نشتر گھاٹ پر 64 سال سے بننے والا یہ پل شاید اگلے 64سالوں میں بن جائے۔ میٹرو ٹرین اور میٹرو بسیں چلانے والے حکمرانوں کے پاس اس پل کو بنانے کے لیے فنڈ نہیں اور اس علاقے کے سرائیکی سرداروں کو تخت اسلام آباد اور تخت لاہور کی حکمرانوں کی جی حضوری کے سوا اور کوئی کام نہیں۔ اگر یہ پل سرائیکی خطے کے علاوہ ملک کے کسی اور علاقے میں ہوتا تو بن چکا ہوتا مگر محکوم سرائیکی عوام خطے کے سرداروں اور تخت لاہور کے حکمرانوں کے دہرے غلام ہیں اور اسی سلوک کے مستحق ہیں۔
ایک پل کی کہانی جو64 سال میں نہ بن سکا - سچل فقیر

تبصرہ لکھیے