مظفر آباد سے ہماری بائکس کا رخ وادی نیلم کے علاقہ دواریاں کی طرف تھا. جہاں سے ہمیں اپنی اصل منزل رتی جھیل کی گاڑی ملنی تھی. وادی نیلم آزاد ریاست جموں و کشمیر کی ایک بہت خوبصورت وادی ہے. یہ مظفر آباد کے شمال اور شمال مشرق میں دریائے نیلم کے دونوں اطراف واقع ہے. یہ ضلع نیلم پر مشتمل ہے. مظفر آباد سے 84 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اٹھمقام اس کا صدر مقام ہے. اس کی دو تحصیلیں اٹھمقام اور شاردہ ہیں. یہ وادی 144 کلومیٹر طویل ہے. لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے مظفر آباد سے کیل تک روڈ خستہ حال ہے. لینڈ سلائڈنگ عموماً ایسے علاقوں میں ہوتی ہے جہاں پہاڑوں میں ریتلی مٹی ہو یا گندھک کی مقدار زیادہ ہو.
ہمارا سفر دریائے نیلم کے ساتھ جاری تھا. کچھ دیر بعد ہم چین کے تعاون سے جاری نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے پاس سے گزر رہے تھے. 969 میگاواٹ کے اس عظیم پراجیکٹ پر 4.3 ارب ڈالر لاگت آئے گی. 17سال تک یہ منصوبہ ہماری روایتی سستی کا شکار رہا. امید ہے کہ 2008ء میں شروع ہو نے والا یہ منصوبہ دسمبر 2017ء تک اپنی پیداوار شروع کر دے گا. کشمیر کی اہمیت پاکستان کے لیے اس لیے بھی بہت بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان کے تینوں بڑے دریا (سندھ، جہلم، چناب) کشمیر سےگزر کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں. انگریزوں نے 1846ء میں گلاب سنگھ کے ساتھ معاہدہ امرتسر کرکے صرف 75 لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض کشمیر اور اہلیان کشمیر کو فروخت کرکے ظلم کی جس عمارت کی بنیاد ڈالی، برطانوی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن نے کشمیر کا بھارت سے الحاق کرکے اس عمارت کی تکمیل کردی.
اس بندر بانٹ سے نہ صرف بھارت کے ہاتھ کشمیر آیا بلکہ کشمیر سے نکلنے والے دریا بھی اس کی ملکیت بن گئے اور. یہی دریا پاکستانی زراعت کے لیے آب حیات کی حیثیت رکھتے تھے. مونٹ بیٹن نے پاکستان کا گلا گھونٹے کے لیے فیروز پور کی تحصیل بھارت کے حوالے کر کے ایک اور احسان بھی کیا جس سے پنجاب کو سیراب کرنے والی نہروں کے ہیڈ ورکس بھی بھارت کے پاس چلے گئے. جب بھارت نے پاکستان کے پانی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کی تو پاکستان نے یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا اور 1960ء میں عالمی بینک کے توسط سے ایک معاہدہ طے پایا جس کی رو سے تین مشرقی دریا ( بیاس، راوی، ستلج) بھارت کو ملے جبکہ تین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) پاکستان کے حصے میں آئے. اس معاہدے کے تحت بھارت ان دریاؤں یا ان کے معاون دریاؤں، ندی، نالوں کو روک کر ان پر ڈیم نہیں بنا سکتا، البتہ ان کے بہاؤ کو اس طرح استعمال کر سکتا ہے کہ ان میں کمی نہ آئے.
پرویزمشرف کے تعاون سے 2003ء میں کشمیر میں مسلح جدوجہد کا خاتمہ کرکے بھارت نے بڑی تیزی سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں پر ڈیموں اور بیراجوں کا جال بچھانا شروع کیا. اس سے نہ صرف ہماری زرخیز زمینوں لیے پانی کی کمی ہوگی بلکہ برسات کے موسم میں ہمارے دریاؤں میں فالتو پا نی ڈالنے سے ان میں سیلابی صورتحال بھی پیدا ہوجائے گی علاوہ ازیں اس سے اربوں ڈالر کا نیلم جہلم منصوبہ بھی شدید متاثر ہوگا.
کشمیر میں چند بڑے بھارتی آبی منصوبے درج ذیل ہیں. ( اس پر بعد میں تفصیل سے لکھنے کا ارادہ ہے)
بگلیہارڈیم: یہ ڈیم 2008ء میں مکمل ہوا، یہ دو مرحلوں میں 900میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے.
وولر بیراج :دریائے جہلم کے منبع کےقریب جھیل وولر پر وولر بیراج زیرتعمیر ہے.
کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ : اس منصوبے کے تحت دریائے نیلم کا رخ موڑ کر اس کا پانی جھیل وولر میں ڈالا گیا ہے.
(جاری ہے)
سفرنامے کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
سفرنامے کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
[…] دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں […]