حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین مکہ کو خوشی کی نوید سنادی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعائیں قبول کرلیں. اب تم ایسی جگہ پر اپنا مسکن کرنے والے ہو جہاں کے باسی تمہاری آمد کی خبر سنتے ہی اپنی راہوں کو مزین کرنے میں لگ گئے ہیں. وہ تم سے ملنے کیلئے بے قرار ہیں، ان کی نظریں پتھراچکی ہیں تمہاری راہ دیکھتے دیکھتے۔
جہاں تم امن، چین اور سکون کی زندگی بسرکرو گے، مشکلات،دکھ درد، بھوک کی اذیتیں برداشت کرتے کرتے ان کے صبر کی انتہا ہوچکی تھی۔ نویدسحر، خوشی کی لہر کی طرح اپنے وجود کو مزید اپنے انصار بھائیوں سے دوری برداشت کرنے سے قاصر تھی بس حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نگاہیں جھکی تھیں کہ کب فیصلہ ہوجائے اور حکم کی تعمیل میں کہیں ہم سے تاخیر نہ ہوجائے اچانک مکہ مکرمہ کی گلیوں میں ہجرت ہجرت کی صدائیں گونجنے لگیں۔ حجش کی گلیاں سنسان ہونے لگیں۔
آج خون کے رشتوں سے پیارے دینی بھائیوں کی دوری کو سہنا برداشت سے باہر تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حضرت عامرؓ بن ربیعہ الغزی، ان کی زوجہ لیلیٰ رضی اللہ عنہا بنت ابی حشمہ، حضرت عمارؓ بن یاسر اور دیگر کا قافلہ اپنے بھائیوں کی پکار پر لبیک کی صدائیں بلند کیے، حضوا کے حکم کی تعمیل کو بے سروسامان، فدائے اسلام رواں دواں تھے،ادھر انصار صبح صادق سے لے کر رات کے پچھلے پہر تک ان کی آمد کے منتظر تھے کہ کب یہ انتظار کی گھڑی ختم ہوگی اور دوریاں قربتوں میں تبدیل ہوں گی۔حضورﷺ نے ہجرت کے روحانی منظر کا واضح مفہوم ان لفظوں میں بیان فرمادیا کہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے.
اور آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق اجر ملتا ہے تو جس شخص نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی یعنی اللہ اور رسول کی رضا جوئی اور اطاعت کے سواہجرت کا اور کوئی باعث نہیں تھا تو اس کی ہجرت درحقیقت اللہ اور اس کے رسول ا ہی کی طرف ہوئی .جو کسی دنیاوی فائدہ کیلئے عورت سے نکاح کرنے کی خاطر مہاجر بنا تو (اس کی ہجرت اللہ اور رسولؐ کیلئے نہ ہوگی) فی الواقع جس دوسری غرض سے نیت سے اس نے ہجرت اختیار کی تو اللہ کے نزدیک بس اس کی ہجرت مانی جائے گی۔(اربعین امام نووی)
نقل مکانی یا ہجرت کرنا ایک فطری عمل ہے لیکن یہ ہجرت کسی مقصد کی بنیاد پر عمل میں آئی ہے. یہ بات زیر بحث ہے کہ آیا ہجرت کرنے والا اس خطے، علاقے یا جگہ پر غیر محفوظ ہے یا معاشی پریشانی لاحق ہے یا اقلیت کی وجہ سے ظلم وستم سے نجات چاہتا ہے. یا وہاں مہلک مرض سے جان ضائع ہونے کا ڈر ہے یا ہجرت کی دوسری صورت حدیث بالا میں واضح بیان کردی. کیونکہ انسانوں کی تخلیق سے لے کر اکیسویں صدی تک کے سفر میں انسان خانہ بدوش ہی رہا ہے اس نے جہاں سہولتیں، آسائشیں اور وسائل دیکھے وہیں کا رخ کردیا.
یہ بھی تاریخ کا ایک تلخ مشاہدہ رہا ہے کہ یہ ہجرتیں کہیں انسان کیلئے مفید رہیں تو کہیں انہی انسانوں کے نقل مکانی کرنے سے جنگوں نے جنم لیا، نسلوں کی نسلیں ان کی ہٹ دھرمی میں بہہ گئیں. اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کی کامل رہنمائی کیلئے اپنے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا. اُس وقت ہر طرف کفر اورجہالت کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے نہایت ہی جانفشانی سے لوگوں کو رب العالمین کی توحید اوراپنی رسالت کی طرف بلایاان میں سے کچھ لوگوں نے تو ایک ہی آواز پر لبیک کہہ دیا. جبکہ کچھ لوگ حضورﷺ کے جانی دشمن بن گئے.
حضورﷺ نے اپنی حیات طیبہ کے 53سال مکہ مکرمہ میں اور 10سال مدینہ منورہ میں گزارے. آپ کو اسلام کی دعوت وتبلیغ سے روکنے کے لیے آپ کے وطن عزیز مکہ مکرمہ میں بہت ستایا گیا،حتی کہ آپ کے نرم ونازک بدن کوپتھروں کے نشانہ بناکر لہولہان کیا گیا. آپ کو قیدوبند کی صعوبتیں دی گئیں،حتیٰ کہ آپ کے جسم اطہر سے اتنا خون نکلا کہ آپ کے نعلین مبارک خون کی وجہ سے پاؤں میں جم گئے. آپ ﷺخود فرماتے ہیں مجھ سے پہلے جتنے انبیائے کرام ؑگزرے ہیں. انہوں نے راہِ خدا میں جتنی تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کیں. ان سے کئی گنا زیادہ میں نے تنہا برداشت کی ہیں (بخاری)گویا حضورﷺ کو ہر موڑ اور ہرمحاذ پر ستایاگیا.
کفارومشرکین آپ کوہرقسم کی تکلیف دیتے رہے‘ جن پر آپﷺ صبروتحمل کا مظاہرہ فرماتے رہے،لیکن جب کفارِ مکہ آپ کو دعوتِ اسلام سے روکنے میں ناکام ثابت ہوئے. اورایمان واسلام کا دائرہ کارزیادہ وسیع ہونے لگا تو سرداران کفار نے آپ کیخلاف قتل کی سازش تیار کرنے کیلئے ایک اجلاس رکھا. جس میں آپ کے قتل کی گھناؤنی سازش تیار کی گئی،جب ظلم تجاوزکرچکاتواللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ کا حکم لیکر حاضر ہوئے. اوراس طرح آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا. حضورﷺاور آپ کے جانثار ساتھیوں کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے اسلام پر بہت سے نتائج و اثرات مرتب ہوئے.
مدینہ منورہ میں حضورﷺ کی تشریف آوری سے شہر کا ماحول ہی بدل گیا، مگر آپﷺ کے تشریف لانے سے صرف اس کا نام ہی تبدیل نہیں ہوا بلکہ آب و ہوا بھی خوشگوار ہوگئی، مزاج بدل گئے، جانی دشمن باہم شیر و شکر ہو گئے. امن، سلامتی، پیارپھیل گیا. ہر طرف نور ہی نور پھیل گیا، مہاجرین جب مکہ مکرمہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اپنے اہل وعیال، خویش و اقارب اور گھر بار چھوڑ کر مدینہ منورہ پہنچے تونبی کریمﷺ نے دنیائے کائنات میں محبت و مؤدت کی دعوت کو عام کیا. مشرکین مکہ کاظلم وستم بڑھا تو اہل ایمان بارگاہ رسالت سے اجازت پاکر مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرگئے.
پھر جب کفار نے غلبہ اسلام سے خوف زدہ ہو کر حضور ﷺکے قتل کاناپاک منصوبہ بنایا تواللہ کے حکم سے سیدنا صدیق اکبرؓ کے ساتھ ہجرت فرمائی،کفار کا سخت پہرا تھا. آپﷺ حضرت سیدناعلی ؓکو اپنے بستر پر لٹاکر سورہ یٰسین کی آیات تلاوت کرتے ہوئے اُن کفارکے سروں پر مٹی ڈال کر کاشانہ اقدس سے نکل گئے. حضرت سیدنا ابوبکرصدیق ؓ کو ساتھ لیااورمکہ مکرمہ کی دائیں جانب بعض روایات کے مطابق تین میل پر واقع غار ثور میں قیام فرما یا.(سیرۃ ابن ہشام، ص193)
راستے میں سیدناصدیق ِاکبرؓبھی حضورﷺ کے دائیں بائیں اور کبھی آگے پیچھے چلتے کہ کہیں کوئی گھات لگانے والا نقصان نہ پہنچادے.چلتے ہو ئے جب پاؤں مبارک پتھر چبھنے لگے توسیدنا صدیق اکبرؓنے آپ کندھوں پراُٹھالیا اورغارتک لے گئے. پہلے خود داخل ہوئے غار کی صفائی کی، تاکہ کوئی موذی جانورتکلیف نہ پہنچائے. غارثور میں حضرت سیدنا عبداللہ بن ابوبکرؓ، حضرت سیدہ اسماءؓ اورحضرت سیدنا عامر بن فہیرہؓ خبریں پہنچانے،کھانا کھلانے اور دوود ھ پلانے کی خدمت بجا لاتے رہے.(سیرۃ ابن ہشام، ص194)
کفار آپ کی تلاش میں غار ثو پر بھی پہنچے مگراللہ کریم نے محفوظ رکھاجس کا بیان سورہ تو بہ میں ہے:
ترجمہ:"بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہواصرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ (اطمینان) اتارا ".(پ10،التوبہ:40)
غار ثور میں تین دن قیام کے بعد مدینہ روانہ ہوئے۔ سفرہجرت میں سیدناصدصدیق اکبرؓ کی ایڑی پر سانپ نے ڈس لیاتولعابِِ دہن لگانے سے آرام آگیا. دو کبوتروں نے گھونسلا بنا لیا اور مکڑی نے جالا تن دیا،سراقہ بن مالک (جو بعد میں اسلام لے آئے تھے) گرفتار کرنے آئے تو اُنہیں زمین نے پکڑ لیا. او امِ معبدکی لاغر بکری کو مبارک ہاتھ لگائے تو(اس بکری نے اتنا دودھ دیا کہ) سارے برتن دودھ سے بھر گئے.(السیرۃ النبویہ، ج 1، ص 386تا399)
پھر قباء میں پہنچے،حضرت کلثومؓ کے یہاں چند دن قیام فرمایا(السیرۃ الحلبیہ،ج 2،ص 72) اسی دوران مسجد قبا تعمیر فرمائی جس کی شان و عظمت پرسورہ توبہ کی آیت 108 ہے. قبیلہ بنوسالم میں پہلا جمعہ ادا فرمایا .(فتاویٰ رضویہ،ج8،ص313)
جب آپ ﷺمدینہ منورہ سے کچھ دور پہنچے اور اہل مدینہ کو خبر ہو ئی تو اہل مدینہ روزانہ راستوں پر بیٹھ کرتا جدار مدینہ ﷺ کا انتظار کیا کرتے تھے. جب آپ نے سرزمین مدینہ کو شرف قدم بوسی بخشا تو اہل مدینہ دیکھتے ہی پکاراٹھے اور اہل مدینہ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی. وہ خوش تھے اور کہنے لگے رسول کریم حضرت محمدﷺ ہمارے پاس تشریف لے آئے۔ عورتوں، بچوں اور کنیزوں نے یوں نعت پڑھی: یعنی وداع کی گھاٹیوں سے ہم پرچاند طلوع کرآیا،دعا کرنے والے جب تک دعا کریں ہم پر شکر واجب ہے (سبل الہدیٰ والرشاد،ج3،ص271)
نیز مرد،عورتیں چھتوں پر چڑھ گئے جبکہ بچے اورغلام گلیوں میں یوں نعرے لگانے لگے صلی اللہ علیہ وسلم،صلی اللہ علیہ وسلم،صلی اللہ علیہ وسلم۔
تبصرہ لکھیے