چند دن پہلے لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ پر ایک عجیب واقعہ پیش آیا. لندن کا ہیتھرو ائیرپورٹ دنیا کا تیسرا بڑا ائیرپورٹ ہے اور اس پر روزانہ ہزاروں افراد کی آمد و رفت ہوتی ہے،170مقامات کے لیے 90سے زائد ائیر ائنز کی پروازیں یہاں سے اڑان بھرتی ہیں۔ چند دن پہلے ایک پاکستانی فیملی لندن سے واپس آ رہی تھی، سامان چیکنگ کے دوران آفیشلز کو شک ہوا کہ فیملی کے ساتھ موجود لڑکی کے بیگ میں کوئی مشکوک چیز ہے، بیگ کی تلاشی کا فیصلہ ہوا، انتظامیہ نے ایک طرف جاکر بیگ کی تلاشی لی، بیگ سے کھانے کا چمچ برآمد ہوا، تفتیش کرنے پر معلوم ہوا لڑکی نے چمچ خود بیگ میں رکھا تھا اور اس سارے منصوبے کی ماسٹر مائنڈ وہ خود تھی، لڑکی نے بتایا کہ اس کے والدین نے اس کا رشتہ اس کے ان پڑھ اور نشئی کزن سے کر دیا تھا اور لڑکی اس رشتے کے لیے تیار نہیں تھی، لڑکی کا کہنا تھا وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے لہٰذا وہ اپنے نشئی کزن کے ساتھ زندگی کا سودا نہیں کرسکتی، والدین اس کی زبردستی شادی کے لیے اسے پاکستان لانا چاہتے تھے مگر لڑکی اس رشتے پر راضی نہ تھی چنانچہ اس نے جان بوجھ کر اپنے بیگ میں چمچ چھپا دیا تاکہ ایئرپورٹ پر اسے روک لیا جائے اور وہ اس شادی سے بچ جائے۔
اس واقعے کی اصل حقیقت کیا ہے اور اس کے پس منظر میں کیا مقاصد کارفرما ہیں، اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ ہم، ہمارا معاشرہ اور ہمارے والدین بیٹیوں کی شادی کے حوالے سے ہٹلر واقع ہوئے ہیں، شادی سے پہلے بالعموم بیٹی کی رائے اور اس کی پسند کے بارے میں پوچھنا گوارا نہیں کیا جاتا اور سمجھا جاتا ہے کہ جو ہم نے دیکھا اور سوچا وہی حرف آخر ہے۔ بیٹی نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا خواب بنے ہیں اور اپنے جیون ساتھی کے بارے میں اس کے کیا سپنے ہیں، اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہوتا، سب اپنی انا کے بتوں کے سامنے سجدے میں پڑے رہتے ہیں. شادی سے پہلے والدین اور بھائیوں کی’’ غیرت و حمیت ‘‘ کے مینار اس قدر بلند ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی بیٹی اور بہن کی پسند اور خواہش کے چھوٹے چھوٹے گھروندے نظر نہیں آتے اور شادی کے بعد انھیں کبھی بیٹی، بہن کے گھر جاکر یہ دیکھنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ کس حال میں ہے اور اس کی زندگی کیسے کٹ رہی ہے۔ بیٹیوں کو انا، ذات اور برادری کے بلند قلعوں میں قید کر دیا گیا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی بہن اور بیٹی اس قلعے سے باہر نہ جائے۔ کیا آج تک کسی لڑکے کی مرضی اور اس سے پوچھے بغیر اس کی شادی ہوئی؟ پھر ہم بیٹیوں کے ساتھ یہ ظلم کیوں روا رکھتے ہیں اور ان کی شادی سے پہلے ان کی مرضی کیوں دریافت نہیں کرتے۔کیا آج کے حیا باختہ ماحول میں شرم و حیا کا پیکر بن کر خاموش رہنے والی بہنوں اور بیٹیوں کا یہ صلہ ہے کہ ان سے ایک مرتبہ بھی اس کی پسند کے متعلق نہ پوچھا جائے۔
شادی ایک دو روز کا کھیل نہیں بلکہ زندگی بھر کا معاملہ ہے، اس کے لیے جانبین کی طرف سے ذہنی ہم آہنگی اور سوچ کا ملنا ضروری ہوتا ہے۔ آج معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ لڑکیاں تعلیم میں بہت آگے ہیں اور لڑکوں میں تعلیم کے حصول کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، کسی بھی نامور یونیورسٹی کا وزٹ کریں، لڑکیوں کی تعداد ساٹھ یا ستر فیصد اور لڑکوں کی تعداد تیس یا چالیس فیصد تک نظر آئے گی، صرف پنجاب یونیورسٹی میں لڑکیوں کی تعداد 72 فیصد اور لڑکوں کی تعداد 28 فیصد ہے، یہی صورتحال کالجز میں ہے. یونیورسٹی اور بورڈز میں پوزیشن ہولڈرز میں سے بھی اکثریت لڑکیوں کی ہو تی ہے، اب یہ فطری بات ہے کہ ایک پڑھی لکھی، مہذب اور پوزیشن ہولڈر لڑکی ایک ان پڑھ، نشئی، میٹرک پاس یا بےروزگار لڑکے کے ساتھ زندگی کا سودا نہیں سکتی ہے مگر سوسائٹی اور والدین اس حقیقت کو تسلیم کر نے کے لیے تیار نہیں اور وہ اپنی انا، برادری اور ذات کے بلند قلعوں سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شادی سے پہلے بیٹی کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور اس کی پسند اور خواہش کو جانے بغیر اس کی شادی کر دی جاتی ہے۔
سروے کروائیں تو معلوم ہوگا کہ 90 فیصد لڑکیاں اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کی شادی ان کی مرضی کے بغیر کر دی جائے گی اور ان کا مستقبل تباہ ہو کر رہ جائے گا. مگر وہ خاموش رہتی ہیں، ان کی شرم و حیا انہیں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر نے دیتی۔ شادی شدہ جوڑوں کا انٹرویو کریں تو جواب ملے گا کہ ’’میں نے صرف ابو کی خواہش پر شادی کی ورنہ میرا دل اس شادی کے لیے تیار نہیں تھا، میں بھائی کو جواب نہیں دے سکتی تھی، میرے والدین نے بچپن میں ہاں کر دی تھی.‘‘ آخر کب تک ہم غیرت کے نام پر اپنی بہنوں بیٹیوں کی تمناؤں کا خون کرتے رہیں گے؟ کب تک انہیں اپنی انا، ذات اور برادری کے بلند قلعوں میں قید رکھیں گے۔ آپ ﷺکی پھوپھی زاد حضرت زینب کا قصہ ہم سب نے سنا ہے، آپ نے جب حضرت زینب کو حضرت زید سے نکاح کا کہا، انہوں نے پوچھا کہ یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ، آپ نے کہا کہ یہ میرا مشورہ ہے تو حضرت زینب نے انکار کر دیا، ایک دوسری صحابیہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں آپ نے انہیں بھی یہی کہا کہ اگر تمہارا دل مانتا ہے تووہاں شادی کر لو ورنہ نہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں عمومی مزاج یہ بن چکا ہے کہ گھر کے مردافراد چاہتے ہیں کہ سارے گھر اور خاندان میں ان کا رعب اور دبدبہ قائم رہے اور اپنی پسند و نا پسند کا اظہار تو دور کی بات کوئی ان کے سامنے اف تک نہ کہے. اس سے ظاہری رعب و دبدبہ تو قائم رہتا ہے لیکن دل سے عزت و احترام ختم ہو جاتا ہے۔گھر کے افراد اور خصوصا والدین کا بیٹی کے ساتھ رشتہ شفقت کا ہونا چاہیے تاکہ بیٹی ہر بات اپنے والدین سے شیئر کر سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک ہم اپنی اس روش کو نہیں بدلیں گے، اپنی انا، برادری اور ذات کے بت نہیں گرائیں گے، اس وقت تک شرم و حیا کا پیکر یہ بیٹیاں ظلم کی چکی میں پستی رہیں گی، اور بنت حوا کے خاموش آنسو ہماری اناپرستی اور ہماری بےحسی کا ماتم کرتے رہیں گے۔
تبصرہ لکھیے