ہوم << پاکستان آذربائیجان برادر برادر (2) - اشفاق عنایت کاہلوں

پاکستان آذربائیجان برادر برادر (2) - اشفاق عنایت کاہلوں

نعرے ایسے لگائے جا رہے تھے جیسے فٹبال میچ میں دو گول اوپر تلے داغ دیئے ہوں، جذبات تھمے تو بڑھیا کا بڑا بیٹا آگے آیا اور بڑی تفصیل سے بتایا کہ کیوں ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں، یہ نگورنو کاراباخ کے مسئلے پر پاکستانی امداد کا نتیجہ تھا، بعد میں کئی ملنے والوں نے انہی جذبات کی تصدیق کی، یوں یہ ملاقات، دو قوموں کے درمیان دوستی، اپنائیت اور محبت کی ایک خوبصورت مثال بن گئی۔

ہم اس مہربان خاندان سے باتیں کر رہے تھی کہ ایک چھوٹی بچی نے جھجکتے جھجکتے ہمارے قریب آ کر ہاتھ میں پکڑا موبائل فون لہرایا. وہ کوئی تصویر دکھا رہی تھی.
روزا نے تصویر کو غور سے دیکھا اور خوش ہو کر کہا،
"یہ تو ہم دونوں ہیں!"، تصویر میں ہم دو مسکراتے چہرے تھے، بس رنگ برنگے دل اور پھولوں سے گھرا ایک فریم بنا تھا، میں حیرت سے بچی کو دیکھنے لگا. لیکن اُس کے چہرے پر ایسی معصومیت اور فخر تھا کہ ہم صرف مسکرا کر "سپیسیبا" ہی کہہ سکے۔

ابھی ہم اس حیرت سے نکلے نہ تھے کہ گھر کے مردوں نے کمال فراخ دلی سے اپنی داستانیں شروع کر دیں، کوئی بتا رہا تھا کہ اُس کا دادا 1947 میں مسلمانوں کے حق میں دعا کیا کرتا تھا، کسی کا کہنا تھا کہ اس کی نانی نے پاکستانی آم چکھے تھے اور آج تک اُن کا ذائقہ یاد ہے، ایک بزرگ نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ اُس کا سگا دوست لاہور میں رہتا ہے، بس پچاس سال سے فون نمبر نہیں مل رہا! ہم بھی گردن ہلاتے رہے کیونکہ ایسی محبت بھری باتوں کو کبھی "فیکٹ چیک" نہیں کیا جاتا، صرف دل سے قبول کیا جاتا ہے۔

تبھی ایک چلبلا بچہ، شاید گھر کا سب سے نڈر رکن، اندر سے بھاگتا آیا، ایک ہاتھ میں آئسکریم اور دوسرے میں چھوٹا سا پاکستانی پرچم تھامے، وہ زور سے بولا:
"پاکستان آذربائیجان برادر برادر!"
میں تو اتنا جذباتی ہو گیا کہ ایک لمحے کو سوچا اُٹھ کر قومی ترانہ پڑھ دوں، پھر خیال آیا کہ روزا گھبرا جائے گی اور باقی مہمان سمجھیں گے کہ میں کسی جلسے کی تیاری میں ہوں۔

اسی دوران میز پر چائے کی پیالیوں کا ایک نیا دور آ چکا تھا، خوشبودار، سلیقے سے بنی ہوئی، ہلکی سی دارچینی کی خوشبو لیے، ساتھ روسی کیک، جنہیں میں نے دل میں "چائے کے نان خطائی" کا لقب دیا، بھی پیش کیے گئے. ابھی ہم اپنی چائے کی چسکیوں میں مصروف تھے کہ اچانک اندر سے وہی دہقانی لباس والا نوجوان آیا، جس نے میری پسلیوں سے بدلہ لیا تھا، اور کہنے لگا
"آج آپ دونوں میرے مہمان ہیں، آپ کو گاؤں کا میلہ دکھاتے ہیں."

لفظ "میلہ" سنتے ہی میری آنکھیں چمکیں، روزا نے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا،
"اب کوئی نیا ایڈونچر ہونے والا ہے؟"،
میں نے بہانہ بنانا چاہا لیکن دل سے آذربائیجان کا دیہاتی میلہ دیکھنے کا شوق غالب آ گیا۔
ہمیں ایک دیسی اسٹائل کے وین نما ٹریکٹر پر بٹھایا گیا، ہاں، واقعی، ٹریکٹر کی سیٹیں ڈیزل انجن والے رقص گھر جیسی لرز رہی تھیں، روزا بار بار میری کہنی پکڑ کر پوچھتی،
"یہ گرتا تو نہیں؟" ، اور میں اس کی گھبراہٹ سے لطف اندوز ہنستے ہوئے جواب دیتا،
"یہ ٹریکٹر ہے، رولر کوسٹر نہیں، بس دعا کرو کہ بریک وقت پر لگ جائے."

جب ہم میلے میں پہنچے، ہر طرف گیت، رقص، قہقہے، ہاتھ میں پکڑی لکڑی کی تلواریں اور روایتی لباس پہنے مرد و زن، جیسے صدیوں پرانی فلم کا پریمیئر ہو رہا ہو، سب نے آگے بڑھ بڑھ کر "پاکستانی شہزادہ" اور "روسی شہزادی" کو خوش آمدید کہا.
ایک طرف دیسی مرغی کے کباب، دوسری طرف انار کا جوس اور تیسری طرف مقامی بچوں کا ایک کھیل چل رہا تھا جس میں وہ آنکھیں بند کرکے ایک دوسرے کو تلاش کر رہے تھے، اور چیخ رہے تھے،
"پاکستانی آیا، پاکستانی آیا."
مجھے اپنے تئیں گمان ہوا کہ میں کسی لوکل ورژن کا "پوکیمون" بن گیا ہوں۔ اتنے میں ایک بڑھیا جو شاید اس بستی کی "سوشل میڈیا" تھی، میرے قریب آئی اور زور سے بولی،

"تمہارا رنگ پاکستانی، دل آذربائیجانی!"
میں نے جواب دیا
"اور تمہاری چائے رشین، مزاج مہمان نواز!"
پھر اُس نے بھی ہنس کر میرا ہاتھ تھاما، اور اپنی پوتی کو اشارہ کیا:
"اِسے رقص دکھاؤ."

روزا اور میں، دونوں کو ایک لوکل ڈانس میں گھسیٹ لیا گیا، گھنگھرو نہیں تھے لیکن جذبے ویسے ہی تھرک رہے تھے، میری ٹانگیں کبھی بائیں جا رہی تھیں، کبھی دائیں، اور روزا کے قہقہے گونج رہے تھے، ایک مقامی بچہ بولا،
"تم دونوں بہت اچھا ناچتے ہو، بس ایک ہی مسئلہ ہے… تال کا نہیں پتہ."
پھر ایک عجیب واقعہ ہوا، سب بچے، ایک لائن میں کھڑے ہو کر ہمیں سفارتی وفد کی طرح سلام کرنے لگے، ایک چھوٹے سے لڑکے نے جھک کر میرے جوتے کو بھی چھو لیا!
میں گھبرا کر پاؤں پیچھے ہٹائے اور اُس کی پیشانی چوم لی، دل میں سوچا،
"یار، اس ملک میں عزت واقعی اندھا دھند ملتی ہے، بس بندہ پاکستانی ہو."

کسی نے ہماری ویڈیو بھی بنائی، جو بعد میں سنا ہے پورے گاؤں کے مقامی واٹس ایپ گروپوں میں وائرل ہو گئی، عنوان تھا.
"پاکستانی مہمان کا ناچتا ہوا دل"
بمشکل ایک گھنٹہ وہاں گذار کر ہمیں پھر وہی ٹریکٹر واپس لایا، راستے بھر روزا کہتی رہی،
"ہم نے صرف سفر نہیں کیا، ایک نیا خاندان پایا ہے."
اور میں سوچتا رپا "شکر ہے کہ کتنا ساتھ نہیں آیا ورنہ اختتام اتنا پیارا نہ ہوتا."

دروازے کے باہر ٹریکٹر کی آواز سنتے ہی سب باہر نکل آئے، دہقانی لباس والا جوان، پوتے پوتیاں، بہوئیں بڑھیا، اور ہاں!
وہ کتا بھی، وہ ہم کو روکنا چاہتے تھے، میں خود بھی رکنا چاہتا تھا لیکن وقت کی کمی درپیش تھی، سب کے چہروں پر مسرت اور الوداع کہنے کا غم بھی چھلک رہا تھا، دل کے تاروں میں کوئی اداس دھن بجنے لگی تھی.
بڑھیا آگے آئی، اس کی آنکھوں میں نمی تھی، لیکن چہرے پر وہی شفیق مسکراہٹ، اُس نے میرے ہاتھ میں ایک چادر تھمائی، کڑھائی دار، روایتی آذربائیجانی چادر، میں نے کہا،
"یہ بہت قیمتی ہے، آپ کیوں دے رہی ہیں؟"

وہ بولی،
"یہ میرے شوہر کی نشانی ہے، وہ مسلمان تھا… پاکستان سے محبت رکھتا تھا، یہ تم رکھو، تاکہ یاد رہے ہم بھی تمہارے اپنے ہیں."
میری آنکھوں میں کچھ دھندلا سا ہونے لگا — شاید جذبات، کچھ کہنا مشکل تھا، تقریباً ایک گھنٹہ ان محبتوں میں ڈوبے رہے، بسیں آتی اور جاتی رہیں، بچے بار بار آکر آخری بار گلے ملتے، کبھی بڑھیا دو سیب ہاتھ میں تھما کر کہتی ،
"یہ رکھ لو، سفر میں کام آئیں گے."
اور وہ جپھی باز نوجوان بار بار کہتا "واپس ضرور آنا." وقت نے پرانا سبق یاد دلایا کہ مہمان جتنا جلدی لوٹ جائے، عزت سلامت رہتی ہے۔

ہم سب سے باری باری گلے ملے، ہاتھ ہلائے، آخری تصویریں بنوائیں، ایک بچی روزا کے گال پر بوسہ دے کر بولی، "تمہاری مسکراہٹ پورے گاؤں میں روشنی پھیلا رہی ہے."
میں نے کہا، “اور تمہارا کتا... اب دوست بن گیا ہے، لگتا ہے کہ اس نے مجھ پر بھونکنے کی نہیں، فالو کرنے کی عادت ڈال لی ہے."
ایک لڑکے نے اپنی جیب سے پرچم نکالا، تھوڑا سا پھٹا ہوا مگر بڑا صاف دل والا، اور کہا
"یہ میرا سب سے قیمتی خزانہ ہے، اب یہ تم رکھو، روزا آنٹی!"

اب تو ہم دونوں مکمل طور پر "ایموشنل حملے" کی زد میں آ چکے تھے، میں نے روزا کی آنکھوں میں دیکھا، وہ پہلے ہی آنسو چھپا رہی تھی، میں نے اُس کے ہاتھ میں وہ پرچم تھمایا اور کہا
"یہ دنیا چھوٹی ہے، شاید ہم پھر آئیں اور تب یہ پرچم واپس تمہیں دیں… نیا بنا کر!"
روانگی کا لمحہ آیا، ہم نے آخری بار سب کو گلے لگایا اور اس بار جپھی دینے والا نوجوان، احتیاط سے بولا
"میں نرمی سے لگاؤں گا… آپ کی پسلیاں ہماری قومی امانت ہیں!"

ہم سب ہنس پڑے، وہی مزاح جو جدائی کو بھی آسان بنا دے۔ بس آنے پر ہم سوار ہوئے، آدھی بس خالی تھی، سیٹوں پر بیٹھ کر ہم پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے رہے، وہ سب اب بھی ہاتھ ہلا رہے تھے، بچے "پاکستان آذربائیجان برادر برادر" کے نعرے لگا رہے تھے، اور وہ کتا… جی ہاں، وہ کتا بھی دھیمی دم ہلا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو
"اب تم اپنے ہو گئے ہو، دوبارہ آنا… ورنہ بھونکوں گا نہیں، یاد دلا دوں گا!"

بس نے موڑ کاٹا تو وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے، بھاری دل کے ساتھ میں نے آذربائیجانی چادر روزا کے حوالے کر دی، روزا نے میری طرف دیکھا، پھر کچھ یاد دہانی کیلئے بولی،
"یہ چادر تمہارے لئے ہے."
میں نے مختصر جواب دیا،
"اتنی زیادہ محبتوں کا بوجھ میں نہیں اٹھا سکتا، تم باکو آتی رہتی ہو، کبھی یہاں کا چکر لگے تو ان مہربان لوگوں سے ضرور ملنا، یہ دل کے بہت سادہ ہیں، بہت مخلص لوگ بالکل میرے خالص دیہاتی والدین جیسے."

Comments

Avatar photo

اشفاق عنایت کاہلوں

اشفاق عنایت کاہلوں سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ سفر اور سفرنامہ ان کی پہچان ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ہوتے ہوئے اعلی تعلیم کےلیے روس جا پہنچے جہاں یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلے غیرملکی طالب علم کے طور پر ٹاپ کیا۔ روسی زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ دنیا کی تلاش اور تحریر کے ذریعے سفری تجربات کا اشتراک ان کا جذبہ ہے۔ کئی سفرنامے شائع ہو چکے ہیں، ان میں کوہ قاف کے دیس میں ایک سال، ارتش کنارے، سیمپلاٹنسک: پیار کا دوسرا شہر، اوست کامن گورد، بہشت بریں باکو، اور تاشقند میں تنہا شامل ہیں۔ مختلف زبانوں میں ان سفرناموں کے تراجم ہو چکے ہیں

Click here to post a comment