دلّی میں دوسرا دن تھا. ناشتے پر مبارک بدری نے مدعو کیا تھا لیکن ہم پاک پنجتن دن چڑھے تک سوتے رہے. سب سے پہلے میں بیدار ہوا اور نہا دھو کر اس دوست کے بیگ سے ایک نئی شرٹ نکال لی جس نے میری دو شرٹس وقت پر تیار نہیں کی تھیں. جلد بیدار ہونے کے بےشمار فائدوں میں سے ایک فائدہ وہ شرٹ بھی تھی. جب وہ دوست بیدار ہوا تو قہر آلود نگاہ اپنی شرٹ پر ڈال کر رہ گیا. اس کے بعد سب سے پہلے بیدار ہونے کا شرف اسے ہی حاصل ہوتا تھا.
تیار ہو کر مزارِ غالب کے قریب سے ’’اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں‘‘ کا ورد کرتے ہوئے ہمایوں کے مقبرے کی جانب روانہ ہوئے. بنگلہ والی مسجد سے ’’اللّہ قبول فرمائے‘‘ کا غلغلہ بلند ہورہا تھا. ہمایوں کا مقبرہ حضرت نظام الدین سے ذرا سے فاصلے پر واقع ہے. ٹکٹ خریدتے وقت جب ایک گورے چٹّے نوجوان نے ٹکٹیں طلب کیں تو ٹکٹ ونڈو میں بیٹھا شخص اسے غیرملکی ٹورسٹ کے ٹکٹ دے رہا تھا جو نسبتاً مہنگا ہوتا ہے. اس نوجوان سے شستہ اردو میں کہا کہ وہ انڈین ہے لیکن اس کا یقین نہیں کیا گیا. بالآخر اس نے اپنا ڈرائیونگ لائسنس اور دیگر دستاویزات دکھائیں تو اسے انڈین تسلیم کیا گیا.
وہ ایک کشمیری نوجوان تھا جس نے پانچ ٹکٹیں خریدیں اور اپنے ساتھ ایک برطانوی مسلم فیملی کو لے کر شان سے ہمایوں کے مقبرے میں داخل ہوگیا. انڈیا میں وہ اس فیملی کا میزبان تھا. خوشی ہوئی کہ کشمیریوں نے اس ملک میں رہنا سیکھ لیا ہے.
ہمایوں کا مقبرہ اس کی بیگم حمیدہ نے ان کے لیے بنوایا جبکہ آج کل بیویاں شوہروں کے لیے پراٹھے بھی نہیں بناسکتیں. یہ مقبرہ سرخ پتھروں سے تعمیر ایرانی و ہندوستانی طرز تعمیر کا خوبصورت امتزاج ہے. یہاں بھی ہمایوں کی قبر کو دیگر امراء اور رؤسا کی قبریں اسِسٹ کرتی ہیں. درمیان میں ہمایوں کا مزار ہے اور چہار جانب دیگر درباریوں کی قبریں ہیں. گویا حمیدہ بیگم نے ہمایوں کا دربار اس کی موت کے بعد بھی سجائے رکھا ہے. ہمایوں اس کا مجازی خدا جو تھا.
جینز اسکرٹ میں کچھ مشرقی اطوار کی چلتی پھرتی قبریں بھی نظر آئیں. مقبرے میں موجود انڈینز سفید فاموں کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے. ہم نے ایک سیاہ فام نائجیرین کو پکڑا جس کی’’ہیلو‘‘ کے جواب میں ایک دوست نے خلوصِ دل سے ’’وعلیکم السّلام‘‘ کہا تھا. اس کی بیوی ایک جانب کھڑی مسکرا رہی تھی، خوبصورتی کے نام پر اس کے پاس سفید دانت تھے، لیکن یہ زندہ دل جوڑا ان سیکڑوں منہ بسورتے سفید فاموں سے زیادہ خوبصورت معلوم ہوا. ایک دوست نے نائجیرین سے چرس کے بارے میں دریافت کیا. وہ چرس کا مطلب نہیں سمجھ سکا. دونوں میاں بیوی مسکراتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر اور قدرے جھک کر ’’نمستے‘‘ کرنے کے بعد چلے گئے. اس نائجیرین لڑکی کی مسکراہٹ سے سیاہ ہونٹوں سے طلوع ہوتے سفید دانت دیکھ کر یوں لگتا تھا گویا افق پر چھائی ہوئیں گھنگھور گھٹائیں چھٹ گئی ہوں اور ان کے عقب سے روشن ستارے نمودار ہو رہے ہوں.
مجھے یہاں سے آگے بڑھنے کی جلدی تھی. میں چاہتا تھا کہ کچھ وقت برّصغیر کے اس نابغے کے مرقد گزار سکوں جسے دنیا ابوالکلام آزاد کے نام سے جانتی ہے. میں دلّی کے لیے گھر پہ اطّلاع دیے بغیر روانہ ہوگیا تھا. ساری ہمّتیں بٹور کر والد صاحب کو فون لگا کر سعادت اطوار کی دلّی میں موجودگی کی خبر دی. ابّو بھڑک اٹھے تھے. غصّے کے عالم میں دریافت کیا کہ ’’دلّی میں اس وقت کہاں ہو؟‘‘
’’مولانا آزاد کے مزار پر...‘‘
یکلخت ابّو کا غصّہ رفع ہوگیا اور وہ سفر کے بارے میں پوچھنے لگے. یہ بھی کہا کہ اگر پیسے کم ہوں تو اکاؤنٹ میں بھیج دیتا ہوں کسی اے ٹی ایم سے نکال لینا. اندھا کیا چاہے دو آنکھیں.
جامع مسجد کے سامنے جنوبی مینارے کے عین مقابل وہ صاحبِ سرّ البیاں مدفون ہے، وہ ادیب جس کے قلم پر الفاظ قطار در قطار ہجوم کرتے تھے، وہ لفظوں کے غنچوں سے وہ گلدستہ ترتیب دینے میں مہارت رکھتا تھا جس کی خوشبو میں پچاس برسوں میں کوئی کمی نہیں آئی، وہ سیاستداں جس نے برصغیر کے موجودہ حالات کی پیشن گوئیاں نصف صدی قبل ہی کی تھی جو حرف بحرف سچ ثابت ہوئیں، وہ عالم جس نے سورہ فاتحہ کی تفسیر میں’’امّ الکتاب‘‘ نامی ضخیم کتاب تحریر کردی تھی. الغرض ابوالکلام علم و دانش کے ایک بہترین آل راؤنڈر تھے جو ضرورت پڑنے پر کوچنگ بھی کرسکتا ہو. مولانا کی عمدہ شاعری اس بات کی دلیل ہے
اندازِ جنوں کون سا ہم میں نہیں مجنوں
پر تیری طرح عشق کو رسوا نہیں کرتے
یہاں آزاد کی جانب سے مولانا مودودی کو ارسال کیا گیا وہ تہنیتی پیغام شدّت سے یاد ہے.
’’جس کام کو لے کر تم اٹھے ہو، کبھی ہمارا ارادہ تھا اس کام کو کرنے کا لیکن ہم دوسروے بکھیڑوں میں الجھ کر اسی کے ہو کر رہ گئے. اللّہ تمہیں استقامت دے-‘‘
آنکھوں سے آنسو امڈ آئے اور سر لوح مزار سے جا ٹکا. کانگریس کی مصروفیات نہ ہوتیں تو ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے کہ ابوالکلام کس شخصیت کا نام ہوتا. یہ لحد کتنے رازوں کی امین اور ہمراز ہے وہ مجھ جیسے طلبہ کے عقل و فہم سے ماورا ہے. اگر میں طائر ہوتا اور اس مرقد کے گرد کے درختوں کی شاخوں پر کوئی نشیمن بنا سکتا تو ضرور بناتا اور اطراف کے اس بے ہنگم ہجوم کی سماعتوں کو آزاد کی فغان نیم شبی سے معمور کردیتا جو نصف صدی سے کسی قافلہ سالار کا انتظار کررہا ہے.
(جاری ہے)
سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی پانچویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی چھٹی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی ساتویں قسط یہاں ملاحظہ کریں
[…] سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
تیرے الفاظ ہیں یہ یا کہ مئے ناب کوئ
پڑھنے والے کو مزہ جام و سبو کا آئے
"مبارک بدری"
بہت عمدہ ریحان بہت۔
[…] سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]
[…] سفرنامے کی چوتھی قسط یہاں ملاحظہ کریں […]