ہوم << ’’سوری بھائی !میں بھی ذہنی تناؤ میں تھا‘‘ - احسان کوہاٹی

’’سوری بھائی !میں بھی ذہنی تناؤ میں تھا‘‘ - احسان کوہاٹی

اچھا ہی ہوا، الطاف حسین کا خبث ظاہر ہوگیا۔ وہ جو ایک عرصے سے بانیان پاکستان کی اولادوں کے قائد کا تاج سر پر لیے ملکہ برطانیہ کے سایہء عافیت میں موجیں کررہا تھا، اس کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آگیا۔ دل میں پنپنے والی غلیظ آرزوئیں لیسدار کیچوئوں کی طرح زبان سے آکر لٹکنے لگیں۔ مکاری کی تاریکیوں سے ننگی خواہشیں باہر نکل کر رقص کرنے لگیں۔ سازشی ذہن میں پلنے والی لے پالک سوچ بھی دانت نکوسنے لگی۔ اس حوالے سے واقفان حال تو بہت پہلے سے جانتے تھے کہ فلم ’’ناسور‘‘ کا پرڈویووسر کون ہے؟ کاسٹ میں کون کون شامل ہیں؟ اسکرپٹ کس کا لکھا ہے؟ مکالمے کہاں سے ای میل ہوئے ہیں؟ موسیقی کس نے ترتیب دی ہے اور دھنیں کس نے بنائی ہیں۔۔۔!!! آئٹم سونگ کے لیے بھائی کو کسی نیم عریاں رقاصہ کے ہیجان انگیز رقص کی ضرورت نہیں، وہ خود مہان کلاکار ہیں۔ قوم کو یاد تو ہوگی بھونڈی آواز میں لہک لہک کر پردے میں رہنے دینے کی وہ التجا جو ازلی آزردہ کو بھی ہنسا دیتی ہے۔ بھائی نے کیسے جھوم جھوم کر معنی خیز گاناگایا تھا
پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ
پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا
اللہ میری توبہ۔۔۔۔ اللہ میری توبہ
بھائی ایک عرصے سے اشاروں کنایوں میں اس فلم کو پردے کے حوالے کرنے کا ذکر کر رہے تھے۔ بند کمروں میں تو کھل کر ڈسکس کرتے تھے لیکن جلسے جلوسوں میں بھی سندھ کی تقسیم، کبھی انتطامی بندر بانٹ اور کبھی پاک فوج کے خلاف توپیں دم کرکے شائقین کے تجسس کو ہوا دے رہے تھے۔ ماحول بنا رہے تھے۔ پھر فلم پروڈیوسر کا بھی اصرار بڑھ گیا کہ بہت ہوچکی ایڈیٹنگ، اب فلم کو پردے پر آجانا چاہئے اور اکیس اگست کی سہہ پہر بھائی نے فلم کا ٹریلر مارکیٹ میں پھینک دیا۔ ٹریلراچھا چل گیا۔ بھائی فلم چلانے کے لیے تیار ہوگئے، لیکن صلاح کاروں نے مشورہ دیا کہ ابھی ٹھہر جائیں۔ ٹریلر کو دھوم مچانے دیں، پھر فلم ریلیز کیجیے گا۔ بھائی کے ساتھیوں نے مہورت کے لیے تیاریاں شروع کردیں اور ایم کیو ایم پاکستان نے معافی نامہ جمع کراکر شائقین پر ’’اداروں‘‘ کا دباؤ کم کرانے کی کوشش کی لیکن کیا کیجیے کہ معافی نامے کے چند گھنٹوں بعد ہی بھائی کے اندر چھپا پاکستان کے خلاف خبث تنگ کرنے لگا۔ انہوں نے مائک منگوایا اور امریکہ میں 2016ء کے ’’مکتی باہنوں‘‘ کے کارکنوں کے سامنے قے کرنے لگے۔
’’اللہ کرے، اپنے حبیب پاک کے صدقے۔۔۔ جن لوگوں نے تیرے نام پہ، اللہ کے نام پہ، حضور ﷺ کے نام پہ پاکستان بنایا تھا، انہی کو یہ قتل کررہے ہیں، اس پاکستان کو تباہ و برباد کردے۔‘‘ بھائی یہ بددعا کرتے جا رہے تھے اور مکتی باہنی کے غدار آمین، آمین، ثم آمین کہتے جارہے تھے۔
’’ایک آواز آئی ’’ان شاء اللہ بھائی آپ کی دعائیں ضرور رنگ لائیں گی۔۔۔‘‘
دوسرا دریدہ دہن بولا: ’’تقسیم در تقسیم مقدر ہے اس پاکستان کا‘‘
ایک اور منمنایا ’’ان شاء اللہ بھائی، یہ تو نظر آرہا ہے بھائی، جو ہورہا ہے یہی نظر آرہا ہے، تقسیم ہوگا اور تقسیم ہوگا۔ جو یہ ظلم اور زیادتیاں کریں گے، پہلے بنگالیوں کے ساتھ کیں، اب مہاجروں کے ساتھ کررہے ہیں۔ یہ دیکھیے تقسیم ہوگی اور تقسیم ہوگی‘‘۔
بھائی کی آوازپھر سنائی دینے لگی
’’پورا حیدر آباد زونل آفس سیل کیا ہے سیل، نائن زیرو۔۔۔‘‘
بھائی کے اس دکھ پر کارکنوں نے پرسہ دیا، تسلی دی کہ یہ ہمارے دلوں کو سیل نہیں کرسکتے۔ ہم انہیں دوبارہ کھولیں گے، ابھی کچھ اور منمنانے کو تھے کہ بھائی غرائے
’’بات کرو۔۔۔۔ تم میں سے جو اسرائیل سے بات کرسکتا ہے، ایران سے کرسکتا ہے، افغانستان سے کرسکتا ہے، بھارت سے کرسکتا ہے، بات کرو۔۔۔ ہماری مدد کریں، ہماری مدد کریں، ہم سے غلطی ہوگئی، گناہ ہوگیا۔۔۔۔ اے ہندوؤ! ہم نہیں سمجھے۔ ہم اس سازش کو نہیں سمجھے جو انگریز نے بنائی تھی۔ ہم اس کا حصہ بن گئے جو نہیں بنے، وہ عیش کر رہے ہیں، حکمرانی کررہے ہیں، وردی پہن کر بے عزتی کررہے ہیں۔۔۔۔ ہر کسی سے مدد مانگو، اللہ سے مدد مانگو کہ ہر جگہ سے ہمارے لیے ذرائع پیدا کردے۔۔۔ امریکہ ساتھ دے، اسرائیل ساتھ دے۔۔۔۔ میں داعش، القاعدہ، طالبان اور اس کو پیدا کرنے والی آئی ایس آئی اور اس کی فوج کے خلاف خود لڑنے کے لیے جاؤں گا‘‘۔
اللہ اور رسولﷺ کا نام لے لے کر اللہ اور رسول ﷺکے نام پر بننے والے پاکستان کو توڑنے کی بددعائیں دینے والے اس شخص نے چند گھنٹے پہلے ہی کہا تھا کہ میں ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ میں معذرت چاہتا ہوں، میں معافی چاہتا ہوں، مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہئے تھا اور اس معافی نامے کو لے کر لندن میں بیٹھے ہوئے دیگر ’’فرزندان وطن‘‘ کہہ رہے تھے بھائی نے معافی مانگ لی، سو بات ختم ہوگئی۔ اب کیا جان لوگے؟ اور سچ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے تو بات ختم ہی کردی تھی۔ الطاف حسین نے پاکستان کو اکیس اگست کی سہہ پہر ناسور کہا تھا اور سب نے اسے ٹھنڈے پیٹوں پی لیا تھا۔ انتظامیہ تو اے آر وائے ٹی وی کے بیورو آفس میں گھسنے پر حرکت میں آئی تھی۔ اگر اس روز ایم کیو ایم کی غنڈیاں توڑ پھوڑ نہ کرتیں تو کیا کوئی نیوز چینل اس کا ذکر کرتا؟ ’’نیو نیوز‘‘کو چھوڑ کر سب نیوز چینلز بھی خاموش تھے۔ صرف ایک یہی نیوز چینل تھا جس نے بریکنگ نیوز میں بتایا کہ الطاف حسین پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوارہا ہے۔۔۔ پاکستان کو ناسور کہہ رہا ہے۔ پاکستان کو عذاب کہہ رہا ہے۔ ان نیوز چینلز کے تو اس وقت کان کھڑے ہوئے جب الطاف حسین نے تین بڑے چینلوں کے نام لے کر باجیوں اور ساتھی بھائیوں کو شہہ دی کہ یہ مزے والی کوریج نہیں دے رہے۔ کارکنوں نے آپیوں باجیوں کے ہمراہ آپے سے باہر ہوکر توڑ پھوڑ کی تو نیوز چینلز کو بھی ہوش آیا اور انہوں نے پہلی بار نامعلوم سے معلوم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بدمعاشیاں ایم کیو ایم کے کارکن کررہے ہیں۔
اس روز جو ہوا سو ہوا، ایم کیو ایم نے معافیاں تلافیاں کرکے منزل سے بڑھ کر ماننے جاننے والے قائد سے اظہار لاتعلقی کرکے اپنی جان بھی چھڑالی اور ’’ایم کیو ایم پاکستان‘‘ ہوکر پوری تنظیم کو بھی بچالیا لیکن چند گھنٹوں بعد ان کا قائد پھر کس دباؤ میں آگیا؟ پھر کس ذہنی تناؤ میں آگیا؟ فاروق ستار عامر خان کہتے ہیں کہ بھائی کی ذہنی کیفیت درست نہیں تو یہ کیسا پاگل پن ہے؟ یہ کس قسم کے مرگی کے دورے ہیں کہ ذہنی مریض خود کو مارنے پیٹنے، آس پاس موجود لوگوں کا گلا دبانے، ان کے کپڑے پھاڑنے کے بجائے پاکستان کو گالیاں دینے لگتا ہے! وہ اس ذہنی دباؤ میں پاکستان توڑدینے کے اسباب بھی بیان کرتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کس کس ملک سے جاکر مدد مانگو! کون کون سا ملک تمہاری مدد کرے گا۔۔۔ اسے ذہنی دباؤ میں یہ بھی یاد ہے حیدرآباد کے زونل آفس کے تالے میں موم ٖڈال کر سیل کیا گیا ہے، وہ اس ذہنی دباؤ میں اس عزم کا اظہار بھی کرتا ہے کہ وہ پاک فوج اور آئی ایس آئی سے لڑنے خود جائے گا!
سیلانی کو ایک دفاعی مبصر کی بات یاد آگئی کہ الطاف حسین نے یوں ہی منہ اٹھاکر پاکستان کے خلاف زبان نہیں چلادی، یہ سب کچھ بڑی ٹائمنگ سے ہورہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی اب کسی طرح بھارت سے سنبھل نہیں رہی۔ پانچ ہزار سے زائد کشمیری زخمی اور سو کے قریب شہید ہوچکے ہیں، لیکن ہر شہید کے جنازے میں پچھلے شہید سے زیادہ لوگ اور زیادہ پاکستانی پرچم ہوتے ہیں۔ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر سے دور رہنے کے لیے پہلے مودی نے بلوچستان کا شوشا چھوڑا لیکن بلوچوں نے اس کے خلاف ریلیاں جلسے کرکے بھرپور جواب دیا تو اب اس نے الطاف حسین کو حق نمک ادا کرنے کے لیے کھل کر سامنے آنے کا حکم دیا اور پھر آپ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ گوادر چائنا اقتصادی راہداری کی شکل پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اقتصادی تحریک اٹھنے والی ہے۔ ایسے میں سیاسی عدم استحکام اور بغاوت کی تحریکیں دشمنوں کا بڑا ہتھیار ہوتی ہیں۔ اب اس کے خیال میں یہ ہتھیار استعمال کرنے کا وقت آچکا ہے۔۔۔ اپنے دوست کے تجزیئے کے مطابق ایسا نہ بھی ہو تو ایسا کہاں ہوتا ہے کہ ایک ملک کا شہری بھاگ کر سات سمندر پار ملک میں جابسے، وہاں کی شہریت لے، حلف اٹھاکر خدا کو حاضر ناظر جان کر کہے کہ وہ اس ملک کی ملکہ کا وفادار رہے گا۔ وہ شادی کرے تو اسی ملک کی شہری خاتون سے، اسے وہ ملک پاسپورٹ دے تو باچھیں پھیلاکر پاسپورٹ کے ساتھ تصویر کھنچوائے۔ وہ دنیا کے مہنگے ترین علاقے میں ٹھاٹ باٹھ سے رہے اور وہ پھر کبھی اپنی اولاد کو بھی اس ملک کی ہوا تک نہ لگوائے جہاں سے اس کی دوا اور دارو کے لیے چندہ بھتہ جمع کرکے بھیجا جاتا ہو۔ اس کے بدن پر چڑھے کوٹ کی قیمت بھی وہیں سے آنے والے چندے سے ادا ہوتی ہو۔ پیروں کے جوتا کے دام بھی وہاں سے آنے والی فطرانے کی رقم سے ادا ہوتے ہوں۔ اسے کوئی پیر کہے، کوئی بھائی کہے اور کوئی قائد کہے، قائد بھی ایسا کہ جس کے لیے نعرے لگتے ہوں، ہمیں منزل نہیں راہنما چاہیے اور پھر وہ اس ملک میں اپنے چیلوں چانٹوں کو وفاقی وزیر مشیر میئر بنوائے۔ اقتدار کے لیے سودے بازی کرے۔ منہ پھاڑ کر اپنا حصہ لے اور اس قوم کا مسیحا کہلائے جسے گرداب میں چھوڑ کر وہ وہ دوردیس جا بسا ہو۔۔۔ یہی نہیں وہ احسان فراموش وہاں سے بیٹھ کر اس ملک کو ناسور قرار دے۔۔۔ عذاب قرار دے۔۔۔ خاتمے کو ثواب کہے۔۔۔ اور دشمن ملکوں سے مدد لینے کے لیے کہے۔۔۔
اوہ سوری، سوری سوری۔۔۔! سیلانی کچھ زیادہ ہی کہہ گیا۔ بھائی کے چاہنے والے یہ پڑھ کر یقیینا بھڑک اٹھیں گے۔ اشتعال میں آجائیں گے۔ چلیں کوئی بات نہیں، میں ایڈوانس میں معذرت مانگ لیتا ہوں۔ میں ان سب دوستوں سے دست بستہ کہتا ہوں کہ میرا مقصد تو یہی تھا جو آپ نے پڑھا اور سمجھا ہے، بس میں کسی ’’غدار وطن‘‘ کی دریدہ دہنی پر غصے میں آگیا تھا۔ ذہنی تناؤ کا شکار ہوگیا تھا۔۔۔ سیلانی یہ لکھتے ہوئے قطار میں ترتیب سے بیٹھے لفظوں کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

Comments

Click here to post a comment

  • جو خود سے اُٹھ کے واش روم تک نہیں جا سکتا وہ کہہ رہا ہے کہ میں آئی ایس آئی اور پاک فوج سے لڑنے جاو گا ۔ رینجرز نے اس کے تین چیلوں کو صرف آٹھ گھنٹے حراست میں رکھا اور اُنکا پاکستان زندہ باد ہو گیا۔ مجھے امید ہے کہ یہ بزدل چوہا ۵ منٹوں کی مار ہے۔ اُسکے بعد یہ اپنے باپ کے خانے میں را مٹا کر پاکستان لکھا کرے گا۔

  • تم جیسے کوہاٹیون سے ہم کراچی والے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں رکھتے اور نہ تمھاری اتنی اوقات سمجھتے ہین کہ تمھاری بکواس کا جواب دین تم جیسوں کو جواب آنے والا وقت دے گا۔اس دن اپنا تھوکا چاٹنے کے لیئے تیار رہنا

  • ہاہاہااہاہاہاہاہاہاہا، لڑکی کے نام سے تبصرہ کررہا ہے، وقت سب کو بتائے گا، تھوک کے چاٹنے والے لوگ تم ہی ہو، اسی فوج کو گالی دیتے ہو اور وقت آنے پر اسی کے شوز پالش کرتے ہوئے، کرائے کے ٹٹو

  • السلام علیکم... جناب محترم سیلانی صاحب کراچی میں جب یہ نا سور پل رہا تھا اسی وقت اس کا خاتمہ کیوں نہ کیا ؟ باقی ایسے لوگ دشمن قوتیں بڑی پلاننگ سے پالتی ہیں. اپ انڈیا کے کیرالا سے سابق سٹیٹ منسٹر ای . احمد کے 1980 سے راء کے اہداف پر مبنی انکشافات پر غور فرمائیں. یہ الطاف بھی اسی دہائی میں مارکیٹ میں لایا گیا . راء نے ان پر بڑا سرمایہ خرچ کیا ھے . خاموش ایم .کیو ایم پر نظر رکھئے یہ زیادہ خطرناک ھے اور مصطفے کمال کو نظر انداز نہ کرنا . اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین