ہوم << ایک معروف درود شریف اور ثواب:ایک تحقیقی جائزہ - مولانامحمدجہان یعقوب

ایک معروف درود شریف اور ثواب:ایک تحقیقی جائزہ - مولانامحمدجہان یعقوب

یہ تحقیقی مضمون ایک مخصوص درود شریف کے بارے میں ہے جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد 80 مرتبہ پڑھنے سے 80 سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور 80 سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔

اس مضمون کا مقصد اس روایت کی علمی حیثیت، اسناد، اور دیوبند مکتب فکر کے معتبر دارالافتاؤں کی آراء کا جائزہ لینا ہے تاکہ اس کے جواز کے امکانات کو تلاش کیا جا سکے۔ یہ تحقیق اس درود شریف کے گرد ہی گھومے گی اور اس سے زائد علامات اور نشانوں کو ختم کیا جائے گا۔زیر بحث درود شریف کا متن اور اس سے منسوب روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلَى آلِهِ وَسَلِّمْ تَسْلِيمًا
جو شخص جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے اسی (80) مرتبہ یہ درود پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے اسی (80) سال کے گناہ معاف فرما دیں گے اور اسی (80) سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا۔

یہ روایت مختلف کتب میں ملتی ہے جن میں ابن شاہین کی کتاب "کتاب الترغیب فی فضائل الاعمال"، دارقطنی کی "سنن" کے بعض نسخے، ابن النجار کی "تاریخ بغداد" اور خطیب بغدادی کی "تاریخ بغداد" شامل ہیں۔ تاہم، کسی کتاب میں محض اس کی موجودگی اس کی صحت کی ضمانت نہیں دیتی۔ حدیث کی صحت کا تعین اس کی سند (راویوں کی زنجیر) اور متن کے تنقیدی تجزیے سے ہوتا ہے۔ اس درود شریف کی روایت کے بارے میں محدثین کی آرا مختلف ہیں، لیکن غالب رائے یہ ہے کہ یہ حدیث "ضعیف" یا "ضعیف جداً" ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کی سند میں موجود راویوں کی کمزوریاں ہیں۔اس حدیث کی بنیادی سند میں کئی ایسے راوی شامل ہیں جن پر محدثین نے کلام کیا ہے:

1۔علی بن زید بن جدعان البصری:
انہیں عام طور پر ضعیف سمجھا جاتا ہے۔ محدثین نے ان کی احادیث میں اختلاط اور تدلیس (حدیث کو اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو یہ گمان ہو کہ اس نے اسے براہ راست سنا ہے، حالانکہ اس نے کسی اور سے سنا ہو) کا ذکر کیا ہے۔ شعبہ نے کہا: "وہ احادیث میں خلط ملط کرتے تھے".
امام احمد نے کہا: "وہ کچھ بھی نہیں ہیں".
اور ابو زرعہ نے کہا: "وہ مضبوط نہیں ہیں۔"

2۔جاج بن نصر:
انہیں علماء نے صراحتاً "متروک" (چھوڑ دیا گیا) قرار دیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کی روایات قابل قبول نہیں ہیں۔

3۔عوف بن ابی جمیلہ القیسی:
ان کی روایات کو "منکر" (عجیب) سمجھا جاتا ہے اور انہیں حدیث میں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ حاکم نے ذکر کیا کہ انہوں نے ان سے کچھ نہیں لکھا کیونکہ ان کی حدیث "عجیب" تھی، اور ابو داؤد نے بھی انہیں "ضعیف" قرار دیا۔

ان کمزور اور ناقابل اعتماد راویوں کی موجودگی کی وجہ سے ممتاز محدثین نے اس حدیث کو ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے۔ ان میں سے چند اہم محدثین اور ان کی آراء درج ذیل ہیں:

1۔دارقطنی:انہوں نے اس کی روایت میں کمزوریاں پائی ہیں۔
2۔حافظ ابن حجر عسقلانی: انہوں نے اپنی کتاب "نتائج الافکار" میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
3۔سخاوی: انہوں نے اپنی کتاب "القول البدیع" میں اسے ضعیف سمجھا ہے۔
4۔مناوی: انہوں نے "فیض القدیر" میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
5۔الحوت البیروتی:انہوں نے "اسنی المطالب" میں اسے ضعیف پایا ہے۔
6۔ابن الجوزی: انہوں نے اپنی موضوع احادیث پر مشتمل کتاب "الموضوعات" میں اس سے ملتی جلتی روایات کا ذکر کیا ہے۔

محدثین کی اجماعی رائے کے مطابق، یہ حدیث مستند نہیں ہے۔ اس کی شدید کمزوری، جو جعل سازی کے قریب ہے، کا مطلب یہ ہے کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قابل اعتماد طریقے سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، یہ حدیث شرعی احکام یا عبادات کے لیے بنیاد نہیں بن سکتی۔ دیوبند مکتب فکر کے معتبر دارالافتاؤں نے بھی اس درود شریف کے بارے میں فتاویٰ جاری کیے ہیں۔ ان کی آراء بھی محدثین کی عمومی رائے سے مطابقت رکھتی ہیں۔دارالعلوم دیوبند اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء نے بھی اس درود شریف کے بارے میں تفصیلی فتویٰ جاری کیا ہے۔

ان کی ویب سائٹ پر موجود فتویٰ جات میں اس حدیث کو "ضعیف" قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ محدثین کی اکثریت نے اس حدیث کو ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے، لیکن خانقاہوں اور تبلیغی جماعت سے منسلک لوگ اس درود شریف کا اہتمام والتزام کرتے ہیں۔ اس کے جواز کے امکانات کو درج ذیل نکات کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے:

اہل علم کا ایک بڑا طبقہ، جن میں امام احمد بن حنبل، امام نووی، اور ابن صلاح جیسے جلیل القدر محدثین شامل ہیں، اس بات کے قائل ہیں کہ فضائل اعمال (یعنی ایسے اعمال جن کا تعلق ثواب اور فضیلت سے ہو، نہ کہ حلال و حرام یا شرعی احکام سے) میں ضعیف احادیث پر عمل کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ حدیث موضوع (من گھڑت) نہ ہو اس کا ضعف شدید نہ ہو۔وہ کسی صحیح حدیث یا قرآن کے عمومی اصول کے خلاف نہ ہو۔ اس پر عمل کرتے ہوئے یہ یقین نہ رکھا جائے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔

بعض علماجیسے ابن صلاح اور امام نووی نے فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کو نقل کرنے اور ان پر عمل کرنے کی گنجائش دی ہے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے بھی اس موضوع پر لکھا ہے اور مختلف روایات کا ذکر کیا ہے جنہیں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، اس فتویٰ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ چونکہ یہ حدیث موضوع نہیں، اس لیے فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

چونکہ محدثین کی اکثریت نے اس حدیث کو موضوع نہیں بلکہ ضعیف قرار دیا ہے، اس لیے فضائل اعمال کے باب میں اس پر عمل کی گنجائش نکل سکتی ہے۔خانقاہوں اور تبلیغی جماعت سے منسلک افراد کا اس درود شریف کا اہتمام کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسے فضائل اعمال کے باب میں شامل کرتے ہیں اور اس سے روحانی فیض حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان حلقوں میں یہ روایت مقبول ہے اور اسے نیک نیتی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اگرچہ علمی طور پر اس کی سند کمزور ہے، لیکن عوامی سطح پر اس کی مقبولیت اور اس سے حاصل ہونے والے روحانی فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بشرطیکہ اسے شرعی حکم یا فرض کے طور پر نہ لیا جائے۔

لہٰذا، اس درود شریف کو مطلقاً ناجائز قرار دینے کے بجائے، اسے فضائل اعمال کے باب میں شامل کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کی سند کے ضعف اور اس کے موضوع نہ ہونے کا لحاظ رکھا جائے، اور اس پر عمل کرتے ہوئے یہ یقین نہ رکھا جائے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی ثابت ہے۔ خانقاہوں اور تبلیغی جماعت کے افراد کا اس پر عمل اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ درود شریف کی کثرت کریں، اور اس کے لیے صحیح اور مستند احادیث میں مذکور درودوں کو ترجیح دیں، لیکن اگر کوئی شخص اس درود کو پڑھتا ہے تو اسے درود پڑھنے کا ثواب ضرور ملے گا۔

Comments

Avatar photo

مولانا محمد جہان یعقوب

ڈاکٹر مولانا محمد جہان یعقوب فاضل درسِ نظامی ہیں۔ وفاقی اردویونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی میں پبلی کیشنز، تصنیف اور صحافت کے شعبہ جات کے نگران ہیں۔ کئی کتب، رسائل اور ریسرچ جرنلز کے مصنف ہیں۔ اصلاحی و تحقیقی موضوعات پر سو سے زائد رسائل لکھ چکے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا سے بطور کانٹنٹ رائٹر، کمپیئر اور اینکر منسلک ہیں۔

Click here to post a comment