ہوم << پڑی بنگلہ واٹر چینل کی المناک داستان - امیر جان حقانی

پڑی بنگلہ واٹر چینل کی المناک داستان - امیر جان حقانی

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد کیا ہے:
"وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ"
ترجمہ: اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ (سورۃ الانبیاء، آیت 30)

پانی صرف ایک مائع نہیں، زندگی کا سرچشمہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پانی زندگی بھی ہے اور موت بھی، مگر جب یہی پانی، جو حیات کی علامت ہونا چاہیے، بدنظمی، غفلت اور اجتماعی بے حسی کی علامت بن جائے تو پھر یہ صرف بحران نہیں، ایک اجتماعی گناہ بن جاتا ہے۔ یہی اجتماعی گناہ کئی عشروں سے پڑی بنگلہ کے لوگ بھگت رہے ہیں۔

بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ ہر آدمی نفسا نفسی کا شکار ہے اور اجتماعی سوچ و فکر اور عمل کا شدید فقدان ہے۔ گلگت شہر سے محض بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پڑی بنگلہ، قدرتی حسن، زرخیزی اور جغرافیائی اہمیت میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہی مقام آج واٹر چینل کے بحران کا شکار ہوکر ترقی کی دوڑ میں ایک پیاسا قافلہ بن چکا ہے۔ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ پیاس کوئی صحرائی مقدر نہیں بلکہ انسانی بے تدبیری، کرپشن اور مقامی افتراق کا نتیجہ ہے۔

پڑی بنگلہ کا یہ واٹرچینل کوئی نیا چینل نہیں بلکہ 1930ء میں جب انگریز سرکار نے گلگت اور جگلوٹ کے درمیانی مقام پر ریسٹ ہاؤس اور ڈاک بنگلہ تعمیر کیے، تو پانی کی فراہمی ایک چیلنج تھی۔ چکر کوٹ کے آخری گاؤں جگوٹ (ہرکوکی) سے نمبر دارانِ چھموگڑھ اور مقامی عوام کی مدد سے ایک واٹر چینل کھودا گیا، جو 13 میل (18 کلومیٹر) طویل ہے۔ پانی کا منبع پہوٹ، گاشو، اور بلاس کے برفانی چشمے ہیں، جہاں سے بذریعہ واٹر چینل ہوتے ہوئے پڑی بنگلہ پہنچایا گیا اور پانی کی ضرورت پوری کر دی گئی۔

پھر پڑی بنگلہ میں لوگ آباد ہوتے گئے اور پھر یہ واٹر چینل صرف سرکاری ریسٹ ہاؤس تک محدود نہیں رہا بلکہ مقامی آبادی کی ضرورت بھی بن گیا۔ پھر یوں ہوا کہ ڈاک بنگلہ اور ریسٹ ہاؤس قصہ پارینہ بن گئے اور اب اس واٹر چینل کا پانی پورے علاقے کی معیشت، زراعت، نرسریوں، گھریلو زندگی اور پڑی پاور ہاؤس کے لیے ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے۔ پڑی بنگلہ کا پانی پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر ہر حصہ دار نے اپنا پانی فروخت کرتا گیا، اب سینکڑوں لوگ، کوئی کم کوئی زیادہ پانی کا مالک ہے۔

گزشتہ دہائی میں پڑی بنگلہ میں سینکڑوں نرسریاں قائم ہو چکی ہیں، جہاں سے ہر سال کروڈوں پودے گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع کو سپلائی کیے جاتے ہیں۔ یہ خطہ درختوں کی پیداوار، بیجوں، اور نرسری صنعت کا مرکز بن چکا ہے، جس سے لوگوں کو روزگار بھی مل رہا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی پانی کے چینل سے جڑا ہوا ہے، جو آج ہر ماہ کسی نہ کسی جگہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔

اس چینل کے ٹوٹنے کے وجوہات میں بارش، لینڈ سلائیڈنگ، انسانی مداخلت، اور بدترین غفلت شامل ہیں۔ بعض افراد اس چینل سے غیر قانونی طور پر تعمیراتی لکڑی کی بلیک کرتے ہیں، جس سے چینل کی ساخت متاثر ہوتی ہے۔ جب بھی چینل ٹوٹتا ہے، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت چندہ جمع کرتے ہیں، مزدور لگاتے ہیں، پانی بحال کرتے ہیں اور پھر کچھ دن بعد وہی افسوسناک کہانی دہرا دی جاتی ہے۔

اس چینل کی نگرانی و مرمت کے لیے 60 کے قریب سرکاری ملازمین تعینات ہیں، مگر مقامی لوگ ان کی ڈیوٹی سے نالاں ہیں۔ پڑی بنگلہ کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سطح پر ایک واٹر کمیٹی بھی موجود ہے جو کبھی کبھار متحرک نظر آتی ہے، خاص طور پر جب کسی سرکاری فنڈ کی خوشبو آتی ہے۔ پڑی بنگلہ کے لوگ بظاہر اس کمیٹی سے مطمئن دکھائی نہیں دیتے، سنا ہے کہ ایک جنرل کمیٹی بھی ہے لیکن اس کمیٹی کے درمیان بھی اختلافات، گروہ بندیاں اور خلط ملط کی صورتحال ہے، جس سے اجتماعی نظم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

اللہ کے رسول کا ارشاد ہے کہ
"کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ"
ترجمہ: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی۔ (صحیح بخاری: 893)

وہ افراد جو عوام کے اعتماد سے کمیٹیوں، نمائندگی یا نگرانی کے مناصب پر فائز ہیں اور اس کے باوجود اپنے فرائض کو دیانتداری سے ادا نہیں کرتے، وہ صرف ناکام نہیں بلکہ اخروی بازپرس کے بھی مستحق ہیں۔ پڑی بنگلہ کے عمائدین، اور باشعور لوگوں سے طویل مکالمہ کے بعد تین معقول تجاویز سامنے آئی ہیں ان کو یہاں عرض کر دیتے ہیں تاکہ بہتری کی کوئی سبیل نکل آئے۔

1. زیر زمین ٹنل کی تعمیر
پڑی بنگلہ کے وسط سے سربند تک ٹنل کے ذریعے پانی لنک کیا جائے، کئی احباب سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس ٹنل کا سروے بھی ہوا، لیکن کسی نے پروا نہیں کی۔ اگر آج کوئی سنجیدہ اور بااختیار حکمران ہو تو سربند سے براہِ راست پانی لانے کے لیے یہ ٹنل نکال کر اس دیرینہ مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکتا ہے۔

2. 24 انچ پائپ لائن منصوبہ
عوامی سطح پر یہ تجویز بھی موجود ہے کہ اگر چینل کو 24 انچ یا اس سے بھی بڑا جدید پائپ لائن میں تبدیل کر دیا جائے تو نہ صرف پانی محفوظ رہے گا بلکہ مرمت کی بار بار ضرورت بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ بھی انتہائی معقول تجویز ہے ۔

3. جزوی پائپنگ اور سلائیڈنگ روک تھام
پڑی بنگلہ کے معروف عالم دین، مفتی لطف الرحمان کی تجویز ہے کہ اگر پہلی اور دوسری تجویز پر سردست کام نہیں ہوسکتا تو فی الحال جہاں لینڈ سلائیڈنگ سے چینل ٹوٹنے کا خطرہ ہے، وہاں مخصوص حصوں کو پائپ، سیمنٹ، اور سلیب سے محفوظ کر دیا جائے۔

یہ فوری، کم خرچ اور پائیدار حل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ درست نیت سے آغاز کیاجائے۔ بہرحال مفتی صاحب کی تجویز بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے تو کافی اچھے نتائج حاصل ہوسکتے ہیں ۔یہ بات مسلم ہے کہ ان تجاویز پر عمل کرنے کے لیے ایک مربوط اور سنجیدہ ریاستی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ حکومت گلگت بلتستان کے لیے یہ ایک امتحان بھی ہے اور موقع بھی۔ محکمہ آبپاشی، تعمیرات و توانائی اگر سنجیدگی سے اس منصوبے کو اپنائیں تو ہزاروں افراد کی زندگی سنور سکتی ہے۔ساتھ ہی رفاہی ادارے، خاص طور پر AKRSP (آغا خان رورل سپورٹ پروگرام)، اگر اس معاملے کو ایک ماحولیاتی اور دیہی ترقیاتی ایمرجنسی کے طور پر اپنائیں، تو پڑی بنگلہ کا چینل ایک ماڈل پروجیکٹ بن سکتا ہے۔

تاہم، افسوس کا پہلو یہ ہے کہ پڑی بنگلہ کے اندر بھی اتفاق و اتحاد کا شدید فقدان ہے۔ مقامی اختلافات، قومیتی تقسیم، اور قیادت کی کمزوری نے مسئلے کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ اگر یہاں کے عمائدین، نوجوان، علمائے کرام اور باشعور افراد ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ منتخب نمائندے اس اہم مسئلے پر توجہ نہ دیں۔اس کے ساتھ ساتھ پڑی بنگلہ کو درپیش دیگر بڑے مسائل بھی حکومت کی توجہ چاہتے ہیں۔واٹر سپلائی اسکیم کئی بار منظور ہوئی، مگر کچھ غیر ذمہ دار عناصر نے اسے سبوتاژ کر دیا۔ اب تک یہاں لڑکیوں کے لیے پرائمری سکول ہے،گرلز ہائی اسکول کی عمارت بھی بنی ہے مگر اب تک بچیاں مڈل کے لیے ترس رہی ہیں، لیکن ان پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ پانی کا بحران دراصل قیادت کا بحران ہے۔ اگر نیت صاف ہو، وژن واضح ہو، اور مقصد عوامی فلاح ہو، تو کچھ بھی ناممکن نہیں. یہاں واٹر چینل کا مسئلہ ہو یا واٹر سپلائی اسکیم، ہر بار مقامی غیر ذمہ دار عناصر میدان میں آتے ہیں، فنڈز کا رخ موڑا جاتا ہے، اور اسکیمیں فائلوں میں دفن ہو جاتی ہیں۔ یہ معاشرتی بے حسی کا آئینہ ہے۔ پانی کا بہاؤ محض فطرت کا کرشمہ نہیں، یہ اجتماعی شعور، نیت اور جدوجہد کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ پڑی بنگلہ کا واٹر چینل ایک سوال بن کر ہمارے ضمیر پر دستک دے رہا ہے۔ کیا ہم اس دستک کو سننے کے لیے تیار ہیں؟

اگر نہیں تو یاد رکھیں!
آنے والی نسلیں ہمیں پانی کی بوند بوند کو ترستی نگاہوں سے دیکھ کر بددعائیں دیں گی۔ اور اگر ہاں، تو آج سے، ابھی سے، آواز اٹھائیے، تاکہ پانی کا یہ زخم ناسور نہ بنے، بلکہ شفا کا چشمہ بن جائے۔ جو لوگ اجتماعی معاملات میں بدنظمی، خلط ملط، اور بددیانتی کرتے ہیں، ان کے متعلق خدا وند قدوس کا ارشاد ملاحظہ کیجیے :

"وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ"
ترجمہ: زمین میں اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔ بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ الاعراف، آیت 56)

لہٰذا ضرورت ہے کہ حکومت، این جی اوز، مقامی قیادت اور عوام مل کر اس چینل کو بچائیں۔ یہ صرف پانی نہیں، یہ زندگی کی لکیر ہے۔ آج نہ جاگے، تو کل دیر ہو جائے گی!

Comments

Avatar photo

امیر جان حقانی

امیر جان حقانیؔ گلگت بلتستان میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ممتاز محقق، استاد، اور مصنف ہیں۔ جامعہ فاروقیہ کراچی سے درس نظامی مکمل کرنے کے ساتھ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور جامعہ اردو سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا، بعد ازاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی فکر، تاریخ و ثقافت سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ 2010 سے ریڈیو پاکستان کے لیے مقالے اور تحریریں لکھ رہے ہیں

Click here to post a comment