موتیا مسعود پاکستان کی ایک ابھرتی ہوئی سیاسی و سماجی شخصیت ہیں، جنھوں نے بہت کم عرصے میں جنوبی پنجاب، خاص طور پر پاکپتن کی سیاست میں اپنا نمایاں مقام بنایا۔ وہ صوبائی اسمبلی کی رکن (ایم پی اے) ہونے کے ساتھ ساتھ خواتین کی آواز، تعلیم، صحت، اور دیہی فلاح کے لیے ایک سرگرم کارکن کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ ان کی شفاف سیاست، اخلاقی دیانت، اور عوامی خدمت کا جذبہ انہیں روایتی سیاستدانوں سے ممتاز کرتا ہے۔
موتیا مسعود کا تعلق پاکپتن کی ایک علمی، روحانی اور خدمت خلق سے وابستہ خانوادے سے ہے۔ ان کے والدین نے نہ صرف تعلیم کو اہمیت دی بلکہ سماجی شعور بھی ان کی تربیت کا حصہ بنایا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم پاکپتن سے حاصل کی بعد ازاں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ دورانِ تعلیم وہ خواتین کے حقوق، تعلیمی اصلاحات اور یوتھ لیڈر شپ سے متعلق سرگرمیوں میں پیش پیش رہیں۔ موتیا مسعود نے سیاست کا آغاز بلدیاتی سطح سے کیا۔ ایک مقامی کونسلر کے طور پر انھوں نے خواتین کے بنیادی مسائل کو اسمبلی میں اجاگر کیا اور متعدد عملی اقدامات کیے۔ ان کی مقبولیت، دیانت داری اور مسئلہ فہمی نے انہیں جلد ہی پارٹی کی توجہ کا مرکز بنا دیا اور وہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار نامزد کی گئیں۔
سن 2023 کے انتخابات کے بعد، خواتین کی نشست پر ایم پی اے منتخب ہوئیں، جو ان کے عوامی رابطے، خدمت، اور سادگی کی دلیل تھی۔ صوبائی اسمبلی میں موتیا مسعود نے درج ذیل شعبوں میں خاصی خدمات سر انجام دی ہیں: دیہی خواتین کی تعلیم، صحت اور معاشی خودمختاری کے لیے کوشاں ہیں. کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد اور ہراسانی کے خلاف سخت مؤقف اپنایا۔ پاکپتن میں خواتین کے لیے ووکیشنل سینٹرز قائم کیے۔ دیہی اسکولوں کی اپ گریڈیشن، اساتذہ کی بھرتی اور بچیوں کی تعلیم کے لیے عملی اقدامات کیے۔ بنیادی مراکز صحت کی بہتری، خواتین ڈاکٹروں کی تعیناتی اور ماں و بچہ پروگرامز کا فروغ۔
نوجوانوں کے لیے اسکل ڈیولپمنٹ پروگرامز، کھیلوں کے مقابلے اور لیڈرشپ ورکشاپس کا انعقاد کیا۔ یونیورسٹی کیمپس کے قیام کے لیے مسلسل آواز اٹھائی۔ سادگی، دیانت اور خودداری ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں۔ اپنے حلقے میں وہ "باجی موتیا" کے نام سے جانی جاتی ہیں، ایک بہن، بیٹی اور راہ نما کی حیثیت سے۔ وہ ہمیشہ عوامی میل جول کو ترجیح دیتی ہیں اور کسی بھی مسئلے پر براہ راست عوام سے رابطہ رکھتی ہیں۔ پاکپتن، جو حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا شہر ہے، روحانیت کی سرزمین کہلاتا ہے۔ موتیا مسعود کو اس روحانی ورثے سے بھی گہری عقیدت ہے۔ وہ اکثر اجتماعی دعاؤں، میلاد اور خواتین کے روحانی حلقوں میں شرکت کرتی ہیں اور اپنی تقاریر میں اخلاص، نیت اور خلقِ خدا کی خدمت کو اپنا اصل مشن قرار دیتی ہیں۔
موتیا مسعود کا خواب ایک ایسا پاکپتن ہے جہاں:
ہر بچہ تعلیم یافتہ ہو،
ہر خاتون خودمختار ہو،
ہر مریض کو بہتر علاج میسر ہو،
اور ہر شہری کو انصاف اور عزت سے جینے کا حق حاصل ہو۔
وہ سیاست کو عبادت سمجھ کر اس راستے پر گامزن ہیں جہاں اقتدار نہیں بلکہ خدمت اصل مقصد ہے۔موتیا مسعود نہ صرف دخترِ پاکپتن ہیں بلکہ پاکستان کی بیٹیوں کے لیے ایک مثال اور امید کی کرن ہیں۔ وہ ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ اگر نیت صاف ہو، دل میں درد ہو اور ارادہ پختہ ہو، تو سیاست بھی اصلاح اور خدمت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
تبصرہ لکھیے