ہوم << فلاپ سیاسی ڈرامہ اور پریشان حال ایم کیوایم - ثقلین مشتاق

فلاپ سیاسی ڈرامہ اور پریشان حال ایم کیوایم - ثقلین مشتاق

ثقلین مشتاق پاکستان میں سیاسی ڈراموں کی تاریخ پر نظر دوڑائیے تو وہ اُتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی عمر۔ پاکستانی سیاست میں ڈراموں کو وہی مقام حاصل ہے جو پرامن جنگل میں لومڑی کوحاصل ہوتا ہے۔ لیاقت علی خان کا قتل ہو یا کتیا کے گلے میں لالٹین ڈال کر مادرملت کی تذلیل یا پھر پاکستان کو دو لخت کرنا، یہ سب کارنامے ہمارے غیور حکمرانوں نے بڑی بہادری سے سیاسی ڈراموں کا سہارا لے کر سرانجام دیے ہیں۔
چند روز قبل ایم کیو ایم نے را کی پروڈکشن کے تحت ایسے ڈرامے کی شوٹنگ شروع کی جو مکاری، فریب اور وطن عزیز سے غداری کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ خود کو بانیان پاکستان کی اولاد میں سے اور لیاقت علی خان کے خوابوں میں آنے کا دعوی کرنے والے الطاف حسین نے ایسا پاکستان مخالف خطاب کیا جو شاید را اور موساد جیسی پاکستان دشمن ایجنسیوں کے کارندے بھی نہ کرتے ہوں۔ قائد تحریک کی ایما پر ایم کیو ایم کے غنڈوں نے میڈیا ہائوسز پر ایسا حملہ کیا جیسے خونخوار بھیڑیا ہرن پر کرتا ہے۔ عوام اور صحافی تنظیموں نے ایم کیو ایم کی دہشت گردی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا۔
بعد ازاں ڈرامہ میں ہیرو کے رول میں فاروق ستار نے انٹری مارتے ہوئے 23 اور 27 اگست کو پریس کانفرنس کر کے قائدتحریک اور اُن کے بیانات سے لاتعلقی کے اعلان کے ساتھ پارٹی امور لندن کے بجائے کراچی سے چلانے کا شوشہ چھوڑ دیا۔ اور ساتھ ہی ذہنی دبائو اور بیماری کے خاتمہ کے بعد الطاف حسین کے دوبار پارٹی امور سنبھانے کا عندیہ بھی دیا۔ واسع جلیل اور مصطفی عزیزآبادی نے فاروق ستار کی پریس کانفرنس کو مضحکہ خیز قرار دے کر قائد تحریک کے حکم سے لندن سیکرٹریٹ سے پارٹی چلانے کا دعوی کیا مگر بعد میں فاروق ستار کی تائید کر دی گئی۔ اگر پہلے کی طرح ایم کیو ایم نے قائد تحریک کے زیر سایہ ہی کام کرنا تھا تو فاروق ستار نے صحافیوں کو ہیر رانجھا اور سسی پنوں کی داستان عشق سُنانے کے لیے مدعو کیا تھا۔
اگر فاروق ستار حقیقتا لندن اور قائد تحریک سے لاتعلق ہیں تو موصوف پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والے کے گھر نائن زیرو سیل ہونے، شہرقائد سے اس کی تصاویر ہٹانے اور املاک پر حملہ کرنے والی خواتین کی گرفتاری پر سراپا احتجاج کیوں ہیں؟ ایک طرف فاروق ستار پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب را اور موساد کے ایجنٹ کو قائد، بھائی اور صاحب کہہ کر پکار رہے ہیں۔
وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سر تیری تلوار پر رکھا ہوا تھا
وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا
تب فاروق ستار کا جذبہ حُب الوطنی کدھر تھا جب ایک سال قبل الطاف حسین کے اسی طرح کے بیانات کا وہ خود دفاع کیا کرتے تھے۔
20 کروڑ عوام کیسے مان لیں کہ اُس فاروق ستار نے الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے الگ کردیا جس کو غلطی پر الطاف حسین کارکنوں کے بھرے مجمع میں مرغا بنا دیتے تھے۔ جس ایم کیو ایم کے آئین میں الطاف حسین کو سپریم پاور حاصل ہے اور جس کا نعرہ ہے منزل نہیں رہنما چاہیے، اُس ایم کیو ایم اور الطاف کو الگ کرنا مشکل نہیں بالکل ناممکن ہے۔
حقیقت میں فاروق ستار اور الطاف حسین دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ الطاف حسین نے یہ ڈرامہ را کے کہنا پر اس لیے رچایا کہ پاکستان کی مسئلہ کشمیر سے نگاہیں ہٹ جائیں اور کراچی کو ایک الگ ریاست بنایا جائے جس میں وہ یکسر ناکام رہے. ریاستی اداروں کا متحدہ کے خلاف کریک ڈائون، سپریم کورٹ سے پارٹی پر پابندی کے آثار اور مہاجر جن کے ووٹوں سے وہ خود کو ہٹلر سمجھتے تھے، اُن کے دل میں نفرت دیکھ کر بڑی مکاری کے ساتھ الطاف حسین نے عوام کے غصہ کو کم کرنے اور ریاستی اداروں کو بیوقوف بنانے کے لیے فاروق ستار کے ذریعے متحدہ کا خود سے لاتعلقی کا شوشہ چھوڑا۔
قومی سلامتی کے اداروں اور اُردو بولنے والوں نے الطاف حسین کی سازش کو بےنقاب کردیا ہے۔ الطاف حسین کے بیانات کے بعد متحدہ کے محب وطن رہنمائوں کے لیے کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ اب وہ اپنی سیاست کو کیسے جاری رکھیں جبکہ الطاف حسین اپنی تقریروں سے باز نہیں آ رہے اور امریکہ اور سائوتھ افریقہ میں انھوں نے اس سے زیادہ غلیظ الفاظ استعمال کیے ہیں.

Comments

Click here to post a comment