہ ایک انجانے خوف سے باہر نکلے ہیں اور انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے انہیں آزادکر دیا گیا ہو۔ الطاف حسین کو کمزور کرنے کی ماضی میں بہت کوششیں ہوئیں۔ سول حکومتیں، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے کئی حربے استعمال کیے لیکن الطاف حسین کا کراچی میں کنٹرول کمزور نہ ہوا۔ سب جانتے تھے، کہتے تھے کہ الطاف حسین کراچی کی دہشتگردی، قتل و غارت اور بھتہ خوری میں ملوث ہے۔ پولیس اور ملٹری آپریشن کیے گئے، ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کو بھی کمزور کیا گیا لیکن الطاف حسین کا ’’جادو‘‘ تھا کہ ٹوٹنے کا نا م نہیںلیتا تھا۔
حالات کیسے بھی رہے الطاف حسین نے جس کو الیکشن لڑایا وہ جیت گیا۔ متنازعہ بیانات سے الطاف حسین کی تاریخ بھری پڑی ہے، کبھی اُس نے فوج کو گالی دی تو کبھی عدلیہ کو، کبھی ’’را‘‘ اور ہندوستان سے مدد مانگی تو کبھی برطانیہ کو جاسوسی کے لیے اپنا تعاون پیش کیا لیکن الطاف حسین کا ’’سحر‘‘ نہ ٹوٹا۔ حکومت، فوج، سیاستدان، میڈیا سب اس بات پر متفق تھے کہ الطاف حسین کے ہوتے ہوئے کراچی کے امن کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا جا سکتا۔ بہت کوششیں ہوئی کہ الطاف حسین سدھر جائے لیکن ایسا بھی نہ ہوا۔
مائنس ون فارمولے پربھی بہت بات ہوئی لیکن کوئی ایسا فارمولا بھی نہ چل سکا۔ پھراللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جو کروڑوں لوگوں کی خواہش تھی اُس کا سامان الطاف حسین نے خود پیدا کر دیا۔ الطاف حسین نے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کو گالی دی اور مردہ باد کا نعرہ لگا دیاجس کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر الطاف حسین کے لیے سب کچھ بدل گیا۔ وہ شہر جس میں اُس کا مکمل کنٹرول رہا، جہاں اُس کے نام پر لاکھوںووٹ دیئے جاتے تھے وہاں اب اُسے ایک غدار وطن کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے اور آج کوئی بھی فرد پاکستان کو گالی دینے والے الطاف حسین کے ساتھ کھڑا نہیں۔ اب تو الطاف حسین کی ایم کیو ایم پارٹی آئین کو تبدیل کر کے اُس کے نام تک کو نکالنا چاہتی ہے کیوں کہ ڈر ہے کہ کہیں اس نام کی نحوست سے یہ پارٹی بھی ختم نہ ہو جائے۔
تبصرہ لکھیے