آئیے ذرا دیر کو الطاف حسین بن کر سوچتے ہیں، قائد تحریک کے جوتوں میں پاؤں ڈال کر ان کے زاویے سے صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں، کیونکہ ہر انسان بس اپنی نفسیات کا غلام ہوتا ہے.
دیکھیے
جو شخص زندگی کے تیس طویل برسوں سے تقسیم در تقسیم کی سوچ سے گزر رہا ہو، اس کی نفسیات میں جوڑنا نہیں توڑنا اور ملانا نہیں کاٹنا رچ بس جاتا ہے، اور یہ خیالات اور جذبات سے آگے بڑھ کر اس کے عقائد کا حصہ بن جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ’’بیوی‘‘ کو بھی اپنے ساتھ جوڑ کر نہیں رکھ سکتا.
جو شخص زندگی بھر دوسروں سے نفرت کا پرچار کرتا رہے، وہ اپنوں کے بارے میں بھی ہمیشہ خدشات و خطرات کا شکار رہتا ہے.
جس شخص کے محض ایک سیکٹر انچارج کے اشارے پر تین تین سو جیتے جاگتے انسان چند گھنٹوں کے اندر موت کی نیند سلا دیے جاتے ہوں، پانچ پانچ سو انسان چوبیس گھنٹے میں جان سے چلے جاتے ہوں، اس کی اپنی قوت، تکبر اور’’میں‘‘ کا بھلا کیا مقام ہوگا؟
جو شخص کم و بیش تین دہائیوں تک محض اپنی سینکڑوں قد آدم تصویروں کے ذریعہ اپنی بھرپور موجودگی کا احساس دلاتا رہا ہو اور اپنی منواتا رہا ہو، اس کی اپنے بارے میں رائے کیا بن چکی ہوگی؟
جو شخص لوئر مڈل کلاس کی ففٹی موٹر سائکل سے اٹھ کر اربوں روپوں کے اثاثوں میں کھیلنے لگا ہو اس کا اعتماد کہاں کھڑا ہوگا؟
جس شخص کو لاکھوں لوگوں نے برسوں تک پرستش کی حد تک چاہا ہو، اس کی خود ستائی اور خود پسندی بھلا کس پیمانے سے ناپی جا سکے گی؟
جو شخص برسوں سے ایک محفوظ اور پرامن جگہ پر بیٹھ کر ایک طاقتور نیٹ ورک چلاتا اور اپنے ارکان اسمبلی کو اپنے ہی ووٹروں سے جوتے پڑواسکتا ہو، وہ بھلا کیا چیز ہوگا؟
سینیٹرز، ایم این ایز اور ایم پی ایز جس کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہوں، اس کی قوت کا کیا عالم ہوگا؟
ملک کا صدر اور وزیراعظم جس کے آستانہ عالیہ پر حاضری کو اقتدار کی ضمانت جانتے ہوں، اس کے غرور کا عالم کیا ہوگا؟
جو ملک کے سب سے طاقتور، منظم، مؤثر اور بھرپور تنظیمی نیٹ ورک کا بگ باس ہو؟
جو شخص ملک کے واحد طاقتور ترین اور پلانڈ میڈیا سیل کے ذریعے جو چاہتا ہو سناتا اور دکھاتا ہو، جو چاہتا ہو بتاتا ہو، اور پورا ملک یرغمال بنا لینا جس کے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کا کھیل ہو،
اگر ایسے شخص، ایسے ڈان کی تصویر تک دکھانا جرم بن جائے بلکہ الٹا میڈیا اس کی کلاس لینے لگے،
ایسا شخص جو کہے اس پر عمل ہی نہ ہو سکتا ہو جس کے چھینکنے پر بکرے اور انسان قربان ہو جاتے ہوں، اس کی بولتی بند ہونے پر نائن زیرو کی نکڑ والا پنواڑی بھی دکان بند نہ کرے،
اس کے اپنے گھڑے ہوئے پتھر کے صنم بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے اسے سرعام شرابی اور قاتل کہیں اور کسی کی نکسیر نہ پھوٹے
وہ عین اس کے گھر مکا چوک پر اپنا جھنڈا گاڑیں اور اس کے جان نثار زور سے بول بھی نہ سکیں تو ذرا سوچیے تو!
ایسے آدمی کی نفسیات کیا بن چکی ہوگی؟ وہ کیسے پیچ و تاب کھاتا ہوگا اور اسے کیسے یقین آتا ہو گا کہ اب وہ ’’ہے‘‘ نہیں’’تھا‘‘ ہو چکا،
تو صاحبو! الطاف کی تقریروں کو اس صورتحال کے تناظر میں دیکھو، اس کی نفسیات کو سمجھو اور اس سے نصیحت پکڑو
کیونکہ ہر انسان بس اپنی نفسیات کا غلام ہوتا ہے۔
Aap ke dono tabsare drust to phir naya aur nisbatan tawana don hee aaraha hae. Mazi mae ham ye bhee sunte rahe haen ke boorha aur sharif martial law tawana aur jawan martial law se behtar hae. Mukka chawk ka panwari agar dokan band karna chor diya hae to kiya uska beta bhee don ke baat nahee manega. Zuberi sb tabadlae khayal ke kiliye bohut kuch hae filhal ispar hee iktafa ke apne hissey ka kaam infradi kaam kiye jao aksariat par kaam karna mohal hae bus fard se fard tak.