صحافت کے طالب علموں کی صلاحیت کے حوالے سے ہمارا تاثر کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ خاص طور سے ان کی مطالعہ سے عدم دلچسپی ناگوار لگتی ہے۔ کتاب تو دور کی بات ہے، ان میں سے بیشتر اخبار تک نہیں پڑھتے۔ جو نیک بخت کسی اخبار میں ملازم ہیں، وہ اپنا اخبار بھی پڑھنے کی زحمت نہیں فرماتے۔ کوئی پوچھ تو لے تو مزے سے فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اخبار پڑھنے کا وقت نہیں۔ دنیا کی شاہکار کتابیں، شاہکار فلمیں، مشاہیر علم وادب وفنون لطیفہ، ان سب سے نابلد رہتے ہیں اور افسوس کہ اس کمی یا خامی کو دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی جاتی۔ اصل المیہ یہ ہے کہ ہمارا سسٹم اور میڈیا کی موجودہ حالت ان خامیوں کے باوجود انہیں نہ صرف قبول کر لیتی ہے، بلکہ چند سال گزرنے کے بعد یہ پڑے پڑے سینئر ہوجاتے ہیں اور پھر اپنی جہالت اور کم علمی کے اثاثوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سے اگلی نسل کا بیڑا غرق کرنے میں جت جاتے ہیں۔ ویسے تو یہ صورتحال آج کی نہیں، پچھلے دو عشروں میں ایسی بہت سی مثالیں میرے سامنے ہیں، ایک دو بار ان کے حوالے بھی دے چکا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ سترہ اٹھارہ برس پہلے ایک بڑے اخبار کے نیوز روم میں کام کرتا تھا۔ انہی دنوں میرا آرٹیکل ایک معروف جریدے میں شائع ہوا۔ ایک ساتھی سب ایڈیٹر کو فخریہ دکھایا تو اس نے تیزی سے رسالہ چھینا اور اسے ڈیسک کی دراز میں رکھ دیا، پھر سرگوشی میں کہا، ایسی چیزیں دکھاتے نہیں، چھپایا کرتے ہیں۔ حیرت سے میں ان کا چہرہ دیکھتا رہا کہ یہ عجب تماشا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ نیوز روم کے ایک اعلیٰ افسر اس قسم کی”غیر نصابی سرگرمیوں“کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ موصوف کبھی کبھار نیوز روم آ کر بیٹھ جاتے اور اپنی گرجدار آواز میں مختلف معاملات پر تبصرے فرماتے۔ ایک بات وہ زور دے کر کہا کرتے کہ سب ایڈیٹر کو ”علم دشمن“ ہونا چاہیے۔ کتابیں وغیرہ پڑھنے میں وقت ضائع کرنے کی قطعی ضرورت نہیں، ایسے لوگوں کا نیوز روم میں کوئی کام نہیں۔ یہ بات سن کر میرے جیسے اکا دکا کتاب میں دلچسپی رکھنے والے سہم کر دبک جاتے ہیں کہ کہیں کوئی کم بخت ہماری طرف انگلی نہ اٹھا دے....ع
اکبر نام لیتا ہے ” کتاب“ کا اس زمانے میں۔
بات صحافت کے طالب علموں سے شروع ہو ئی تھی، گزشتہ روز ایک سینئر صحافی نے اپنے کالم میں مختلف یونیورسٹیوں کے ماس کمیونیشن طلبہ کے حوالے سے افسوسناک انکشافات کیے ہیں۔ان کے بقول ایک بہت بڑی اکثریت کتاب پڑھتی ہے نہ اخبار اور نہ ہی کسی کو کوئی نیوز ٹاک شو دیکھنے کی توفیق ہوئی۔ معلومات اس قدر کمزور کہ کسی نے قذافی کا نام لیا تو اسے یہ نہیں معلوم کہ اس کا تعلق کس ملک سے تھا۔ صدام اور حسنی مبارک سے وہ ناواقف تھے۔ یہ نوجوان صدر پاکستان، چاروں صوبوں کے گورنر، تین صوبوں کے وزیراعلیٰ، سپیکرز، چئیرمین سینیٹ وغیرہ کے ناموں سے بے خبر تھے۔ (ہمیں پنجاب حکومت کا شکرگزار ہونا چاہیے، جس نے پتے پتے، بوٹے بوٹے پر خادم اعلیٰ پنجاب کی تصویر اور نام لکھ لکھ کر کم از کم یہ نام تو نوجوانوں کو ازبر کرا دیا، ورنہ صحافی موصوف کو مزید دھچکا لگتا)۔ ان یونیورسٹیوں کے بیشتر نوجوان ابھی تک کلنٹن کو امریکہ کا صدر اور بلیئر کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتے ہیں، انہیں نائن الیون کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، یہ نہیں جانتے کہ مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان کیوں کہتے تھے ؟
یونیورسٹی طلبہ کی اس حالت کو دیکھ کرسنیئر کالم نگار نے یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات اور ماس کمیونکیشن ڈیپارٹمنٹس کے سربراہان کو مشورے بھی دیے، ان میں کچھ پر تو ضرور عمل ہونا چاہیے۔ انہوں نے لکھا:”شعبہ صحافت کے سلیبس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں، ایک حصہ تکنیکی تعلیم پر جبکہ دوسرا انٹلکچوئل تعلیم پر مشتمل ہو۔ سو کتابوں، پچاس فلموں اور پچیس مقامات کی فہرست بنائیں، یہ تینوں فہرستیں صحافت کے طلبہ کے لیے لازمی قرار دی جائیں۔ کتابوں میں پچاس کلاسیکل، پچیس پچھلے دو برسوں کی بیسٹ سیلر اور پچیس تازہ ترین کتب ہوں۔ یہ کتابیں اساتذہ اور طالب علموں دونوں کے لیے لازمی ہوں۔ فلموں میں پچیس آل ٹائم فیورٹ، پندرہ پچھلے دس برسوں کی اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اور دس تازہ ترین یعنی اسی سال کی ہوں۔ پچیس مقامات میں قومی اسمبلی، سینیٹ، چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں، گورنرہائوسز، وزیراعلیٰ ہائوسز، دنیا کے پانچ بڑے ممالک کے سفارت خانے، آثار قدیمہ کے پانچ بڑے پاکستانی مراکز، جی ایچ کیو، آئی جی آفسز اور میڈیا ہائوسز شامل ہوں۔ نائن الیون سے لے کر ترکی کی تازہ ناکام بغاوت تک دنیا کے دس بڑے ایشوز نصاب میں شامل کیے جائیں۔ یہ ایشوزطلبہ کو ازبر ہونے چاہییں۔ ملک کے بیس بڑے ایشوز جیسے بجلی کا بحران، گیس، پانی کا مسئلہ، دہشت گردی، سیلاب، صنعتیں، بے روز گاری، صحت، تعلیم، ٹریفک ، منشیات، انسانی سمگلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، پراپرٹی مافیا، ٹیکس اصلاحات، آبادی کا پھیلاﺅ،ماحولیاتی آلودگی، خوراک کی کمی اور بے راہ روی وغیرہ کو مختلف طلبہ میں تقسیم کر دیا جائے۔ وہ ان میں مہارت حاصل کریں اور دوسروں طلبہ کو بھی پریزینٹیشن کے ذریعے آگاہ رکھیں، وغیرہ وغیرہ۔ “
یہ سب عمدہ تجاویز ہیں، میری خواہش ہے کہ کسی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو تو ان تجاویز کو الگ سے موٹے الفاظ میں کمپوز کرا کر اپنی سامنے دیوار پر لگانا چاہیے اور اپنے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں ان اصلاحات کونافذ کرنا چاہیے۔ جب وہ ایسا کر لے تو پھر اسی پیٹرن کو مختلف ڈیپارٹمنٹس میں ان کی ضرورتوں کے مطابق نافذ کرے۔ اگر ایسا ہوگیا تو صرف دو تین برسوں کے اندر ہماری یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات کی کارکردگی میں غیرمعمولی بہتری آجائے گی۔
جن طلبہ کو یہ چیزیں مشکل لگ رہی ہیں یا ان کے پڑھے لکھے والدین کو یہ خدشہ ہو کہ ان کی اولاد اس پر عمل نہیں کر پائے گی، انہیں پہلے مرحلے پر اخبارپڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔گھروں میں اخبار لگوا لیں۔ میں اپنے اکثر عزیزوں اور دوستوں کو کہتا ہوں کہ اردو اخبار کا ماہانہ بل چار سو روپے بھی نہیں ہوتا۔ جولائی کا روزنامہ دنیا کا بل تین سو ساٹھ روپے تھا۔ اتنی معمولی رقم کے عوض پورا مہینہ اخبار پڑھنے کی عیاشی اور اس سے قارئین کو جس قدر معلومات حاصل ہوں گی، اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ ہماری پڑھی لکھی مڈل کلاس جس کی یہ خواہش تو رہتی ہے کہ ان کی اولاد میں مطالعہ کی عادت پیدا ہو، وہ کتابیں پڑھے، مگر اس کے لیے وہ پہلا قدم یعنی اخبار لگوانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اتنی معمولی رقم جس سے آج کے دور میں ایک معقول قسم کا برگر بھی نہیں آ سکتا، اخبار پر وہ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اب انٹرنیٹ پر اخبار پڑھ لیتے ہیں، وہ بھی بالکل مفت۔ خود میرے بڑے بھائی صاحب نے اپنا اخبار بند کرا کر اسے موبائل نیٹ پر پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ جب کبھی ویک اینڈ پر وہ تشریف لاتے ہیں، پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک طمانیت انگیز مسکراہٹ کے ساتھ لاہور کے کسی شاندار ریستوران کا تذکرہ کرتے اور وہاں ڈیڑھ دو ہزار کے عوض دیے جانے والے شاندار بوفے ڈنرکے قصیدے پڑھتے ہیں۔ اپنے ہر وزٹ میں وہ ہمیں فاتحانہ مسکراہٹ سے یہ بتانا نہیں بھولتے کہ میں نے اخبار بند کر کے ماہانہ ساڑھے تین سو روپے کی بچت کر لی ہے۔ ہم میاں بیوی ان کی اس ”بچت“کو سن کر ہمیشہ مسکراتی نظروں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ بھائی صاحب مگر مطمئن اور آسودہ ہیں کہ نیٹ پر مفت اخبار اور کالم پڑھنے کا فائدہ ہو رہا ہے، یہ اور بات کہ ہر ماہ وہ کئی ہزار اپنے کھابوں پر اڑا دیتے ہیں۔
میں اپنے دوستوں سے اکثر یہ کہتا ہوں کہ آپ بے شک موبائل پر اخبار پڑھیں بلکہ کتابیں بھی دیکھیں کہ مستقبل کا میڈیم یہی موبائل ہی نظر آ رہا ہے، لیکن اخبار کی افادیت تسلیم شدہ ہے۔ جس تیزی سے اور کم وقت میں اخبار پڑھا جا سکتا ہے، موبائل پر اس سے کہیں زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ پھر اخبار گھر میں لگوانے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ بچوں کو اخبار پڑھنے کی عادت ڈالی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اخبار لگوانا پہلا قدم ہے، بچوں کو اس جانب راغب کرنا دوسرا اور باقاعدہ قسم کا مرحلہ ہے۔ اس کے لیے بچوں کو ان کی پسند کی خبریں، بچوں کے ایڈیشن، کہانیوں وغیرہ کی طرف مائل کرنا ہوگا۔ ان میں چھوٹے چھوٹے مقابلے کرانے ہوں گے، بلند آواز سے ریڈنگ کی مشق کرانی پڑے گی، اچھے نتائج پر انعامات دینے پڑیں گے، پھر کہیں جا کر بچوں کی دلچسپی پیدا ہوگی۔ ایک مرتبہ یہ مشکل کام اگر ہوگیا تو پھر آپ کے لیے آسانی پیدا ہوجائے گی۔ اخبار سے کتاب پر چھلانگ لگانا بہت آسان ہے ۔ کچھ نہ پڑھنے والے سے البتہ یہ توقع کی جائے کہ وہ اچانک ہی ناول پڑھنا شروع کر دے گا، یہ خام خیالی ہے۔ اپنے گھر میں اور نئی نسل میں مطالعہ کی عادت ڈالنے کے لیے ہمیں کچھ نہ کچھ محنت کرنا پڑے گی۔ یاد رکھا جائے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم جو نسل تیار کریں گے، وہ مطالعے سے نابلد، معلومات سے خالی، صرف ناک کی سیدھ میں دیکھنے اور رٹا لگا کر نمبر لینے والی مشینیں ہوں گی۔ زندگی کے امتحان میںان سے اعلیٰ کارکردگی دکھانے اور کچھ نیا، غیر معمولی تخلیق کرنے کی خواہش رکھنا پھر زیادتی ہوگی۔
بھائی جان مطالعے کی عادت اپنانے کے حوالے سے آپ کی دلسوزی بالکل عیاں ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہماری اگلی نسلوں میں مطالعے کے رجحان میں کمی آنے کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ آپ نے کالم میں بہت اچھی تجاویز شامل کی ہیں۔ میں درخواست یہی کروں گا کہ آپ وقتاً فوقتاً اپنے کالموں میں قارئین کی اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دلانے کا سلسلہ جاری رکھیں، اس کا کچھ نہ کچھ بلکہ اچھا خاصا اثر ہو گا اور امید ہے کہ ہم مطالعے کی شاندار روایت کی طرف لوٹنے کے قابل ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ چھپی ہوئی کتاب یا اخبار کے بجائے انٹرنیٹ سے مطالعہ کرنے کے کئی نقصانات ہیں، جن میں تیز روشنی کا نظر پر اثرانداز ہونا اور تادیر ایک ہی نشست پر ٹک کر بیٹھے رہنا وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے بیشتر لوگ اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے۔ اس طرف اپنے حلقہ احباب کی توجہ دلانا آپ کا کام ہے۔