یار ایل ایل بی کر لو، اگلے سال سے اس کا دورانیہ تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دیا گیا ہے، آج کے دور میں گھر میں ایک وکیل کا ہونا بہت ضروری ہے، ویسے بھی وکیل کی بہت پاور ہوتی ہے، میرے پاس پنجاب یونیورسٹی لاہور اور بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی’’سیٹیں‘‘ہیں، سب کچھ میرے ذمہ ہے، آپ نے بس رول نمبر سلپ لے کر پیپر دینے جانا ہے اور ہاں پیپر سے ایک دن قبل گیس پیپر بھی مل جائے گا، بس تم یہ سمجھو کہ لاء کرنا کوئی مشکل نہیں، لیکن یاد رہے کہ اس کے بعد پانچ سال کا لاء کرنا بہت مشکل ہے، میرے پاس سے فیس بھی لاہور کی نسبت بہت کم لگے گی۔ ایک نام نہاد غیر رجسٹرڈ پرائیویٹ کالج کا معمولی پڑھا لکھا پرنسپل میرے ایک دوست کو ترغیب دیتے ہوئے سبز باغ دکھا رہا تھا۔ میں نے بغور اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوال کیا کہ جناب آپ کیسے ایل ایل بی کروائیں گے اور اس نئی پالیسی کے بارے تھوڑا مزید بتائیں گے تو وہ صاحب تھوڑے توقف کے بعد، بس یہی معلومات دے سکے کہ آپ نے کل کا اخبار نہیں پڑھا کہ حکومت نے قانون کی تعلیم کا دورانیہ پانچ سال کر دیا ہے، آپ بھی ایل ایل بی کر لیں میرے پاس’’سیٹیں‘‘ہیں۔
وہ تو اپنی بات کر کے چلا گیا مگر میں اس گہری سوچ میں پڑگیا کہ اس ملک میں ڈگریاں اس طرح عام بک رہی ہیں کہ ایک غیر رجسٹرد اور غیر قانونی ادارہ قانون کی ڈگریاں سر عام دیتا پھر رہا ہے، جس کو تعلیمی پالیسی تک کا نہیں پتہ مگر اسے تو اپنی دکان چلانی ہے اور وہ تو جو بکتا ہے ضرور بیچے گا۔ وکلاء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر حکومت نے قانونی تعلیم کی بہتری کو جواز بنا کر پاکستان بار کونسل کے ذریعے ایل ایل بی کی ڈگری کا تعلیمی دورانیہ تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دیا ہے اور الحاق شدہ کالجز اور یونیورسٹیز کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ پہلے تعلیمی سال کے لیے (100) سو سے زائد داخلے نہیں کریں گے۔ پاکستان بار کونسل کا یہ فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے یقینا اس سے معیار تعلیم بہتر ہوگا اور شوقیہ وکلاء کی تعداد میں بھی نمایاں کمی واقع ہوگی۔
مذکورہ پرنسپل کا سرعام غیرقانونی طریقے سے ڈگریاں دینے کا عمل ضرور غلط ہے مگر اس کی بات بالکل سچ تھی۔ واقعی وہ صاحب پنجاب یونیورسٹی اور بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ہر سال درجنوں طلبہ کو امتحان دلواتے ہیں اور ایک چھوٹے سے شہر میں بیٹھ کر سینکڑوں کلومیٹر دور ملتان اور لاہور میں قائم کالجز میں حاضری ریکارڈ بھی پورا کروا لیتے ہیں اور ایک غیر رجسٹرد ادارے کو جو کہ پرائمری سکول کے لیے بھی رجسٹرڈ نہیں کروایا گیا، اس کویونیورسٹی بنا رکھا ہے، جہاں ایل ایل بی ہی نہیں سرگودھا یونیورسٹی کے ذریعے وکالت کی اعلیٰ ڈگری ’’ایل ایل ایم‘‘ میں بھی داخلہ لیا جا سکتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، موصوف نے پلے کلاس سے ایم فل تک ہول سیل لگا رکھی ہے، میٹرک کے داخلہ کے لیے قریبی الحاق شدہ سکول، انٹرمیڈیٹ کے لیے دوسرے شہر کے الحاق شدہ کالج سے’’سیٹیں‘‘ خریدی جاتی ہیں۔ بی ایس سی جیسی اہم کلاس کے لیے یونیورسٹی سے الحاق شدہ کالجز سے غیر قانونی’’عملی مشق‘‘ کے تصدیقی سرٹیفیکیٹس حاصل کرنا تو کوئی کام ہی نہیں۔ اسی طرح پروفیشنل ایجوکیشن بی ایڈاور ایم ایڈ کروانا تو معمولی کام ہے۔ ایجوکیشن، سوشیالوجی، سائیکالوجی، فزیکل ایجوکیشن، فزکس، کمپیوٹر سائنس سے لیکر جنرلزم تک ایم اے اور ایم فل کی تعلیم کی بھی لُوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں اس جیسے اور بھی بہت سارے ادارے میرے شہر میں یہ خدمات بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ایک ادارے یا شہر کی بات نہیں، ہر طرف اندھیری نگری چوپٹ راج کا یہی عالم ہے، آپ اپنے اردگرد دیکھیں گے تو آپ کو بھی ایسے بےشمار ’’ہنر مند‘‘ تعلیمی خدمات دیتے نظر آئیں گے۔ مشہور زمانہ کہاوت ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی کے مصداق تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ایسے جعل سازوں کو ’’سیٹیں‘‘ فراہم کرنے والے بھی مجرم ہیں، جنہوں نے تعلیم جیسے مقدس پیشے کو کاروبار بنا کر رکھ دیا اور پیسے کے حصول کے لیے اس طرح کی ذلیل حرکات کر کے اپنے پیشے کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کر رہے ہیں۔ جن کے تعلیمی کیمپس میں تو محض بیسیوں طلبہ ہوتے ہیں مگر ’’سیٹیں‘‘فراہم کرنے کے ’’کارِ خیر‘‘ کی وجہ سے امتحان میں سینکڑوں طلبہ شامل ہوتے ہیں. یہ شرمناک دھندہ اپنی پوری آب و تاب سے دن دُگنی رات چُگنی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ سرِعام ہورہا ہے، ایسے میں انتظامیہ کی موجودگی پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ وہ تعلیم کے سوداگروں کے خلاف کارروائی سے کیوں گریزاں ہے؟حکومت کو چاہیے کہ غیر قانونی’’سیٹیوں‘‘ کی خرید و فروخت میں ملوث اداروں کے خلاف فوری طور پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ تعلیم کے نام پر کرپشن اور لوٹ مار کا بازار بند ہوسکے۔
اس گندے دھندے میں میں حکومتی اساتذہ بھی پیچھے نہیں ہیں۔ حکومتی درسگاہوں (سکول ،کالجز اور یونیورسٹی) سے مسلسل غیر حاضر رہنے والے اور نسبتاً کم دکھائی دینے والے اساتذہ اپنی قائم کردہ پرائیویٹ اور نجی اکیڈمیز میں ہمہ وقت موجود اور جانفشانی کے ساتھ تدریس کا فریضہ سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ ’’پیڈا ایکٹ‘‘ کے تحت حکومتی اساتذہ کے نجی تعلیمی اداروں میں درس و تدریس پر پابندی عائد ہے، مگر سب کے سامنے ہے کہ اساتذہ کی اکثریت صبح سے شام تک نجی تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات دے رہی ہے۔ نہ صرف اکیڈمی مافیا کو مضبوط کیا جا رہا ہے بلکہ ان اساتذہ کے متعلقہ حکومتی اداروں کے طلبہ اکیڈمی نہ آنے کی صورت میں زیرِعتاب نظر آتے ہیں اور اکیڈمی میں داخلہ نہ لینے کے جرم کی پاداش میں مختلف بہانوں سے جسمانی سزا اور بورڈ، یونیورسٹی کا داخلہ تک روکنے کی گھٹیا حرکات بھی کی جاتی ہیں۔
پنجاب میں بنیادی تعلیمی نظام میں بہتری اور جدت لانے کے لیے 5500 پرائمری سکولوں کو (PEF) کے حوالے کرنا بہت اچھا فیصلہ ہے، اس سے نچلی سطح تک میعاری تعلیم کی فراہمی میں یقینی بہتری اور معاونت ملے گی، مگر آرام پرست، عادی مجرم اورگھر بیٹھ کر سرکاری نوکری کے مزے لینے والے وظیفہ خور اساتذہ کے لیے یہ بات ہرگز قبول نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے دوسرے اساتذہ کو بھی احتجاج کے لیے بھڑکا رہے ہیں۔ اساتذہ جو کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ،ان کی غیر ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ وہ ان گھٹیا اور شرمناک افعال سے اپنے طلبہ پر انتہائی برے اثرات مرتب کر رہے ہیں، ان کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سے دیانتداری، فرض شناسی اور حب الوطنی کی امید کیونکر کی جاسکتی ہے۔ محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ متعلقہ افسران اور مانیٹرنگ ٹیموں کے ذریعے انکوائری کروائی جائے اور ایسے تعلیمی سوداگروں اور طمع پرست عناصر کے خلاف ’’پیڈایکٹ ‘‘ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ تعلیم جیسے مقدس پیسے کا وقار بحال کیا جائے اور اس کا تقدس قائم رہ سکے۔
تبصرہ لکھیے