ہوم << پاکستان کا سیلابی بحران اور ہماری اجتماعی غفلت- ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

پاکستان کا سیلابی بحران اور ہماری اجتماعی غفلت- ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

بارش قدرت کی رحمت ہے، مگر جب یہ بارش انسان کی غفلت، منصوبہ بندی کی ناکامی، ماحولیاتی توازن کی بربادی اور ریاستی اداروں کی نااہلی کے ساتھ ٹکرا جائے، تو یہی بارش زحمت بن کر ہزاروں جانیں نگل جاتی ہے۔

آج پاکستان کے شمالی اور پہاڑی خطے بونیر، شانگلہ، باجوڑ، سوات، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور مانسہرہ، ایسی ہی قیامتِ صغریٰ کے دہانے پر کھڑے ہیں جہاں طوفانی بارشیں، تباہ کن سیلاب اور تودے گرنے کے ہولناک مناظر انسانی تاریخ کی دردناک داستان رقم کر رہے ہیں۔ آسمان سے پانی برس رہا ہے، زمین دھنس رہی ہے، دریا بپھر چکے ہیں، پہاڑ شکستہ ہو رہے ہیں، بستیاں مٹ رہی ہیں، اور ہم صرف گن رہے ہیں، لاشیں، نقصانات، دعوے، وعدے۔ گلگت میں حالیہ طوفانی بارش نے نہ صرف دریائے ہنزہ کا رخ تبدیل کر دیا بلکہ پورے بلتستان ڈویژن میں تباہی کی ایسی داستان رقم کی ہے جو برسوں ذہنوں سے نہ مٹے گی۔

نلتر، جو کبھی سیاحوں کی جنت تھا، آج سیلاب میں بہہ جانے والی سڑکوں، بجلی سے محروم گھروں اور پھنسے ہوئے خاندانوں کی ایک ماتمی تصویر پیش کرتا ہے۔ نلتر ایکسپریس وے کا بڑا حصہ بہہ چکا ہے، تین پاور ہاؤسز بند ہو چکے ہیں، اور بجلی کی فراہمی مکمل طور پر منقطع ہے۔ دوسری جانب اسکردو میں سدپارہ پاور ہاؤس سے بجلی کی سپلائی بند ہو چکی ہے۔ سیاح، مقامی آبادی اور ریسکیو اہلکار سب بے یار و مددگار ہیں۔

پیر بابا کا علاقہ بیشونڑی، جو کبھی روحانی و ثقافتی مرکز سمجھا جاتا تھا، اب صرف ایک ماضی کا سایہ ہے۔ مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ کوئی مکان باقی نہیں رہا، کوئی گلی سلامت نہیں بچی، اور سینکڑوں انسان لاپتہ ہیں۔ بونیر میں گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے اندر 204 جانیں ضائع ہو چکی ہیں، جبکہ مختلف ادارے اموات کی تعداد 213 تک بتا رہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر کی فضا سوگوار ہے۔ جنازے جنازوں سے جڑ گئے ہیں۔ ایک ہی صف میں کئی لاشیں، ایک ہی گاؤں میں کئی قبریں، اور اتنے جنازے کہ تابوت کم پڑ گئے ہیں۔

ریسکیو ادارے، مقامی انتظامیہ، اور پاک فوج اپنی بساط کے مطابق امدادی کارروائیاں کر رہے ہیں، مگر جب سڑکیں مٹ جائیں، پل بہہ جائیں، جب پہاڑ راستہ روک لیں اور پانی دیواریں توڑ دے، تو انسانی کوششیں بے بس ہو جاتی ہیں۔ ملبے سے لاشیں نکالنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں تلاش کر رہے ہیں۔ تورغر، مانسہرہ، باجوڑ، سوات، بٹگرام اور لوئر دیر جیسے دیگر علاقے بھی اسی قسم کی آفت کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں ہزاروں مکانات تباہ ہو چکے ہیں، مویشی بہہ گئے ہیں، کھیت کھلیان برباد ہو چکے ہیں، دکانیں اور گاڑیاں سیلابی ریلے کی نذر ہو گئی ہیں۔

ایک محتاط تخمینے کے مطابق خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ہلاکتوں کی تعداد 351 سے تجاوز کر چکی ہے۔ صرف گلگت بلتستان میں جون سے اب تک 35 افراد جاں بحق، 35 زخمی، 318 گھر مکمل تباہ اور 674 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ بلتستان، دیامر، ہنزہ، اور گانچھے کے تمام اضلاع بری طرح متاثر ہیں۔ شانگلہ میں سیلابی آفت سے ہلاکتوں کی تعداد 37 ہو چکی ہے، کوز پاؤ، چوگا، پورن جیسے دیہات قیامتِ صغریٰ کے نمونے بن چکے ہیں۔

ملک میں مون سون سیزن کے ایک نئے طاقتور اسپیل کا دھواں دھار آغاز ہوگیا ہے، پشاور ، مردان ، صوابی، ایبٹ آباد سمیت خیبرپختونخوا کے کئی شہروں میں بارش ، سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے تباہی ، خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں بادل پھٹنے سے تباہی مچ گئی، 25 افراد ریلے میں بہہ گئے. درجنوں مکانات تباہ، لوگ ملبے تلے دب گئے، 35 افراد زخمی جبکہ 40 افراد تاحال لاپتا، متعدد افراد گھروں کی چھتوں پر محصور ہوگئے. لاشیں اور زخمیوں کو نکالنے کا سلسلہ جاری، پشاور، سوات، مینگورہ سمیت کئی علاقوں میں بارش کا سلسلہ جاری ہے. ندی نالوں میں طغیانی، پارٹی گھروں میں داخل، شاہراہ قراقرم بند، کرک میں بارش سے متعدد مقامات پر سڑکیں بہہ گئیں.

لینڈ سلائیڈنگ کے باعث پہاڑی علاقوں کا رابطہ منقطع ہے، بجلی اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہوگیا، گلیات کے مختلف مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ ،حویلیاں میں ایک پک اپ ندی میں بہہ گئی. رابطہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے امدادی ٹیموں کو مشکلات کا سامنا ہے، سیلاب میں پھنسی خواتین اور 50 بچوں کو ریسکیو کیا گیا، سوات میں بارشوں سے 400 مکانات اور 124 تعلیمی ادارے متاثر ہوئے. نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق حالیہ مون سون بارشوں میں اب تک 660 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جس میں سے 392 اموات خیبر پختونخوا میں رپورٹ ہوئیں، پنجاب میں 164، سندھ میں 29، بلوچستان میں 20، گلگت بلتستان میں 32، آزاد کشمیر میں 15 اور اسلام آباد میں 8 افراد جاں بحق ہوئے۔

تفصیلات کے مطابق ضلع صوابی کے دشوار گزار دور افتادہ پہاڑی علاقے گدون آمازئی کے گاؤں دالوڑی بالا اور سرکوئی پایاں میں کلاوڈ برسٹ، آسمانی بجلی گرنے ، قیامت خیز بارش اور سیلاب سے درجنوں مکانات گرنے سے درجنوں افراد ملبے تلے دب جانے سے 25 افراد جاں بحق جبکہ 35 شدید زخمی ہوگئے ، پیر کی صبح آسمان پر سیاہ بادل چھا گئے ، موسلادھار بارشِ کا سلسلہ شروع ہوگیا اس دوران گدون امازئی کے گاؤں دالوڑی بالا میں کلاوڈ برسٹ ، آسمانی بجلی گرنے اور سیلابی ریلے سے درجنوں مکانات گر گئے جسکے نتیجے میں گھروں میں موجود افراد گھروں میں محصور ہونے کی وجہ سے ملبے تلے دب گئے.

دالوڑی بالا میں 20 جبکہ ٹوٹل 25 افراد جن میں خواتین ، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں جاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے ، آخری اطلاع تک دس لاشوں اور چھ زخمیوں کو نکالا گیا تھا ،گدون امازئی کے ایک اور گاؤں سرکوئی پایاں میں مکانات گرنے سے دو خواتین اپنے دو بچوں سمیت جاں بحق ہو گئی۔ جبکہ کرنل شیر خان کلے میں ایک نوجوان طلحہٰ سیلابی ریلے میں بہہ کر جاں بحق ہو گئے ، گدون امازئی کے گاؤں بادہ کے مقام پر لینڈ سلائیڈنگ کے باعث کئی گاڑیاں جبکہ گاؤں کولا گر میں چھتیں گرنے کئی جانور ملبے تلے دب گئی، ٹوپی سے کالج کے راستے مرغز ، زیدہ کو ملانے والی کازوے سیلابی ریلے میں گر گئی ، جانور سیلابی ریلے میں بہہ گئی.

کئی خاندان بے گھر ہوگئے ، فصلوں کو نقصان پہنچنے کے علاوہ بجلی کا نظام اور موبائل سسٹم کا رابطہ درہم برہم رہا ، پاک آرمی کے دو امدادی ہیلی کاپٹر بھی متاثرہ گاؤں میں پہنچے اور متاثرین کو ریسکیو اور محفوظ مقام منتقل کرنے کا عمل شروع کیا اسی ریسکیو کی ٹیمیں اور مقامی لوگوں نے دیگر لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے کا عمل شروع کردیا ۔دشوار گزار پہاڑی سلسلے کی وجہ سے امدادی کاموں میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، علاقے میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کی وجہ سے گدون امازئی کے روڈز بند رہیں جس کی وجہ سے امدادی کاموں میں تاخیر ہوئی۔ ضلع صوابی کے تمام شہروں صوابی،زیدہ ، مرغز ، ٹھنڈ کوئی ، ،انبار ، چھوٹا لاہور اور دیگر میں بارش کا پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہو گیا ، ندی نالوں میں طعیانی آنے سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔

علاوہ ازیں کلاوڈ برسٹ ،آسمانی بجلی اور سیلاب سے گدون امازئی کے گاؤں دالوڑی بالا کے 7 اور سرکوئی پایاں کے 4 شہداء کی نماز جنازہ پیر کی شام ادا کردی گئی ، گاؤں کے لوگوں کے مطابق سات لاشیں دالوڑی بالا اور چار سرکوئی پایاں سے نکالی گئی ہے۔ سوات کے شہر مینگورہ کے بالائی علاقوں میں مسلسل بارشوں کے بعد ندی نالوں میں طغیانی کی صورتحال ہے، ہری پور میں کھولیاں بالا کے برساتی نالے سے بڑا آبی ریلا گزر گیا جس سے ہری پور کو ایبٹ آباد سے ملانے والی شاہراہ قراقرم بند ہوگئی۔شاہراہ ریشم سے ریلا گزرنے سے دونوں ٹریک پر ٹریفک کا نظام معطل ہوگیا۔

یہ سب محض ایک فطری آفت نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی کوتاہیوں کا شاخسانہ ہے۔ سال 2022ء میں آنے والے ملک گیر سیلاب میں 33 ملین افراد متاثر ہوئے تھے، اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا، مگر کیا اس کے بعد کوئی جامع پالیسی ترتیب دی گئی؟ کیا نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) یا پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (PDMAs) کو جدید سازوسامان، افرادی قوت یا بااختیار نظام فراہم کیا گیا؟ کیا متاثرہ علاقوں میں ماحولیاتی سروے کیے گئے؟ کیا خطرے کی پیشگی وارننگ کے نظام کو فعال بنایا گیا؟ ان تمام سوالات کا جواب ایک خاموشی، ایک سناٹا ہے جو ان وادیوں کی گونج میں گم ہو چکا ہے جہاں ماضی کی گود میں مستقبل دفن ہو رہا ہے۔

موسمیاتی ماہرین کئی برسوں سے خبردار کر رہے تھے کہ پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ، مون سون پیٹرن کا بگاڑ، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا، اور بارشوں کی شدت میں اضافہ، یہ سب واضح علامات تھیں کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ مگر ہمارے ترقیاتی منصوبے، سیاسی دعوے، اور بجٹ ترجیحات سب کچھ اور تھے، اور نتیجہ یہی نکلا کہ آج ہم ایک ایسی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں جہاں ہمدردی کے الفاظ سے زیادہ ہمیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

پنجاب کے اضلاع میانوالی، چکوال، تلہ گنگ اور اٹک میں کلائوڈ برسٹ کے خطرات کی پیش گوئی ہو چکی ہے۔ مغربی اور مشرقی ہواؤں کے تصادم سے مون سون اسپیل کی شدت میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ کلاؤڈ برسٹ اور اربن فلڈنگ جیسے خطرات شہروں کو بھی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ مگر کیا ہم تیار ہیں؟ کیا ہمارے اسپتال، شیلٹر، پانی کی نکاسی، خوراک کی فراہمی، اور مواصلاتی نظام اس شدت کو سہنے کے قابل ہیں؟ جواب بدستور نفی میں ہے۔

موجودہ بحران کے تناظر میں وقتی امداد اہم ضرور ہے مگر کافی نہیں۔ ریاست کو ہنگامی بنیادوں پر ماحولیاتی تحفظ، آبی تحفظ، اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے ایک جامع قومی پالیسی ترتیب دینی ہوگی۔ اس میں آبی ذخائر کی بہتری، نکاسی آب کے نظام کی جدید کاری، خطرناک علاقوں سے آبادی کی منتقلی، اور مقامی سطح پر تربیت یافتہ رضاکاروں کی موجودگی جیسے اقدامات شامل ہوں۔ اس کے علاوہ، NDMA اور PDMA کو خود مختار ادارے بنانے، صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کو وسائل اور اختیارات دینے اور عوامی سطح پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

اس وقت متاثرہ علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی فلمی منظر یا پرانی داستان نہیں، بلکہ حقیقت ہے۔ وہ حقیقت جو ہر روز سینکڑوں خاندانوں کو زندہ درگور کر رہی ہے، وہ منظر جسے کوئی بھی کیمرہ مکمل طور پر قید نہیں کر سکتا، وہ چیخیں جو بارش کے شور میں دب جاتی ہیں، وہ خاموش آہیں جو دریا کی لہروں میں دفن ہو جاتی ہیں، اور وہ سوال جو ہر لاش کے ساتھ دفن ہو جاتا ہے کہ "اگر ہم نے پہلے سے تیاری کی ہوتی تو کیا یہ جان بچ سکتی تھی؟"

اگر ہم نے اب بھی نہ سنبھالا، تو آنے والے برسوں میں یہ قیامتِ صغریٰ، قیامتِ کبریٰ سے کم نہ ہوگی۔ اور پھر تاریخ ہمیں صرف قدرتی آفات کے مارے ملک کے طور پر نہیں، بلکہ اپنی کوتاہیوں کے مجرم کے طور پر یاد رکھے گی۔