تین سال پہلے مصر کے رابعہ چوک پر صہیونیت کی سرپرستی میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی، اُس کے تمام واقعات اب تک منظر عام پر نہیں آسکے ہیں۔ کیوں کہ باقی بچے ہوئے مظلوم جیلوں میں ہیں اور قاتل ملک کی کرسیِ صدارت پر قابض ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل میں حالات بدلیں گے، ظالم اپنے انجام کو پہنچیں گے اور مظلوم جیلوں سے باہر آئیں گے تو دنیا کو مظالم کی اصل داستانیں سنائیں گے۔ البتہ اتنا طے ہے کہ 13؍ اگست 2013ء کو ہونے والی سرکاری حملے میں رابعہ چوک پر کئی ہزار لوگ شہید ہوئے تھے، جن میں بوڑھے، جوان، بچے، لڑکے اور لڑکیاں سب شامل تھے۔ ان خوش نصیب شہیدوں کی فہرست میں ایک بہت روشن نام ایک کم عمر شہیدہ کا بھی ہے، جسے دنیا اسماء بلتاجیؒ کے نام سے جانتی ہے۔
خاندانی اور شخصی پس منظر
بلتاجی خاندان مصر کا معروف خاندان ہے۔ موجودہ مصر میں اس خاندان کے ایک فرد ڈاکٹر محمد بلتاجی اخوان المسلمین کے مشہور و مقبول رہ نما ہیں۔ اسماء بلتاجی ان ہی کی صاحب زادی تھیں۔ وہ 1996ء میں پیدا ہوئیں اور خالص اسلامی ماحول میں تربیت پائی۔ اسکول میں ہمیشہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوتی رہیں۔ ساتھ ہی اپنی خوش مزاجی اور سب کے ساتھ ہمدردی کے نتیجے میں اپنے اساتذہ اور ساتھیوں کی محبوب رہیں۔ شہادت کے بعد سوشل میڈیا میں پھیلی ہوئیں اُن کی بے شمار تصاویر میں سے ہر تصویر ان کی خوش مزاجی کا پتا دے رہی ہے۔ وہ غیر درسی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتیں۔ مذاکرے، خطابت، مضمون نویسی اور دوسرے مسابقات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم اور دوسری اسلامی کتابوں کا مطالعہ بھی کرتیں۔ طالبات اور خواتین کے لیے قائم کیے گئے اخوان کے مستقل شعبوں میں بھی اپنی ہرطرح کی خدمات پیش کرتی رہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صرف سترہ سال کی عمر میں انہیں اسلامی تعلیمات پر مکمل اعتماد حاصل ہوگیا اور دل میں احیائے اسلام کا جذبہ کروٹیں لینے لگا۔
ہنگامی حالات
2011ء میں عرب ممالک میں عوامی بیداری کی لہر چلی اور کئی کئی دہائیوں سے کرسی اقتدار پر جمے ہوئے ظالم حکمراں کیفر کردار کو پہنچنے لگے۔ مصر میں بھی عوام نے امریکی ایجنٹ حسنی مبارک کے چالیس سالہ دور کے خاتمے کی تحریک شروع کی۔ اخوان نے بھی اس تحریک میں شمولیت اختیار کی اور پوری تحریک پر چھاگئے۔ کسی ڈکٹیٹر کے خلاف احتجاج کا فیصلہ معمولی نہیں ہوتا۔ اس میں جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آنا ہوتا ہے۔ لیکن کم عمراسماء اس موقع پر بھی پیچھے نہیں رہیں۔ میدان میں اتری اور ظالم حکومت کے خاتمے کے لیے اپنا ہر ممکن تعاون پیش کیا۔ بالآخر حسنی مبارک نے مجبور ہوکر کرسی چھوڑی اور ملک کو چالیس سال بعد ایک ناکارہ حکمراں سے نجات ملی. گویا’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘ کچھ دنوں بعد ملک میں جمہوری طور پر انتخابات کا اعلان ہوا۔ اخوان کی سیاسی شاخ ’’پیس اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ بھی میدان میں آئی۔ صرف میدان میں آئی نہیں، میدان مار بھی لے گئی۔ انتخابی مہم میں بھی اسماء بلتاجی پیش پیش رہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں گھوم گھوم کر اخوان کے نظریات کا تعارف کراتی رہیں اور اخوان کے لیے ماحول سازگار کرنے کی اپنی سی کوششیں کرتی رہیں۔ اس دن دنیا بھر میں اسلام پسندوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، جب اخوانی رہ نما ڈاکٹر محمد مرسی پوری ایمانی شان کے ساتھ مصر کی کرسی صدارت پر فائز ہوئے۔ صدر بننے کے بعد انہوں نے جب تحریر اسکوائر پر پہلی تقریر کی تو وہ منظر دیکھنے کے قابل تھا۔ انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی تعبیر حقیقی معنوں میں نظر آ رہی تھی۔ مجمع گوش برآواز بھی تھا اور جذبات سے مغلوب بھی۔ بہرحال پوری شان و شوکت کے ساتھ مصر میں ا سلام پسندوں بلکہ اسلام پرستوں کی حکومت آگئی۔
شیطانی چال
امریکا اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل مہینوں سکتے میں مبتلا رہے۔ انہیں ڈر تھا کہ مصر میں اسلامی قوانین بنیں گے تو دنیا ان کی بےمثال افادیت محسوس کرے گی۔ دنیا کے سامنے اسلام کے کامیاب سیاسی نظام کا نمونہ آئے گا تو دنیا اس سے متاثر ہوگی۔ چونکہ مصر کی سرحد فلسطین سے بھی ملتی ہے، اس لیے اب فلسطینیوں کو مضبوط سہارا مل جائے گا۔ ایسا ہوگیا تو اسرائیل کا کیا ہوگا؟ اس طرح کے خیالات نے باطل کی نیند اڑا دی۔ آخر کار وہی فارمولہ اختیار کیا گیا جو غزوہ احد میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ اور آپ کے بعد آپ کی امت کے جیالوں جیسے سلطان نورالدین زنگیؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، سلطان ٹیپو شہیدؒ اور حضرت سید احمد شہیدؒ کے ساتھ باطل نے اختیار کیا تھا۔ یعنی اہل حق کے لشکر میں شامل کچھ دولت کے پجاریوں، بے ایمانوں، بےضمیروں، جاہ پرستوں اور نمک حراموں کو کچھ دنیاوی لالچ دے کر غداری پر ابھارا جائے اور حق کو مٹانے کی کوشش کی جائے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ باطل کا یہ فارمولہ عارضی طور پر تو کامیاب ہوجاتا ہے لیکن پھر اسے ناکامی اور نامرادی ہی ہاتھ آتی ہے۔ اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ ایسے دین بے زار سیاسی و فوجی رہنماؤں کو ساتھ لیا جو صدر مرسی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تو رہتے تھے لیکن اندر سے ان کی اسلام پسندی کے سخت مخالف تھے۔ کچھ ایسے عرب حکمرانوں کو ساتھ لیا جو شاید اپنی آخرت سے پورے طور پر مایوس ہیں اور دنیا میں جنت کا ہر مزہ لوٹ لینا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی مصر کے اندر اور باہر کی کچھ ایسی جماعتوں اور حکومتوں کو بھی ساتھ لیا ، جن کی’’راسخ العقیدگی‘‘ کی ایک عالم میں دھوم ہے۔ آخرکار امریکا اور اسرائیل نے پورا ایک سال اس سازش کی تیاری میں گزارا اور پھر مصر کی عوامی اور جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ جس حکومت کو عوام نے خود منتخب کیا ہو، اس کو اچانک بغیر کسی معقول وجہ کے ختم کردینا عوام کو کیسے براداشت ہوسکتا تھا؟ چنانچہ اسرائیل اور امریکا کی کٹھ پتلی فوجی حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوگئے۔ کم عمر طالبہ اسماء بلتاجی بھی احتجاج میں پوری طرح شریک ہوئیں۔ اخوان کے رہنماؤں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جیلوں میں ڈالا جانے لگا۔ ان کے اثاثے منجمد کیے جانے لگے۔ اسلامی دفاتر اور مراکز کو نذر آتش کیا جانے لگا۔ حق پرست علماء و قائدین پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ مساجد کے باہر پہرے بٹھا دیے گئے۔ تحریر اسکوائر کو فوجی چھائونی بنا دیا گیا، تاکہ کوئی وہاں احتجاج نہ کرسکے۔ عوام نے اب بڑی تعداد میں ایک بڑے چوک پر جمع ہونا شروع کر دیا، جسے رابعہ عدویہ اسکوائر کہا جاتا ہے۔ فوج کے سخت پہرے کے باوجود ہزاروں افراد جمع ہوگئے۔ فوجی حکومت کو اپنے لیے واضح خطرہ محسوس ہونے لگا۔ جب انہیں حق پرستوں کو دبانے کا کوئی راستہ نہیں سوجھا تو انہوں نے مصر ہی کے ایک قدیم حکمراں رمسیس (فرعون) کو نمونہ بنایا اور طاقت کے بل بوتے پر احتجاج ختم کرانے کی ٹھان لی۔ رابعہ عدویہ اسکوائر پر اہل حق جس دن سے جمع ہونا شروع ہوئے، اسی دن سے کم عمر اسماء بلتاجی بھی اپنے والد کے ساتھ وہاں موجود رہیں اور شہادت کا عظیم تحفہ لے کر ہی اٹھیں۔ ایسے سخت حالات میں فوجی پہرے کے درمیان احتجاج کے لیے بیٹھنے کا فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا۔ ظالم و غاصب حکمراں کے بالمقابل کھڑے ہونے کا انجام کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ اس احتجاج کی نزاکت سے اخوان کے قائدین بھی اچھی طرح واقف تھے اور اسماء بلتاجی بھی۔ ذرا غور کیجیے کہ ایک سترہ سالہ ممتاز طالبہ کے لیے یہ فیصلہ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ زندگی کا وہ حصہ جسے ٹین ایج سے تعبیر کیا جاتا ہے، صرف اچھل کود اور موج مستی کا دور سمجھا جاتا ہے۔ اس عمر میں اتنا بڑا فیصلہ لینا، انتہائی مستقل مزاجی، یکسوئی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے بے پناہ شوق کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اسماء بلتاجی اس امتحان میں بھی پوری اتریں اور اپنی کم عمری کے باوجود باطل کے مقابلے میں کھڑی ہوگئیں۔
مقبولیت عند اللہ
اس درمیان ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جس سے اسماء بلتاجی کے تقدس اور مقبولیت عند اللہ کا صاف اشارہ ملتا ہے۔ اسماء کی شہادت سے دو دن پہلے کی بات ہے۔ ان کے والد محترم نے خواب میں دیکھا کہ ان کی لخت جگر شادی کے جوڑے میں ملبوس شاداں و فرحاں چلی آرہی ہے۔ وہ آئی اور اپنے والد کے پاس لیٹ گئی۔ باپ نے پوچھا:’’بیٹی! کیا یہ تمہاری شادی کی رات ہے؟‘‘ شادی کا جوڑا پہننے کے باوجود بیٹی نے عجیب سا جواب دیا۔ اس نے کہا: ’’یہ دوپہر ہے، رات نہیں۔‘‘ صبح اٹھ کر ڈاکٹر بلتاجی نے خواب کو کوئی اچھا خواب سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔ دو دن بعد جب اسماء نے دوپہر کے وقت خلعت شہادت زیب تن کی تو اس بشارت آمیز خواب کی تعبیر سامنے آگئی۔
گنج شہیداں
آخر کار صبح شہادت نمودار ہوئی۔ اُس دن صبح ہی سے بھاری تعداد میں فوجی نفری تعینات کی جانے لگی۔ پرامن احتجاج کرنے والے نہتوں کو ٹینکوں اور میزائل لانچروں سےگھیر لیا گیا۔احتجاج کرنے والے بھانپ گئے تھے کہ آج ظالم کوئی سخت قدم اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ لیکن وہ تو آئے ہی اسی لیے تھے کہ ظالم کی مخالفت کریں اور بارگاہ ایزدی سے دائمی رضا کا پروانہ حاصل کرلیں۔ فرعون کی معنوی اولاد کا اشارہ ملتے ہی ہر طرف سےگولہ باری اور فائرنگ شروع کردی گئی۔ حق کے طرف دار تیزی کے ساتھ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً تین ہزار افراد شہید کردیے گئے۔ ان ہی حق کے پرستاروں میں اسماء بلتاجی بھی شامل تھیں۔ اسماء بلتاجی کے قریبی لوگوں کی اخباری اطلاعات اور ویڈیو بتاتی ہیں کہ جب یہ خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی، اس وقت بھی اسماء میدان میں ڈٹی ہوئی تھیں۔ اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا بلند کر رہی تھیں۔ یسقط یسقط حکم العسکر کے نعرے لگا رہی تھیں۔ خود بھی جمی ہوئی تھیں اور دوسروں کو بھی جما رہی تھیں۔ زخمیوں کو سہارا دے رہی تھیں اور شہیدوں کی لاشوں کو بے حرمتی سے بچانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اچانک پیچھے سے ایک گولی آئی اور اسماء کی پیٹھ میں لگی۔ پیٹھ پر زخم کھانا ہمیشہ سے بزدلی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہزار ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے پروردگار کو یہ منظور نہیں تھا کہ کوئی اس کی محبوب بندی کو بزدل یا پیٹھ دکھا کر بھاگنے والا کہے۔ چنانچہ اگلے ہی لمحے ایک گولی اس کم عمر مجاہدہ کے سینے میں لگی۔ جب ظالم اپنا کام کرچکے تو زخمیوں کو عارضی اور مستقل اسپتالوں میں پہنچایا جانے لگے۔ اسماء بلتاجی کی روح عالم بالا کے مزے تو لینے لگی تھی، لیکن جسم سے جدا نہیں ہوئی تھی۔ انہیں بھی اسپتال پہنچادیا گیا۔
آخری لمحات
شہادت سے چند منٹ پہلے کی ویڈیو دیکھیں تو صاف محسوس ہوتاہے کہ یہ کم عمر لڑکی کس اطمینان سے موت کو گلے لگا رہی ہے۔ پیشانی پر پسینے کے کچھ قطرے ضرور ہیں، لیکن گھبراہٹ ذرا بھی نہیں۔ ڈاکٹر علاج کر رہے ہیں، گولیاں نکال رہے ہیں۔ مرہم پٹی کر رہے ہیں۔ لیکن سترہ سال کی وہ لڑکی نہ چیخ رہی ہے، نہ درد سے تڑپ رہی ہے، نہ گھروالوں کو بلا رہی ہے اور نہ رو رہی ہے۔ بس کچھ کچھ دیر بعد مدھم سی آواز میں آہ کرتی ہے اور پھر خاموش ہوجاتی ہے۔ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اس وقت اپنے اردگرد کے ماحول سے بے نیاز کسی اور ہی دنیا کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ اسی درمیان اس کی گردن ایک طرف ڈھلک جاتی ہے اور وہ جنت کے باغات میں سیر کرنے کے لیے روانہ ہوجاتی ہے۔ شہید اسما بلتاجی اتنی خاموشی سے رب کے حضور حاضر ہوئیں کہ نہ ڈاکٹر کو احساس ہوا اور نہ آس پاس کھڑے ہوئے. اخوان کے اُن کارکنان کو، جو ایک بڑے قائد کی بیٹی ہونے کی وجہ سے اسماء کی خدمت کے لیے ان کے بستر کے قریب کھڑے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہادت کے بعد اسماء کی آنکھیں کھلی رہ گئیں اور احساس نہ ہونے کی وجہ سے کسی نے انہیں بند نہیں کیا۔
شہید بیٹی کے نام قیدی باپ کا خط
ڈاکٹر محمد بلتاجی کو دو دن بعد جیل میں اس حادثے کی اطلاع ملی تو انہوں نے شہیدہ کے نام ایک خط لکھا، جس میں اپنے خواب کا بھی تذکرہ کیا اور اس کی تعبیر کا بھی۔ یہ خط دنیا کے اکثر اخبارات میں ترجمہ ہو کر شائع ہوا۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے اسے پڑھ کر آنسو بہائے۔ انہوں نے لکھا:
’’جان سے زیادہ عزیز بیٹی!
میں تمہیں الوداع نہیں کہتا، میں کہتا ہوں کہ ہم دوبارہ ملیں گے۔ تم نے ظلم اور ظالم کے شکنجے کے خلاف اور آزادی کی محبت لیے ہوئے ایسی زندگی گزاری کہ تمہارا سربلند تھا۔ تم نے اس ملک کی تعمیر نو کے لیے نئے افق کے خاموش متلاشی کے طور پر زندگی گزاری تاکہ یہ ملک تہذیبوں میں اپنا مقام بنا سکے۔تم نے خود کو ایسی باتوں میں مصروف نہیں رکھا جن باتوں میں تمہاری عمر کے بچے خود کو مصروف رکھتے ہیں۔ گرچہ روایتی تعلیم تمہاری خواہش اور دل چسپی کو مکمل کرنے میں ناکام رہی، لیکن اس کے باوجود تم نے اپنی کلاس میں ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کی۔ جب آخری بار ہم دونوں ایک ساتھ را بعہ عدویہ میں بیٹھے تھے تو تم نے مجھ سے کہا تھا کہ اگرچہ آپ ہمارے ساتھ ہیں، اس کے باوجود آپ مصروف ہیں اور میں نے تم سے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ زندگی ایک دوسرے کی صحبت میں گزارنے کے کافی نہیں ہے. اس لیے میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں جنت میں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع عطا فرما۔جس دن تمہیں شہید کیا گیا اس سے دو رات پہلے میں نے تمہیں خواب میں دیکھاتھا۔ تم سفید عروسی جوڑا پہنے ہوئے ہواور بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔پھر تم آکر میرے قریب لیٹ گئیں تو میں نے تم سے پوچھا کہ کیا یہ تمہاری شادی کی رات ہے؟ تم نے جواب دیا کہ یہ دوپہر ہے، شام نہیں۔ جب لوگوں نے مجھے بتایاکہ تمہیں بدھ کے دن دوپہر میں شہید کیا گیا تو میں سمجھ گیا کہ تمہارے کہنے کا کیا مطلب تھا۔ مجھے یہ بھی یقین ہوگیا کہ اللہ نے تمہاری روح کو شہید کے طور پر قبول فرما لیا ہے۔ تم نے میرے یقین کو تقویت پہنچائی کہ ہم سچائی کے راستے پر ہیں اورہمارے دشمن باطل کی راہ پر۔ یہ بات میرے لیے انتہائی اذیت ناک ہے کہ میںتمہارے آخری سفر میں موجود نہیں تھا ۔ میںنہ تو تمہارا آخری دیدار کرسکا، نہ تمہاری پیشانی چوم سکا اور نہ تمہاری نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کرسکا۔
جانِ پدر!
میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں اپنی زندگی یامظلومانہ قید سے خوف زدہ نہیں ہوں۔ میں اس پیغام کو عام کرنا چاہتا ہوں کہ تم نے انقلاب اور اس کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے جام شہادت نوش کیا ہے۔ تمہاری روح تمہارے سر کے ساتھ ظالموں کی مزاحمت کرتے ہوئے بلند ہوگئی۔ دھوکے بازوں کی گولیوں نے تمہارے سینے کو نشانہ بنایا۔ تم کتنی پر عزم اور کتنی پاکیزہ روح کی مالک تھیں۔ مجھے اس بات کابھروسا ہے کہ تم خدا کے نزدیک بھی خلوص کے ساتھ جدوجہد کرنے والوں کے زمرے میں شامل تھیں ۔ اس نے تمہیں ہمارے ساتھ اس لیے شامل کیا کہ تمہیں شہادت کا اعزاز عطاکرے۔
میری جان سے پیاری بیٹی!
میں تم کو خدا حافظ نہیں کہتا۔ میں کہتا ہوںالوداع۔ ہم جلد ہی جنت میں اپنے پیارے نبی ﷺ اور ان کے صحابۂ کرامؓکے ساتھ ملیں گے، جہاں ہماری ایک دوسرے اور دوسرے اعزہ کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش پوری ہوجائے گی۔‘‘
اسما بلتاجی شہید ہوگئیں اور رہتی دنیا تک یہ پیغام چھوڑ گئیں کہ انسان چاہے کیسی ہی تعلیمی، سماجی، سیاسی اور علمی مصروفیات میں مشغول ہو، اس کے پیش نظر یہ حقیقت رہنی چاہیے کہ وہ اس دنیا میں صرف اپنے رب کا غلام ہے۔ اپنے رب کی رضامندی اور اس کے پیغام کی حمایت کو اسے اپنی تمام مصروفیات پر فوقیت دینی چاہیے اور اس ذمے داری کی ادائی میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کرنی چاہیے۔ یہ ہے وہ پیغام ، جو راہ خدا کی یہ کم عمر شہیدہ اسماء محمد بلتاجی دے کر رخصت ہوئی ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔
الوداع ! اے راہ خدا کی کم عمر شہیدہ الوداع! تم نے اپنی ذمہ داری ادا کی اور شہادت کے مرتبے سے سرفراز ہو گئیں۔ کاش! تیری شہادت امت کو بےحسی دور کرنے اور غیرت ایمانی سے سرشار ہونے پر آمادہ کرسکے۔
(شاہ اجمل فاروق ندوی چیف ایڈیٹر ماہنامہ المؤمنات لکھنؤ و ایڈیٹر ماہنامہ تسنیم نئی دہلی ہیں)
تبصرہ لکھیے