ایک مضمون نظر سے گزرا جس میں کچھ بہت مشکل الفاظ کا استعمال اردو اور انگریزی دونوں میں کیا گیا تھا۔ فدوی کا تعلق انجینئرنگ سے ہے، اس لیے میرے تو سر سے دس کلومیٹر اوپر سے گزر گئیں۔ ایسی باتیں لیکن اپنے آرٹس کے طالب علم دوستوں سے اکثر سنتے رہتے تھے۔ آج سوچا کہ کفر توڑ ہی دیا جائے اور ان باتوں کی ’’بنیادی باتوں‘‘ کو سمجھ لیا جائے۔ یہ چھوٹا سا مضمون مجھ جیسے فلسفے، آرٹس اور ایسے ہی علوم سے مکمل طور پر جاہل لوگوں کے لیے ہے، صاحب علم لوگوں کے لیے نہیں۔ اور یہ تحریر بھی میری نہیں ہے محض مختلف چیزیں پڑھ کے اخذ کیے گئے نتائج ہیں۔ میں زیادہ سے زیادہ آسان زبان میں ترجمہ کرنے کا کریڈٹ لے سکتا ہوں۔
پر ی ماڈرن ازم:
یہ سولھویں صدی کے نصف تک کے زمانے کی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ سوچ بھی کس کی؟ مغرب کی! تب تک مغرب میں کلیسا طاقت میں تھا، تو لوگوں کی سوچ یہ ہوتی تھی کہ علم کسی اعلی و برتر ہستی (خدا) کی طرف سے نازل شدہ ہے چیز ہے۔ سچ جاننے کا واحد طریقہ وحی ہے۔ اس سوچ کے تحت چرچ خود بخود علم کا مالک اور وارث بن جاتا تھا
ماڈرن ازم:
یہ سوچ 1650ء سے 1950ء تک چھائی رہی۔ اس کے تحت جو کچھ بھی ہم اپنی پانچ حسوں سے محسوس کر سکتے ہیں، وہی علم کا سورس ہے۔ وحی جیسے سورسز کو لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ علم کا دوسرا سورس منطق (لاجک) اور فلسفہ مانا گیا۔ اس دور میں چرچ کی علم پر موجود ٹھیکے داری ختم ہوگئی اور یہ یونیورسٹیوں / پروفیسروں / فلسفیوں کے پاس آ گئی.
پوسٹ ماڈرن ازم:
یہ سوچ 1950ء سے لے کر آج تک چل رہی ہے۔ اس سوچ کے تحت اب یہ کہا جاتا ہے کہ علم کا ماخذ وحی بھی ہو سکتی ہے، منطق بھی، فلسفہ بھی، چھٹی حس بھی، روحانی بھی، سائنسی بھی.
نیچے والے خیالات کا یہ فدوی ملزم ہے۔ اس لیے اسے احتیاط سے پڑھا جائے اور اپنے رسک پر نیز بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے.
اب اس ساری بحث کا ہم سے کیا تعلق ہے؟ میری عاجزانہ رائے میں پوسٹ ماڈرن ازم حقیقت کے قریب ترین ہے۔ یہ میں بطور ایک محقق خود محسوس کر چکا ہوں کہ ریسرچ، علم حاصل کرنا نہ تو محض نری ریاضت ہے، نہ نری عبادت، نہ یہ محض منطق ہے، نہ محض وحی، نہ تو محض فلسفہ ہے اور نہ محض تکا۔ ایک اصطلاح استعمال کی جائے تو علم کی تلاش کو میں یہ نام دوں گا: ’’کافی محنت کے بعد ایک خوشگوار حادثہ۔‘‘ کئی بار بغیر کسی محنت کے بھی یہ حادثہ ہو سکتا ہے، پھر یہ خالص وحی بن جاتا ہے۔
پاکستانی حالات میں اس کی یہ اہمیت ہے کہ ہمارے معاشرے کے دو آواز رکھنے والے شدت پسند طبقات، چاہے وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، یا تو پری ماڈرن ازم پر یقین رکھتے ہیں یا ماڈرن ازم پر۔ اہل مغرب خود پوسٹ ماڈرن ازم پر پہنچ چکے ہیں اور ہم ابھی تک لکیر پیٹ رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ حقیقی اسلام بہت پہلے سے پوسٹ ماڈرن ازم جیسے ہی نظریہ پر ہے۔ وہ واقعہ تو یاد ہی ہوگا، اگر میں بھول نہیں رہا تو شاید حضرت علی رضی اللہ کا تھا۔ جن سے کسی نے تدبیر اور تقدیر کا فرق پوچھا تو انہوں نے کہا اپنا ایک پاؤں اٹھاؤ، اس شخص نے باآسانی ایسا کر لیا، جب دوسرا پاؤں بھی بلند کرنے کو کہا گیا تو نہ کر سکا۔ یہی ہے فرق تدبیر میں اور تقدیر میں، پری ماڈرن ازم میں اور ماڈرن ازم میں۔
اگر ایک شخص جاتے ہوئے کسی کیلے سے پھسلا مگر منزل پر پہنچ گیا تو اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں نا کہ منزل تک پہنچنے کے لیے ہمیں بھی کیلے سے پھسلنا پڑے گا؟ اس لیے ماڈرن ازم کے کیلے کے چھلکے کو دیکھ کر للچائیں مت اور آگے بڑھیں۔ ہر بار پہیہ نئے سرے سے ایجاد کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ عقل مند دوسروں کے تجربے سے سیکھ لیتا ہے اور باقی تو شاید خود تجربہ کر کے بھی نہیں سیکھتے۔
نوٹ: فدوی کو’’مابعد الطبیعات‘‘،’’مابعد جدیدیت‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ پڑھ کے ہی ہول اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ان سے پرہیز کیا گیا۔
تبصرہ لکھیے