کوئی بھی کام کرنے کا ایک ہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ کر دیا جائے۔ مثلاً سینتالیس سے ستر تک گلگت بلتستان کو فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز کے تحت چلایا جاتا رہا۔ پھر بھٹو صاحب نے انیس سو چوہتر میں اس علاقے کی ایک کاغذی کونسل بنا دی جس کا مجازی خدا وفاقی وزیرِ امورِ کشمیر تھا۔ جب زرداری حکومت نے دو ہزار نو میں گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر نافذ کیا تو نہ تو علاقے کے دو ملین لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کروایا گیا نہ اس مسودے کو عوامی بحث کے لیے پیش کیا بس نافذ کر دیا گیا اور لوگوں نے چار و ناچار قبول بھی کر لیا۔
لیکن کسی بھی کام کو کرنے کا اگر صرف ایک طریقہ ہے تو نہ کرنے کے ہزار طریقے ہیں۔ جیسے وفاق کے زیرِ انتظام قبائیلی علاقہ جات (فاٹا) میں سیاسی و اقتصادی اصلاحات۔
پاکستان میں جو بھی جب بھی سیاحت کو پروموٹ کرنے کا بروشر چھاپتا ہے تو کے ٹو سے نانگا پربت تک ہر چوٹی، ہنزہ سے دیوسائی تک تمام وادیوں میدانوں، اور نذیر صابر و اشرف امان سے ثمینہ بیگ تک تمام کوہ پیماؤں اور بالتورو و بیافو سمیت تمام بلتی و گلگتی گلیشیرز کو ’’پاکستان کے جنت نظیر قابلِ دید‘‘ مقامات کے طور پر شو کیس کیا جاتا ہے۔ مگر جب ان جنت نظیر قابلِ دید مقامات کی اختیار و اقتدار میں مساوی شراکت کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو فوری جواز و جواب یہ ہوتا ہے کہ آپ تو متنازعہ علاقہ ہیں آپ تو پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح وفاق کے زیرِ انتظام سات قبائلی ایجنسیوں (باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، جنوبی و شمالی وزیرستان) اور پشاور، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت، ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان سے متصل چھ فرنٹیر ریجنز کے پچاس لاکھ قبائلیوں کو ویسے تو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن کہا جاتا ہے۔ انیس سو سینتالیس کی جنگِ کشمیر سے اب تک ان کی عسکری و قومی قربانیاں کو سراہنے میں زمین و آسمان ایک کر دیے جاتے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف گزشتہ سولہ برس سے جاری جنگ اور اس سے بھی پہلے اڑتیس برس سے جاری ڈیورنڈ لائن کے آر پار کی بدامنی سے نمٹنے، ڈرون حملے سہنے اور بے گھری کا بوجھ اٹھانے جیسی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنے کے وعدوں کی مسلسل تحسینی بارش بھی نہیں رکتی۔
لیکن یہی قبائل جب مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر ہم اتنے ہی اچھے اور پیارے ہیں تو پھر انگریز دور کے ایک سو پندرہ سال سے نافذ فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز سے ہمیں نجات کیوں نہیں دلاتے۔ آئینِ پاکستان کے تحت ہمیں بھی بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کی اعلیٰ ترین عدالتوں تک رسائی کیوں نہیں۔ ایسے مطالبات کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ حضور آپ کی تو ایک مخصوص شناخت و تشخص ہے۔آپ تو آزاد منش ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی خود مختاری آپ کے رواجوں کے ساتھ برقرار رہے۔ مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ایف سی آر جیسا قانون کس قبائلی رواج کا نام ہے؟ پولیٹیکل ایجنٹ محض شبہے کی بنیاد پر کسی بھی قبائلی کو تین برس کے لیے کیوں نظربند، قید یا علاقہ بدر کر سکتا ہے اور پھر اس سزا میں مزید توسیع کے صوابدیدی اختیارات کیوں رکھتا ہے۔ پولیٹیکل ایجنٹ استغاثہ بھی ہے جج بھی اور کورٹ آف اپیل بھی۔
فاٹا کو پہلی بار ون مین ون ووٹ کا حق انیس سو چھیانوے میں ملا۔ اس سے قبل محض پینتیس ہزار ملکوں اور عمائدین کو ہی قومی اسمبلی کے لیے بارہ نمایندے چننے کا حق تھا اور پھر منتخب نمایندے آٹھ سینیٹر چنتے تھے اور یہ سارا جمہوری کام بولی لگا کے ہوتا تھا۔
فاٹا میں اصلاحات کی کہانی دو ہزار آٹھ سے سننے میں آ رہی ہے۔ جب سابق چیف جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں دو ہزار گیارہ میں ایف سی آر میں یہ ترمیم کی گئی کہ فاٹا ٹریبونل کے اختیارات ہائی کورٹ کے مساوی کر دیے گئے۔ اجتماعی سزا کی شق جس کے تحت ایک شخص کے جرم کا ذمے دار پورے قبیلے کو ٹھہرایا جاتا تھا اس میں تبدیلی کر کے اجتماعی ذمے داری کے عمل سے بچوں، بوڑھوں اور قبیلے کو نکال دیا گیا اور ’’جو کرے وہ بھرے‘‘ کا یونیورسل اصول لاگو کیا گیا۔
اس کے بعد راوی اصلاحات کے معاملے میں گھمبیر خاموشی لکھتا ہے۔ راستے میں قبائلی ایجنسیوں میں طالبان کے خلاف بھر پور فوجی ایکشن، آپریشنِ ضربِ عضب اور شمالی و جنوبی وزیرستان کی آبادی کی بے گھری و بے سرو سامانی تو پڑاؤ کرتی نظر آتی ہیں مگر اصلاحات کا خیمہ دور کسی چوٹی پر گڑا ٹپائی دیتا ہے۔
موجودہ نواز شریف حکومت نے فاٹا اصلاحات کے کچھوے کو اب سے سال بھر پہلے فوج کے دباؤ پر چھ رکنی سرتاج عزیز کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ اس کمیٹی نے اس ہفتے جو سفارشات وزیرِ اعظم کو پیش کی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ ایف سی آر کی جگہ ٹرائبل ایریا رواج ایکٹ نافذ کیا جائے جو مقامی رواج اور جرگہ سسٹم پر مشتمل ہو اور اس میں جج پولیٹیکل ایجنٹ نہ ہو بلکہ ایک الگ سے جوڈیشل افسر بطور جج کام کرے۔ ایک سفارش یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا دائرۂ کار فاٹا تک بڑھایا جائے۔ لیکن انفرادی جھگڑے نمٹانے کے لیے جرگہ و رواج سسٹم بھی برقرار رکھا جائے…
یہ تجاویز بالکل ایسی ہیں کہ کوئی کہے کہ تمہارے پاؤں میں جو زنجیر پڑی ہے اس زنجیر کے ساتھ تم جہاں چاہے جانے کے لیے آزاد ہو۔ باقی سفارشات فاٹا میں مالی اصلاحات و بجٹ سے متعلق ہیں اور ایک سفارش یہ بھی ہے کہ فاٹا میں اگلے برس تک بلدیاتی انتخابات کروا دیے جائیں۔
مگر سب سے اہم فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یعنی فاٹا کو اصلاحات کے بعد بھی جوں کا توں برقرار رکھا جائے، ایک علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے، خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا جائے یا پھر گلگت بلتستان کی طرز پر ایک کونسل اور اسمبلی بنا دی جائے۔
فاٹا کی بیورو کریسی اور روایتی معززین چاہتے ہیں کہ موجودہ نظام جوں کا توں رکھا جائے البتہ تھوڑی بہت مرمت و لیپا پوتی اور ڈیکوریشن کر دی جائے۔ پشتون قوم پرست جماعتیں کہتی ہیں کہ فاٹا کے قبائلی عملاً سیاسی، سماجی، املاکی و معاشی طور پر خیبر پختون خوا سے جڑے ہوئے ہیں۔ فاٹا سیکریٹیریت تک پشاور میں ہے۔ امن و امان کے حالات کے سبب زیادہ تر پولیٹیکل ایجنٹ بھی سیٹلڈ ایریاز میں دفتر لگاتے ہیں۔ لہذا اگر فاٹا کو صوبے کا حصہ بنا دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ٹھوس دو ٹوک شکل میں سامنے آتیں، پارلیمنٹ ان پر بحث کرتی اور پھر جو بھی ایکٹ تیار ہوتا اسے نافذ کر دیا جاتا۔ مگر نہیں۔ اب یہ سفارشات عام بحث کے لیے عوام کے سامنے رکھی جائیں گی۔ ان پر بحث پارلیمنٹ میں ہو گی مگر قانون کی منظوری قبائلی جرگہ دے گا۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ منگنی شمائلہ سے ہو گی مگر شادی شہناز سے…
اگر واقعی فاٹا کو پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح مساوی آئینی حیثیت و حقوق دینے کی نیت ہوتی تو فاٹا کے عوام کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آئینی حیثیت کے انتخاب کا حق دینا سب سے آسان راستہ ہوتا۔ اگر وہ عام انتخابات میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے نمایندے منتخب کر سکتے ہیں تو اپنی قسمت کا فیصلہ کیوں نہیں کر سکتے؟ یا پھر پارلیمنٹ اتفاقِ رائے سے ایک مسودہ منظور کر لیتی جو اکیسویں صدی کے انسانی و آئینی تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصلاحات کے عمل کو نیلے ٹرک کے پیچھے سے ہٹا کر پیلے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔
قانون سازوں کی بلا سے کہ اس وقت فاٹا کی آدھی آبادی دربدر ہے۔ یہاں کے آدمی کی فی کس آمدنی باقی پاکستان سے آدھی، صحت کی سہولتیں آدھی اور خواندگی کا تناسب باقی پاکستان کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے۔
فاٹا میں حقیقی اصلاحات مستقبلِ قریب میں ہوتی نظر نہیں آتیں۔ کیونکہ فاٹا کی پسماندگی اور جغرافیہ اربوں روپے کی صنعت ہے۔ بھلا کون سا پولیٹیکل ایجنٹ، عسکری، قبائلی ملک، سیاستداں، ٹرانسپورٹر اور مافیائی چاہے گا کہ یہ صنعت اتنی آسانی سے ٹھپ ہو جائے اور اس کے پیٹ پر لات پڑ جائے۔
تبصرہ لکھیے