ہوم << فاٹا اصلاحات سے آگے بڑھنے ہوگا - شہزاد سلیم عباسی

فاٹا اصلاحات سے آگے بڑھنے ہوگا - شہزاد سلیم عباسی

شہزاد سلیم عباسی ا وفاق کے زیرانتظام فاٹاکے 13 قبائلی علاقہ جات ہیں جن کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے، ان میں سے 20 لاکھ دربدر ہیں۔ قبائلی علاقہ جات میں ایف آر پشاور، ایف آر کوہاٹ، ایف آر ڈی آئی خان، ایف آر بنوں، ایف آر لکی، ایف آر ٹانک، باجوڑ ایجنسی، کرم ایجنسی، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں. عام طور پر باقی پاکستان کے لوگ اسے ’’علاقہ غیر‘‘ کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اپنے وطن کے کسی حصے کو اگرچہ علاقہ غیر کہنا اوردیار غیر سمجھنا کم سے کم الفاظ میں کوتاہی ہے۔ فاٹا کے معززین اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں پاکستانی بھائی سمجھے جانے کے بجائے’’علاقہ غیر‘‘ کے لوگ تصور کیا جاتا ہے، دوسرے الفاظ میں ہمیں اس ملک کا شہری نہیں سمجھا جاتا۔ اسی تصور کا اثر ہے کہ بچپن میں جب ہمارے گاؤں میں قبائلی بھائی بڑی پگڑی، ویسکوٹ، پشاوری چپل اور ایک عدد چھوٹی موٹی چیزوں سے بھر ا ٹرنک لے کر پھیری لگاتے اور آوازیں لگاتے تھے، کنگھی لے لو، شیشہ لے لو وغیرہ تو محلے والے ہمیں ان کے قریب جانے سے روکتے اور بسا اوقات یہ بھی کہتے کہ یہ لوگ علاقہ غیر کے ہیں، پکڑ کر لے جائیں گے۔
قبائلی علاقوں میں اصلاحات لانے کے لیے ایف سی آر میں ترامیم، فاٹا میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت اور اسے الگ صوبہ بنانے یا خیبرپختونخوا میں ضم کیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں. آزادی کو 70 سال ہونے والے ہیں مگر فاٹا کے عوام اب بھی انگریزوں کے کالے قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن تلے پس رہے ہیں اور اس سے نجات کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ایف سی آر قانون کی ایک متنازع شق کو ’’اجتماعی ذمہ داری‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی گئی۔ پہلے اس شق کے تحت پولیٹکل ایجنٹ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ پورے قبیلے کو کسی بھی جرم میں گرفتار کر کے طویل عرصے تک پابند سلاسل رکھ سکتا تھا تاہم ایف سی آر 2011 بل کے ترمیمی بل کے بعد ایجنٹ سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا اور اب پورے قبیلے کو نہیں بلکہ مرحلہ وار سزاؤں کا سلسلہ روا رکھا گیا ہے جوکہ اب بھی قبائلی عوام سے انتہائی زیادتی ہے۔ قبائلی امور پر نظر رکھنے والے سنیئر تجزیہ نگار ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ فاٹا کو ایک سازش کے تحت سیاسی اور معاشی طور پر ایک بلیک ہو ل بنا دیا گیا ہے اور دہشت گردی اور شدت پسندی کو خوامخوا فاٹا سے نتھی کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے عوام کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ترقیاتی سکیموں کی ہے، وفاقی حکومت کو چاہیے کہ فاٹا کے عوام کے لیے پانی بجلی پانی اور پکی سڑکوں کا جال بچھائے۔
فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ہونے والے اجلاس اب تک بد قسمتی سے نشستن گفتن برخاستن سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قبائلیوں کے لیے2011ء فاٹا اصلاحات میں جو ترامیم کی گئیں، ان میں مزید بہتری کے ساتھ انھیں عملی طور پر نافذ کیا جائے. چند تجاویز پر عمل کر کے قبائلی بھائیوں کے لیے کچھ آسانی کا سامان پیدا کیا جا سکتا ہے۔
1. اعتماد سازی کی فضا قائم کرتے ہوئے قبائلیوں کو بھی اصلاحات کمیٹی میں جگہ دی جائے جس میں قبائلی ممبران قومی اسمبلی، سینیٹر، قبائلی عمائدین، سول سوسائٹی اور دانشور وغیرہ شامل ہوں۔
2. فاٹا کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہوئے قومی دھارے میں لایا جائے۔ جلد از جلد قانونی و انتظامی حیثیت دے کر خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے، یا گلگت بلتستان کی طرح ایگزیکٹو کونسل کا درجہ دیا جائے۔
3. مثبت سرگرمیاں وقت کی اہم ضرورت ہیں، نوجوانوں میں مثبت اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ، امن امان کے قیام اور احساس کمتری سے نکالنے لیے یوتھ فیسٹول، امن گالا، ایگزبیشن گالا، تعلیم گالا اور اس طرح کے مختلف ایونٹس منعقد کرائے جائیں۔
4. کھیلوں کے مقابلے کرائے جائیں۔
5. فاٹا کے عوام کو بنیادی حقوق تعلیم، صحت، انصاف اور روزگار مہیا کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے۔
(6) ایک بڑے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا جائے۔
(7) وزیراعظم اپنے صوابدید ی اختیارات استعمال کرتے ہوئے فاٹا میں ایک بڑا ہسپتال، ایک یونیورسٹی، ایک آرٹ کونسل اور ایک سپورٹس کمپلکس قائم کرنے کا اعلان کریں۔

Comments

Click here to post a comment