اگر آپ اپنی روٹین کی’’برِسک واک‘‘ (تیز چہل قدمی بطور ورزش) میں مشغول ہوں اور کوئی اچانک آپ سے پوچھ لے کہ 68 ضرب 26 کتنے ہوتے ہیں، تو سو میں سے 99 فیصد امکان ہے کہ آپ کچھ دیر کو رک جائیں گے اور کھڑے ہو کر اسے اپنے ذہن میں کیلکولیٹ کریں گے اور پھر جواب بتا کر دوبارہ واک کا سلسلہ شروع کریں گے.
یہ رکنا کیوں ضروری تھا؟ کیا آپ ارادتاً رکے یا کسی خودکار نظام نے آپ کو توقف پر مجبور کیا؟ اگر آپ سے 2 جمع 2 کا سوال کیا جاتا، تو کیا پھر بھی آپ رکتے؟
نوبل انعام یافتہ Daniel Kahneman اپنی شہرہ آفاق کتاب، ’’Thinking, Fast and Slow‘‘ میں انسانی دماغ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں. ان کے مطابق ایک حصہ وہ ہے جو فوری فیصلے کرتا ہے، جو جبلت اور جذبات سے متعلق ہے اور جو یادداشت میں اچھی طرح جمے ہوئے واقعات کی بنیاد پر ردعمل دیتا ہے. البتہ فوری نوعیت کے بہت سے فیصلے ’’غیر مناسب‘‘ بھی ہوتے ہیں. مثلاً استاد شاگرد کو ڈانٹے تو دماغ کا یہ حصہ، جسے انہوں نے ’’سسٹم 1‘‘ کا نام دیا ہے، ہو سکتا ہے کہ طالب علم کو جوابی ’’بدتمیزی‘‘ پر اکسائے. پر یہاں آ کر دماغ کا دوسرا حصہ ’’سسٹم 2‘‘ حرکت میں آتا ہے اور طالب علم کو ’’تہذیب‘‘ کے دائرے میں رہنے پر مجبور کرتا ہے. سسٹم 2 سست رفتار ہے کیونکہ یہ سوچ، سمجھ، تجربے اور ذہانت سے تعلق رکھتا ہے. یہ فوری فیصلے نہیں کرتا بلکہ علم، یادداشت اور تجربے کی روشنی میں صورتحال کو پرکھ کر رسپانس دیتا ہے، جس میں ظاہر ہے کچھ وقت درکار ہوتا ہے. مزید برآں اس کا ایک کام سسٹم1 پر کنٹرول بھی ہے. اور یہ اکثر اس کو غیر مناسب فوری فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے سے روکتا ہے.
مثلاً آپ ڈائیٹنگ پر ہیں پر چاکلیٹ کیک دیکھتے ہی آپ کا ’’دل مچلنا‘‘ دراصل آپکا سسٹم1 ہے جو آپ کو اس فوری لذت کے حصول پر مجبور کر رہا ہے. مگر ’’ظالم سماج‘‘ کی طرح سسٹم 2 حرکت میں آتا ہے اور آپ کے اور کیک کی درمیان حائل ہو جاتا ہے. اسی لیے 2 جمع 2 کا جواب سسٹم 1 فوری طور پر دے دے گا کیونکہ یہ جواب یادداشت میں اتنا گہرا ثبت ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کے لیے سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی، جبکہ 68 کو 26 سے ضرب دینے کے لیے آپ کو دماغ کی غیر معمولی صلاحیت بروئے کار لانی پڑے گی اور اس میں ٹھیک ٹھاک توانائی خرچ ہو گی.
جسم کی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کا سب سے فوری ذریعہ گلوکوز ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ بات آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ انسانی جسم میں سب سے زیادہ گلوکوز استعمال کرنے والا عضو دماغ ہے. لہٰذا جب دماغ کسی دباؤ میں ہو یا کسی ایسے کام میں مشغول ہو جس میں اس کی کافی سے زیادہ محنت درکار ہو تو جسم خودکار طریقے سے گلوکوز کا بہاؤ اس کی جانب زیادہ کر دیتا ہے اور باقی اعضاء کو اپنے اپنے کاموں سے یا تو مکمل طور پر روک دیتا ہے یا انہیں ممکنہ حد تک کم کروا دیتا ہے. یہی وجہ ہے کہ جاگنگ یا واک کرتے وقت ریاضی کا کوئی پیچیدہ سوال حل کرنا پڑ جائے تو آپ خود بخود رک جائیں گے.
اسی طرح سسٹم 1 کو کنٹرول کرنے میں بھی سسٹم 2 کو کافی محنت کرنا پڑتی ہے، جان لگانی پڑتی ہے اور توانائی صرف ہوتی ہے. کبھی کبھی تو سسٹم 1 کا جذباتی ردعمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ سسٹم 2 کو حرکت میں آنے اور اس ردعمل کو دبانے کےلیے پورا زور اور تمام تر صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں. اور اس کی کامیابی کا امکان بھی اسی صورت میں بڑھایا جا سکتا ہے جب گلوکوز کا رخ دماغ کی طرف موڑ دیا جائے اور توانائی کی اس ’’کرنسی‘‘ کو استعمال کرنے والے باقی اعضاء کو ’’ریسٹنگ پوزیشن‘‘ میں لے آیا جائے.
اب آپ کو پتہ چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے 1400ء سال قبل کے اس ارشاد مبارک کی کیا حکمت ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ جب غصہ آئے تو اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ اور اگر بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ.. سبحان اللہ.
اللھم صل و سلم علی نبینا محمد ، صلی اللہ علیہ و سلم
تبصرہ لکھیے