ہوم << دیوان سنگھ مفتون-ویب ڈیسک

دیوان سنگھ مفتون-ویب ڈیسک

diwan singh maftoon
ایک ادبی مجلس میں دیوان سنگھ کا ذکر چھڑا۔ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر نے ان کی صاف گوئی کے مختلف واقعات بیان کرتے ہوئے کہا ’’اُردو کی ہفتہ وار اخبار نویسی میں صرف ۳؍ پرچے ایسے ہیں جو مر کر بھی زندہ رہیں گے: الہلال، اودھ پنچ اور ریاست۔ الہلال کا ہمیشہ ادب کیا گیا۔اودھ پنج خود ہنستا اور ہنساتا رہا لیکن ریاست ایسا پرچہ ہے جس سے اربابِ اقتدار خوف کھاتے رہے۔ ‘‘
چراغ حسن حسرت نے کہا ’’مفتوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ آنکھیں چار کرکے لکھتا ہے، عام ایڈیٹروں کی طرح آنکھ مچولی نہیں کرتا۔‘‘ احمد شاہ بخاری نے صاد کیا ’’مفتوں بت کدہ میں اذان کی آواز ہے۔‘‘ مولانا عبدالمجید سالک بھی ان سے متفق تھے۔ انھوں نے اتنا اضافہ اور کیا ’’مفتوں نے ہفتہ وار اخبار نویسی کرکے تنہانویسی کی عمارت کھڑی کی ہے۔‘‘ شورش کاشمیری ان باتوں کے راوی ہیں۔
دیوان سنگھ مفتوں کانام سامنے آتے ہی بے باک صحافت کے حوالے سے نئی جہت سامنے آتی ہے۔ ایک بار ثقہ ادیبوں کی محفل میں یہ سوال زیرِبحث تھا کہ اُردو اخبار نویسی میں کتنے ایڈیٹر ایسے ہیں جن کے قلم سے انسانوں کے بڑے گروہ نے محبت کی اور جن کی تحریروں کا دبدبہ تنی گردنیں جھکانے پر قادر رہا یا پھر جنھوں نے اپنے قلم کی طاقت سے بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ ایسے مباحثہ میں ایک بات پر متفق ہونا مشکل ہے، لیکن تقریباً سارے ادبا کا اتفاق تھا کہ ہفتہ وار صحافت میں طویل عرصے تک جو درجہ و کمال دیوان سنگھ مفتوں کو حاصل رہا، وہ بے مثال ہے۔ مفتوں اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے واحد ایڈیٹر ہیں جنھوں نے ربع صدی تک پورے ہندوستان میں اپنا سکہ بٹھایا۔ ان کے ہم عصروں نے انھیں رشک سے دیکھا، دوستوں نے فخر کیا اور مخالفوں نے سر چھپانے میں خیر سمجھی۔
دیوان سنگھ حافظ آباد (گوجرانوالہ) کے کھتہ کھتری سکھ خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد کامیاب ڈاکٹر تھے۔ ۴۰؍ دن کے تھے کہ والد چل بسے اور یتیمی نصیب میں آئی۔ والد کے ترکہ سے ۱۲؍ سال اخراجات چلتے رہے۔ بھائی بہنوں کی شادیاں ہوئیں لیکن پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ چنانچہ تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔ ۱۲؍ سال کے تھے کہ حافظ آباد کے ایک ہندو بزاز کے ہاں ۵؍ روپے ماہوار پر ملازمت ملی۔ ان کا کام گاہکوں کو کپڑے کے تھان کھول کر دکھانا تھا۔ اس ملازمت میں ایک واقعہ کا اثر ان کے دل پر نقش ہوگیا جو آیندہ زندگی ان کے کام آیا۔
اپنی آپ بیتی ’’ناقابلِ فراموش میں خود لکھتے ہیں۔ ’’ ہندو بزاز کے ہاں ایک مسلمان بوڑھا درزی اور اس کا جوان بیٹا سلائی کرتے تھے۔ اتفاق سے ایک بار بوڑھے درزی کو کسی شادی کے سلسلے میں باہر جانا پڑا۔ عدم موجودگی میں وہ اپنے بیٹے کو کام سپرد کر گیا تاکہ جب وہ آئے تو گاہکوں کا کام مکمل ہو۔ جب وہ واپس آیا تو گائوں کے کسی بچہ کا سبز مخملیں کوٹ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ جلدی میں بیٹے نے بجائے سبز کے سفید دھاگے سے کوٹ کی سلائی کر دی تھی۔ بوڑھا درزی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا۔ اس نے زور دار تھپڑ جوان بیٹے کو مارا اور کہا: ’’نالائق! تو دیہات میں رہنے والے جاٹ کے بیٹے پر رحم نہ کھاتا مگر اس مخمل پر تو ترس کھاتا جس کا تو نے ستیاناس کردیا۔‘‘
بوڑھے باپ نے اسی وقت بیٹھ کر کوٹ کی ساری سلائی ادھیڑی اور بڑی محنت سے دوبارہ کوٹ کو سبز دھاگے سے سیا۔ یہ سارا قصہ دیوان سنگھ کے سامنے پیش آیا۔ ننّے معصوم ذہن پر یہ بات نقش ہوگئی۔ تمام عمر انھوں نے خواہ اپنا کام کیا یا ملازمت کی، اُسے محنت اور محبت سے انجام دیا۔
انھوں نے اخبار ریاست ۱۹۲۴ء میں نکالا اور ۳۳؍ برس تک اس کی شہرت میں چنداں فرق نہ آنے دیا۔ حق کو اپنایا۔ مظلوموں کے لیے جائے پناہ بنے۔ تحقیق کرنے کے بعد حمایت کے لیے کمربستہ ہوجاتے۔ والیانِ ریاست کے ستائے ہوئے لوگوں کی سنتے۔ بڑی پامردی سے مقابلہ کرکے حقدار کو اس کا حق دلاتے۔ پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے راز، دیسی ریاستوں کے اسرار، ان کے مظالم، سازشیں، رشوت، حکومت کی چیرہ دستیاں، جیلوں کی زندگی، اخلاقی پستی اور نمک حرامی کے حیرت انگیز واقعات ان کی زندگی میں پیش آئے۔ ۱۵؍ بار گرفتار ہوئے۔ ۵؍ جیلوں کے اسیر رہے، لیکن ان پر جتنی مصیبتیں نازل ہوئیں، جتنے مقدمات چلے، اسی قدر ان کی عزت اور شہرت میں اضافہ ہوگیا۔ وہ چاہتے تو گھر بیٹھے دولت کا انبار جمع کر لیتے مگر بڑی سے بڑی رشوت اور بڑے سے بڑا لالچ انھیں متاثر نہ کر سکا۔ انھوں نے صرف پانچویں تک تعلیم حاصل کی تھی۔ حالات نے آگے پڑھنے کا موقع نہ دیا۔ لیکن ان کے شوق، محنت، عزم اور شب و روز مطالعے نے انھیں صحافت کی صفِ اول میں کھڑا کردیا اور ان کے اخبار کو آزادیٔ رائے، بے لاگ تنقید اور زورِبیان بخشا۔ وہ خود کامیابی کا راز محنت اور صرف محنت اور کام کی لگن میں سمجھتے تھے۔
وہ ایک کہنہ مشق اور کامیاب ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ بلندپایہ ادیب اور انشاپرداز تھے۔ جن لوگوں نے ان کا اخبار پڑھا ہے، انھیں آج بھی مفتوں کا اندازِ بیان یاد ہوگا۔ سیدھے سبھائو، بے تکلف انداز میں صحیح تصویر کھینچ کر قارئین کو متاثر کر دیتے۔ اخبار میں ناقابلِ فراموش کالم کے مضامین شائع ہوئے تو لوگوں کی دلچسپی مزید بڑھ گئی۔ یہی وجہ ان کی کتاب ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کو صفحہ قرطاس پر لانے کی بنی۔ انھوں نے زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیا۔ نواب بھوپال والے مقدمہ میں جب ۳؍ ماہ ناگ پور جیل میں رہے تو ریاست کے مستقل کالم ’’ جذبات مشرق‘‘ کے لیے ہندی کے بہترین شعراء کے کلام کا ترجمہ کیا۔ وہ بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ ان کی دونوں کتابوں کی نظیر ملنی مشکل ہے۔
وہ خود لکھتے ہیں ’’میں نے صحیح اور درست اُردو بولنے اور لکھنے کے لیے ملاواحدی یا بیگم ممتاز مرزا، بہادرشاہ ظفر بادشاہ کے خاندان کی ایک مرحوم خاتون اور دوسرے دوستوں کی امداد حاصل کی، لیکن میں ایمانداری کے ساتھ اس کا اقرار کرتا ہوں کہ ’’۱۲؍ برس دلی میں رہے اور بھاڑ جھونکتے رہے‘‘ کے مصداق ۳۳؍برس میں اُردو پر قادر نہ ہوسکا۔ جو شخص پنجاب میں پیدا ہوا ہو اور کہے، وہ اُردو زبان پر قادر ہے تو وہ یقینا غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ اس کے ثبوت میں مرحوم پروفیسر محمد حسین آزاد کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔‘‘
مرحوم پروفیسر محمد حسین آزاد دہلی میں پیدا ہوئے۔ مگر فارسی زبان کے عالم تھے۔ اپنی علمیت کے باعث سالہا سال تک گورنمنٹ کالج لاہور میں فارسی پڑھاتے رہے۔ آپ کو اس بات کا وہم تھا کہ آپ ایران کے اہلِ زبان کا فارسی میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اسی غلط فہمی میں مبتلا ایران گئے تاکہ وہاں فارسی دانی کا سکہ بٹھا سکیں۔ تہران میں ایک عالم اور مصنف کے مہمان ہوئے۔ دوسرے تیسرے روز کا ذکر ہے کہ آپ صحن میں بیٹھے تھے، قریب ہی چولہا جل رہا تھا۔ اتنے میں دیگچی زیادہ آنچ ہونے کے باعث ابل پڑی۔ مولانا پاس بیٹھے یہ دیکھ کر سوچنے لگے کہ دیگچی کی اس کیفیت کو کیا کہنا چاہیے۔ اتنے میں کمرے کے اندر سے ایک چھوٹی بچی آئی۔ جب اس نے دیگچی کا یہ حال دیکھا تو بے ساختہ ماں کو متوجہ کرتے ہوئے بولی:
’’اماں، اماں، دیگچی سرکردہ۔‘‘
مرحوم پروفیسر کو تب احساس ہوا کہ وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں، کوئی شخص کسی غیرزبان میں کتنا بھی علم حاصل کر لے، وہ زبان پر قادر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ پروفیسر واپس تشریف لے آئے۔‘‘
دیوان سنگھ کو بزاز کی دکان پر کام کرتے چند روز گزرے تھے کہ محلے والوں کو پتا چل گیا۔ ان کی گلی میں ایک امیر برہمن رہتا تھا۔ اس نے کبھی مفتوں کے والد سے رقم لی تھی۔ اب اس نے انھیں بلا کر کہا، تم پڑھنا چاہتے ہو تو سارا خرچہ میں اٹھائوں گا۔ اس بات کا ذکر مفتوں صاحب نے گھر آ کر والدہ سے کیا۔ والدہ نے انکار کرتے ہوئے کہا ’’لوگ کیا کہیں گے؟ یہ ہمارے خاندانی وقار کے خلاف ہے‘‘۔
والد نے بہت کچھ چھوڑا تھا۔ روپیہ اور پھر زیور ختم ہوا تو گھر کی اشیا فروخت کرکے گزارا ہوا۔ چنانچہ عرصے تک یہ کام جاری رہا، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ کہتے ہیں جو لوگ عوام میں عزت اور شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر کردار پیدا کریں۔ دنیا میں دولت ہی سب کچھ نہیں، انسان کو اپنی عزت پر دولت قربان کرنی پڑتی ہے۔ عزت تب ہی حاصل ہوتی ہے۔ جو دوستوں کے ساتھ بددیانتی کرے، وہ اعتمادکش ہے۔ بازار کا ایک کتا بھی اس سے اچھا ہے جو اپنے دوست اور دشمن میں تمیز کرتا ہے اور دوستوں کے ساتھ غداری نہیں کرتا۔
شروع میں دیوان سنگھ نے لاہور میں مختلف اخبارات میں دو تین گھنٹے کام کیا۔ مالی حالت چنداں اچھی نہ تھی۔ وہ اسے اپنی زندگی کا ناکام دور تصور کرتے تھے۔ اکثر ۲؍ سینئر صحافیوں لالہ رام چھپال سنگھ شیدا اور لالہ بانکے دیال کے ساتھ وقت گزارتے۔ ایک روز پنڈت راج نرائن ارمان انھیں ملنے آئے۔ باتوں باتوں میں بتایا، بھرگوسنگت کا کچھ حصہ ان کے پاس ہے۔ بھرگوسنگت نادر و نایاب کتاب ہے اور علم جوتش کے موجد، بھرگورشی کی تصنیف ہے۔ ہزارہا برس پہلے لکھی گئی۔کئی حصوں میں تقسیم ہے۔ مکمل کتاب کا وزن کئی من ہے۔ کتاب میں دنیا میں کتنے لوگ پیدا ہو چکے، موجودہ اور آیندہ، ہر آنے والے انسان کا زائچہ ہی نہیں اس کے ہر جنم کا حال بھی لکھا ہے کہ آیندہ وہ کہاں پید اہوگا۔ مفتوں لکھتے ہیں ’’میرا زائچہ بھی لیا۔ پھر ہزارہا کنڈلیوں میں سے میری کنڈلی (زائچہ) ملائی اور نتیجہ مجھے پڑھ کر سنایا، وہ مجھے اب تک یاد ہے۔
’’یہ انسان حمل میں ہوگا تو باپ کی صحت گرنی شروع ہو جائے گی۔ پیدا ہونے کے ۶؍ ماہ کے اندر باپ انتقال کر جائے گا۔ بہت ہوشیار ہوگا۔ ۱۸؍ برس کی عمر میں زمین ملے گی۔ ۱۷؍ برس کی عمر میں ایک لڑکی کے عشق میں مبتلا اور بہت تکلیف اٹھائے گا۔
لڑکی کے ساتھ اس انسان کا پچھلے جنم میں بھی تعلق تھا۔ اس نے لڑکی کو پچھلے جنم میں تکلیف دی تھی۔ یہ لڑکی پچھلے جنم کا بدلہ اس جنم میں لے گی جب اس کی عمر ۱۷؍ سال ہو گی۔ یہ انسان پچھلے جنم میں بنارس کے ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ یہ انسان بہت خوش نصیب اور خوش بخت ہے۔ زندگی میں لاکھوں انسانوں کے دماغ پر حکومت کرے گا۔ چڑھنے کے لیے سواری نصیب ہوگی۔ لاکھوں روپیہ پیدا کرے اور لاکھوں روپیہ خرچ کرے گا۔ ہمیشہ مقروض رہے گا۔ زندگی بھر دشمنوں کا مقابلہ کرتا اور ان کو نیچا دکھاتا رہے گا۔ راجوں، مہاراجوں کے لیے خطرناک ہوگا۔ اس کا رزق اس کے وطن سے مشرق کی طرف ہوگا۔ ۸۰؍برس کی عمر کے بعد یکدم حرکتِ قلب بند ہونے سے موت واقع ہوگی۔‘‘
دیوان سنگھ لکھتے ہیں ’’یہ مختصر حالات سن کر میں حیران رہ گیا۔ گزرے واقعات بالکل سچے تھے۔ آیندہ زندگی اتنی شاندار ہوگی، یقین نہ آتا تھا۔ میرے والد میری پیدائش کے ۴۰؍ دن بعد فوت ہوگئے تھے۔ تعلیم پانچویں تک حاصل کی۔ ۱۸؍ برس کی عمر میں زمین تقسیم ہوئی تو ملی۔ ۱۷؍ برس کی عمر میں جب دھرم کوٹ ضلع فیروزپور میں تھا، مجھے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی۔ آپ یقین نہیں کریں گے اس زمانے میں مجھے عورت مرد کے تعلقات کا علم بھی نہیں تھا۔ اس لڑکی سے میں نے کبھی بات بھی نہیں کی لیکن ایک برس تک مجھے نیند نہ آئی، بے چین رہتا۔ ۲؍ سال بعد وہ لڑکی مر گئی۔ جب میں نے یہ خبر سنی میرے ہاتھ میں کچھ سامان تھا، وہ گر گیا۔ اب بھی جب کبھی اس کی یاد آئے، پورے جسم میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔‘‘
اٹھارہ انیس سال کے تھے کہ ذوقِ صحافت کی تشنگی دور کرنے کے لیے لکھنٔوسید جالب مرحوم دہلوی ایڈیٹر ہمدم کے دفتر پہنچے۔ انھوں نے کہا ،کوئی جگہ نہیں۔ کہا، چپراسی ہی رکھ لیجیے۔ وہ بات بھی رَد ہوگئی۔ انکار میں جواب سن کر کہا ’’آپ کو مفت کام لینے میں کوئی اعتراض ہے؟‘‘ سید جالب نے کہا، مفت کام لینے میں کیا انکار ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اگلے روز سے ’’ہمدم‘‘ کے دفتر میں معاوضے کے بغیر کام شروع کردیا۔ پہلا معاوضہ کئی ماہ بعد ملا۔ بقول دیوان سنگھ’’ اس وقت میری ذاتی آمدنی اور خرچہ روزانہ آٹھ آنے سے زیادہ نہیں تھا۔‘‘ پھر آپ نے میدانِ صحافت میں جو معرکے انجام دیے، انھیں دیکھ کر بابائے صحافت سیدجالب دہلوی نے کہا ’’میرے شاگردوں میں سب سے زیادہ کامیاب دیوان سنگھ ہے۔ اس کی کامیابی پر مجھے فخر ہے۔‘‘
اخبار ریاست کی ایڈیٹری پھولوں کی سیج نہیں بلکہ تلوار کی دھار تھی۔ ریاستوں کے راجے، مہاراجے ان کے خلاف تھے، لہٰذا مقدمے قائم ہوتے رہے۔ تلاشیاں ہوئیں اور زندگی کے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا۔ بھرپور زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات انھوں نے اپنے خاص رنگ اور اسلوب میں تحریر کرنا شروع کیے جو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا حصہ بنے۔
ہندی شاعری میں عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ یہاں کی ریت، رسمیں، محبوبہ کے اَنگ اَنگ کی تصویر کشی، نینوں کا بانک پن، موسموں کے رنگ، چھیڑچھاڑ، سوتن کی آگ، جن کا سرچشمہ سچ مچ عوامی زندگی سے ہے اور ان کو بڑے طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔
دہلی میں محلہ گڑھیا میں اخبار ریاست کا دفتر تھا۔ نچلی منزل میں میرے ابا سید مہربان حسین سبزواری رہتے تھے۔ اس وقت دستور تھا، گھر میں کوئی چیز پکتی تو پڑوس کے دو چار گھروں میں ضرور بھجوائی جاتی۔ میری امی خانہ داری میں کمال رکھتی تھیں۔ انھیں ڈیزائن بنانے اور کشیدہ کاری کرنے کا شوق تھا۔ پردے کے باوجود انھوں نے کشیدہ کاری کے مقابلوں میں انعامات حاصل کیے تھے۔ دیوان سنگھ کے ہاں بھی تیسرے چوتھے دن کھانا پکا سینی میں خوان بچھا اور اوپر سرپوش ڈال کر بھجواتیں۔ کڑھے سرپوش دیکھ کر دیوان سنگھ بہت خوش ہوتے۔ انھوں نے خواتینِ مشرق کے ایڈیٹر، عبداللہ فاروقی سے بات کی اور امی کو کہلوایا کہ کشیدہ کاری کی اپنی کتابیں شائع کروائیں۔ امی نے کرائسچ ورک، کشیدہ کاری، کروشیا کے بارے اور بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں جو بہت پسند کی گئیں۔ اس طرح گھر بیٹھے آمدنی کا سلسلہ قائم ہوگیا۔
دیوان سنگھ کی کتاب’’ ناقابلِ فراموش‘‘ میں کھانے کی لذت کے عنوان سے ہمارے ہی گھر کا کچھ یوں ذکر ہے۔ ’’ دہلی کے مسلمانوں کے ہاں خاص قسم کی ماش کی پھریری دال پکا کرتی۔ یہ دال بے حد لذیذ ہوتی ۔ اس گھر میں پکتی تو مالکن اپنے ملازم کے ہاتھ یہ دال ضرور مجھے بھجوایا کرتی۔ میں نے ایک روز اس خاتون کو کہلا بھیجا کہ میں کسی عورت کا انتظام کرتا ہوں جو پردہ نہ کرتی ہو۔ آپ اس عورت کو دال پکانا سکھا دیں تاکہ وہ مجھے سکھا دے۔ میری اس درخواست پر اس خاتون نے جواب دیا، میں دال پکانا تو اس عورت کو سکھا دوں گی، مگر یہ تو اپنا اپنا ہاتھ ہے۔ تمام عورتیں کھانا پکاتی ہیں، کوئی لذیذ اور کوئی بدمزہ۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ عورت یا آپ بھی ایسی ہی دال پکا سکیں۔ اس جواب پر میں نے عورت بھیجنے کا ارادہ ترک کردیا۔‘‘
مفتوں صاحب اسلام کی حقانیت کے قائل تھے۔ آپ بیتی میں لکھتے ہیں۔ ’’ایک بار دہلی جیل میں تھا۔ وہاں کانپور کے احراری مولوی عبدالقیوم دن رات ساتھ رہے۔ ہر بات میں یہ مخلص شخصیت مذہبی سند پیش کرتی۔ ایک روز مہاتما گاندھی کی زندگی اور حق پرستی کا ذکر ہو رہا تھا۔ ان کی صاف بیانی کا ذکر کرنے کے بعد مولوی عبدالقیوم نے ایک حدیث سنائی جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ’’دنیا میں سب سے بڑا جہاد بادشاہ کے منہ پر حق و صداقت کی آواز بلند کرنا ہے اور اگر یہ شخص کسی سزا کی پروا نہیں کرتا تو اس شخص کا یہ فعل تمام جہادوں میں سب سے بڑا جہاد قرار دیا جائے گا۔‘‘
مولوی عبدالقیوم کے منہ سے یہ حدیث سن کر میں سوچنے لگا کہ جو رسول ﷺ حق و صداقت کی آواز بلند کرنے کو جہادوں میں سب سے افضل ترین جہاد قرار دے، ان کے بلند، حق پرست اور قابلِ احترام ہونے سے انکار کرنا کس قدر شرمناک اور باطل پرستی ہے۔
مولوی عبدالقیوم کے منہ سے یہ حدیث سن کر اسلام کے متعلق میرے ذہن میں انقلاب پیدا ہوا۔ اس کے بعد جب بھی مجھے موقع ملا، میں نے رسول اللہﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا اور مختلف موضوعات پر قرآن کے احکام سمجھنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ میرے دل میں گو بعض مسلمانوں کے اعمال دیکھ کر ان کے لیے نفرت ہے مگر رسول اللہﷺ، قرآن اور اسلام کے لیے اپنے دل میں اتنی ہی عزت اور احترام محبت کے جذبات رکھتا ہوں جتنے کہ ایک مسلمان کے دل میں ممکن ہیں۔‘‘
دیوان سنگھ اکثر خطوں میں لکھتے ’’مجھے ایسا لگتا ہے، اسلام صرف عورتوں اور یتیموں کے لیے آیا تھا۔‘‘ عورت کی زبوں حالی دیکھ کر پریشان ہوجاتے۔ کہتے عورت کی فطرت میں قدرت نے فیاضی کے ساتھ رحمدلی اور محبت کا مادہ کوٹ کوٹ کر رکھا ہے اور انسانوں ہی نہیں حیوانوں میں بھی ایسا دیکھا گیا۔ اگر مادہ ہرنی شکاری کا شکار ہوجائے تو نر ہرن بھاگ جاتا ہے۔ اگر نرہرن کو گولی لگ جائے تو مادہ ہرن اس کے قریب ہی کھڑی رہتی ہے۔ عورت کی اسی رحمدلی اور محبت کا دوسرے لوگ فائدہ اٹھا کر اُسے بدنام کرتے ہیں۔
دیوان سنگھ مفتوں کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے، انسان کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اس کا پھل اسے ضرور ملتا ہے۔ ایک معمولی پڑھا لکھا انسان صرف اور صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے اور آگے بڑھنے کی جدوجہد میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی اور دیوان سنگھ نے مل کر ایک اخبارنکالا۔ یہ واحدی صاحب کے مکان کے ایک حصہ میں رہے جہاں اخبار کا دفتر بھی تھا۔ بھوک لگتی تو بازار سے کھانا منگوا کر کھا لیتے۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے اٹھ کر کام کرنے لگتے۔ اتفاق سے ایک رات واحدی صاحب ۱۰؍ بجے آئے تو دیکھا، دیوان سنگھ کام کر رہے ہیں۔ رات ایک بجے پھر غسل خانے جانے لگے تو دیکھا، دیوان سنگھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے پوچھا، آخر تم اتنا کام کیوں کرتے ہو؟
دیوان سنگھ نے کہا ’’انسان کی کامیاب زندگی کے لیے ضروری ہے وہ سخت محنت کا عادی ہو اور اپنی زندگی میں بہت کام کرے۔‘‘
انسان محنت کرتا ہے تو اسے روپے کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ ایڈیٹر ریاست کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ لوگوں نے قدردانی کی بنیاد پر چپ چاپ اور کہیں زبردستی مدد کی۔ ان کا کہنا تھا ’’عوام کا کام کرنے والے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ روپیہ نہیں ملتا، وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور ان میں اخلاص اور ایمانداری کی کمی ہے۔ عوام کی آواز کام کرنے والوں کے ایمان اور اخلاص کا سب سے بڑا تھرمامیٹر ہے۔ عوام کی آواز کبھی غلط نہیں ہوتی۔‘‘ اس دنیائے فانی میں کوئی ہمیشہ نہیں رہتا، ایک نہ ایک دن سبھی کو جانا ہے، لیکن دیوان سنگھ مفتوں کی بے باک صحافت کا نقش آج بھی لوگوں کے دلوں میں رقم ہے۔ ان کی تحریر کردہ دونوں کتابوں، ناقابلِ فراموش ہے

بشکریہ اردو ڈائجسٹ

Comments

Click here to post a comment