گذشتہ روز مصنف و ڈائریکٹر ابو علیحہ کی شاندار فلم "ٹیکسالی گیٹ" دیکھنے کا اتفاق ہوا اور من جھوم اٹھا. پرفیکٹ سکرپٹ، ہر سین جاندار، ڈائیلاگ گہرائی سے بھرپور، اداکاری کا اوج ثریا نیئر اعجاز، ماسوائے افتخار ٹھاکر (موصوف ڈائیلاگ اچھے بول سکتے ہیں لیکن ٹھوس اداکاری چیدہ چیدہ نظر آتی ہے)، کیمرہ بندی بہترین اور لوکیشن کہانی کی ڈیمانڈ کے عین مطابق تھی.
ہیروئن زینب اپنے بوائے فرینڈ چوہدری کامران سے ملنے اس کے دوست کے گھر پہنچتی ہے، چھت پر باتیں کرتے ناہید اختر کے سدا بہار گانے "گرم گلابی شام ہے تارا رمپک رمپا" پر معصومیت سے رقص کرتی کو خبر نہیں ہوتی کہ اس کا نصیب پھوٹنے والا ہے، خوشی سے جھومتی لڑکی اپنے محبوب کے ایک گھناؤنے روپ سے دوچار ہوتی ہے، ہر ساز چیخ میں بدل جاتا ہے. فلم میں بابر علی کا کردار چوہدری شہریار صرف ایک بااثر شخص نہیں، بلکہ وہ ان تمام طاقتور مردوں کی نمائندگی کرتا ہے جو عورت کو کمزور سمجھ کر اس پر ظلم کرتے ہیں، اور معاشرہ چپ سادھ لیتا ہے.
اُس کا اوباش بیٹا ان مظالم کا تسلسل ہے، نئی نسل کا وہ نمائندہ جو بدقماش ہو کر بھی باپ کے سائے میں محفوظ ہے اور اپنے جیسے دوستوں کی محفل کا رسیا ہے، عفت عمر کے ڈائیلاگز ایک ایسا سماجی نوحہ ہیں جو جذبات، حقیقت اور سوالات سے لبریز ہیں. ٹیکسالی گیٹ نہ صرف لاہور کے ایک تاریخی دروازے کا نام ہے، بلکہ اس دروازے سے جھانکتا ایک ایسا کربناک منظر ہے جس سے ہم میں سے اکثر نظریں چرا لیتے ہیں، ابو علیحہ نے ثابت کیا ہے کہ سنجیدہ سینما صرف بڑے بجٹ اور بڑے سیٹوں کا محتاج نہیں، بلکہ اصل بات تو "نکتہ" اور "نیت" کی ہوتی ہے۔
زینب کے باپ کا کردار ادا کرنے والے لیجنڈری اداکار نیئر اعجاز کا غمگین چہرہ اس فلم کا سب سے دل چیر دینے والا منظر بن جاتا ہے، جو کچھ دیر پہلے تک حویلی میں ڈھول کی تھاپ پر "فنکار" کہلا کر نوٹ سمیٹ رہا تھا، اب ایک عام، لاچار، مفلس بن کر چاول کی دیگ کے پاس شاپر لیے ترلے کر رہا ہے، فلم یہاں غربت اور بے بسی کی اس تصویر کو ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے، جو اکثر خبریں بنے بغیر دفن ہو جاتی ہے۔ باپ اپنی بھوک کی تذلیل سہہ رہا ہوتا ہے، اور بیٹی دوسری طرف جسمانی و جذباتی کرب سے گزر رہی ہوتی ہے، یہی تضاد فلم کا دوسرا طاقتور تھیم ہے، غربت اور بے بسی انسان کو عزت، غیرت اور تحفظ جیسے حقوق سے محروم کر دیتی ہے.
ابو علیحہ نے اس منظر میں دکھایا ہے کہ ظلم ہمیشہ صرف طاقتور نہیں کرتا، کبھی کبھار خاموشی، بھوک اور لاچاری بھی برابر کی مجرم بن جاتی ہیں۔ نیئر اعجاز کا کردار "میدو کنجر" صرف ایک روایتی کردار نہیں بلکہ اس معاشرے کا وہ تلخ عکس ہے جہاں فنکاروں، مزدوروں، کمزور طبقوں اور خاص کر "نچلے طبقے کی عورتوں" کی کوئی آواز نہیں سنی جاتی، زمین پر پڑے نوٹ چنتے ہوئے جب وہ تھپڑ کی دھمکی سن کر خاموش ہو جاتا ہے اور شاگرد اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے تب نیئر اعجاز کا ڈائیلاگ دل چیر کر رکھ دیتا ہے،
"کنجروں کی اس معاشرے میں کوئی عزت نہیں... ڈھول بجاؤ!"
تو یہ جملہ صرف ایک ڈائیلاگ نہیں، بلکہ پورے معاشرتی رویے پر تھپڑ ہے۔ یہ فلم صرف عورت کی مرضی کے تحفظ کی بات نہیں کرتی، بلکہ اس سچ کو بھی بےنقاب کرتی ہے کہ غربت کی کوکھ سے جنم لینے والی بیٹیوں کی زندگیاں اکثر فیصلوں، خوشیوں، اور تحفظ سے محروم رہتی ہیں، پہلا تھیم اگر "عورت کو اس کی مرضی کے بغیر مت چھوو" تو دوسرا تھیم چیخ چیخ کر کہتا ہے "غریب کی بیٹی کیوں سب سے غیر محفوظ ہوتی ہے." کہانی صرف ظلم اور غربت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ طاقتور طبقے کے ہاتھوں قانون کا جھکنا اور انصاف کا بکھرنا بھی ننگا ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔
اے ایس آئی افتخار ٹھاکر کو جب پتا چلتا ہے کہ ملزم کا تعلق چوہدری شہریار سے ہے، تو قانون کی کتاب بند کر کے نظریں جھکا لیتا ہے، اس کا کردار فلم میں ایک ’پراکسی بزدلی‘ کا مظاہرہ کرتا ہے، اسی وقت ایس ایچ او کی اتفاقیہ انٹری نسبتاً بہتر، سخت لہجے اور جاندار مکالموں سے وقتی انصاف کا تاثر دیتی ہے. چوہدری شہریار، جو پورے علاقے میں طاقت، رعب اور رواج کا نشان سمجھا جاتا ہے، اچانک اپنے بیٹے کو محلے کی گلیوں میں گھسیٹ کر، سب کے سامنے اس کی دھلائی کرتا ہے، یہ منظر ایک لحاظ سے معاشرتی منافقت کو ننگا کرتا ہے.
وہ اپنے بیٹے کے "جرم" پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا یا بدنامی سے بچنے کیلئے ظاہری سزا کا ناٹک کر رہا تھا، محلے والے دروازوں سے جھانکتے ہیں، خاموش ہوتے ہیں، سرگوشیاں کرتے ہیں، اس "تشہیر شدہ سزا" کے بعد اسے گھر سے نکال دیتا ہے. اسی دھلائی کے بعد، وہی بگڑا ہوا لڑکا کامران، اپنے بگڑے ہوئے دوست کے ساتھ تھڑے پر بیٹھا لسی کا گلاس تھامے، غصے میں پھنکار رہا ہوتا ہے، دوست جو مکمل طور پر نفرت، انتقام اور زہریلی مردانگی کا نمائندہ ہے، اسے مزید بھڑکاتا ہے، وہ دونوں مزید گھٹیا پن پر اتر آتے ہیں، زینب کے گھر جا کر مار پیٹ کرتے اور پچاس ہزار کے عوض منہ بند رکھنے کی دھمکی دیتے ہیں.
یہاں فلم ایک اور تلخ سوال کھڑا کرتی ہے"کیا زخم دے کر پیسے پھینکنے کا کلچر ہماری سوچ کا حصہ بن چکا ہے؟"یہ منظر کہانی کو ایک اور پیچیدہ مگر حقیقت پر مبنی موڑ پر لے آتا ہے جہاں ظلم کا ایک چکر بنتا ہے، جو صرف طاقت یا دولت سے نہیں، بلکہ ذہنیت سے جڑا ہوتا ہے، مگر اصل جھٹکا اس وقت آتا ہے جب تھانے میں ایس ایچ او، زینب کے باپ اور چچا کو کہتا ہے، "چوہدری شہریار، تحصیلدار اور ڈی ایس پی کا بھائی ہے... بیس لاکھ روپے لو اور کیس ختم کرو"
یہ جملہ صرف طنز نہیں، بلکہ ایک معاشرتی حقیقت کا زہریلا اعلان ہے کہ طاقتور کیلئے ہر قانون لچک دار ہے، اور غریب کیلئے ہر قانون فولادی دیوار۔ یہ منظر تین اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے.ظلم کی جڑ صرف ایک شخص نہیں، پوری سوچ ہوتی ہے. طاقتور طبقہ صرف بدنامی سے ڈرتا ہے، سزا سے نہیں نوجوان نسل کی بگڑی ہوئی مردانگی معاشرے کا مستقل خطرہ ہے. زینب جس کی زندگی، عزت، اور خواب سب کچھ چھن چکا ہے، وہ کہتی ہے کہ
"میری عزت کا مول نہیں... مجھے عدالت جانا ہے."
فلم کی ہیروئن کوئی مشہور اداکارہ یا مار دھاڑ کرنے والی سپر وومن نہیں، بلکہ ایک عام لڑکی بن کر کھڑی ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں نہ ہتھیار ہے، نہ سیاسی رشتہ، صرف سچائی اور ہمت ہے، یہ منظر ابو علیحہ کے فلمی وژن کا کمال ہے کہ اصل طاقتور وہ ہوتا ہے جو ڈرا ہوا نہیں اور بکا ہوا نہیں. "ٹیکسالی گیٹ" یہاں صرف ایک فلم نہیں رہتی. یہ ایک سماجی جدوجہد کا منشور بن جاتی ہے اور ناظرین کو جھنجھوڑ کر پوچھتی ہے، کیا ہم واقعی شرماتے ہیں؟ یا صرف "شرمندگی سے بچنے" کا ناٹک کرتے ہیں؟
عدالت میں جب وکیلِ صفائی ملک یعقوب (جو ایک چالاک، مکّار اور مردانہ سماجی سوچ کا نمائندہ ہے) اپنی مخصوص مکاری سے یہ سوال اٹھاتا ہے کہ "اگر زینب کو اس لڑکے سے محبت تھی، وہ خود اُس سے ملنے جاتی تھی، بوس و کنار کرتی تھی، تو پھر وہ ریپ کیسے کہلائے گا؟"
وہ پوری شدت سے اپنے بنیادی پیغام کو ایک جملے میں پیک کر کے ناظرین کے منہ پر دے مارتا ہے۔ اور پھر عائشہ عمر بظاہر ایک طوائف مگر باشعور عورت کے روپ میں زینب کی طرف سے جوابی ضرب لگاتی ہے، وہ صرف عدالت نہیں، پورے معاشرے پر سچ اور عزت کی مہر ثبت کر دیتی ہے۔
"ہاں، وہ اُس سے ملنے جاتی تھی، ہاں، وہ کِس بھی کرتی تھی… لیکن وہ ریپ کروانے پر رضامند نہ تھی!"
"آپ کالا کوٹ پہن کر اس عدالت میں اپنی رضامندی سے آئے تھے لیکن اب بے عزتی آپ کی رضامندی سے نہیں ہو رہی."
یہ ڈائیلاگ صدیوں پرانی ذہنیت پر وہ تھپڑ ہے جس کی گونج صرف فلمی سکرین تک محدود نہیں، بلکہ ہر اُس ذہن میں ہونی چاہیے جو محبت کو اجازت، اور رضامندی کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔ محبت، تعلق، بوسہ ان میں سے کوئی بھی "ریپ کی اجازت" نہیں بنتا. عورت کی مرضی ہر بار، ہر قدم پر، ہر لمحے ضروری ہے ورنہ وہ زبردستی ہے۔ عائشہ عمر کا یہ مکالمہ صرف وکالت نہیں، بغاوت ہے.
"تمہاری مرضی کے بغیر کوئی تمہیں چھو بھی نہیں سکتا چاہے وہ تمہارا محبوب ہی کیوں نہ ہو!"
یہ بیانِ حلفی بن جاتا ہے اُس سچ کا، جسے اکثر عورتیں عمر بھر دل میں دفن رکھتی ہیں اور سب سے بڑھ کر "ہر لڑکی بکاؤ مال نہیں ہوتی، عزت سب کیلئے ہر چیز سے اوپر ہے." یہ جملہ فلم کا اخلاقی تاج ہے جو اس کہانی کو ایک ناقابل فراموش سماجی دستاویز بنا دیتا ہے اور شائد یہی ابو علیحہ کا اصل کمال ہے.
تبصرہ لکھیے