ہوم << بچے کو جسمانی سزا دینے کی شرعی حیثیت اور نتائج. ڈاکٹر مشتاق احمد

بچے کو جسمانی سزا دینے کی شرعی حیثیت اور نتائج. ڈاکٹر مشتاق احمد

حنفی فقہ کی کتب میں تعزیر کا لفظ تین مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے:
1. جب وہ بعض جرائم کی سزا پر تعزیر کا اطلاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی مقدار مقرر کرنے کا اختیار حکمران یا قاضی کے پاس ہے تو اس سے مراد سیاسہ ہے اور سیاسہ کے متعلق فقہاے کرام نے تصریح کی ہے کہ یہ سزا حق الامام، یعنی حکمران کے حق، کی خلاف ورزی پر دی جاتی ہے۔ یہ بھی فقہاے کرام نے تفصیل سے واضح کیا ہے کہ حکمران کا یہ حق اس کا ذاتی حق نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کے وکیل اور نمائندے کے طور پر اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے اس سزا کا تعلق عام فوجداری قانون سے ہے۔

2. حدود کی بحث میں بسا اوقات فقہاے کرام ذکر کرتے ہیں کہ کسی شرط کی عدم موجودگی کی وجہ سے، یا کسی قانونی رکاوٹ کی وجہ سے (جسے اصطلاحاً شبہہ کہا جاتا ہے)، حد کی سزا نہیں دی جاسکتی تو قاضی تعزیر کی سزا دے سکتا ہے۔ یہاں بھی لفظ تعزیر سیاسہ کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ اس تعزیر اور اول الذکر تعزیر میں فرق یہ ہوتا ہے کہ یہاں تعزیر کی مقدار حد سے زیادہ نہیں ہوسکتی جبکہ اول الذکر امور میں وہ تعزیر کے طور پر سزاے موت بھی دی جاسکتی ہے۔ تعزیر کی یہ قسم بھی فوجداری قانون کا حصہ ہے۔
3. تعزیر کا لفظ فقہاے کرام بعض اوقات تادیب اور تربیت کے مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ تعزیر جس کے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ یہ بھلے برے کی تمیز کی عمر تک پہنچنے والے عمر کے بچے کو دی جاسکتی ہے۔

میری ناقص راے میں عصرِ حاضر میں بہتر تفہیم کےلیے مناسب یہ ہے کہ پہلی قسم کو سیاسہ، دوسری قسم کو تعزیر اور تیسری قسم کو تادیب کہا جائے۔ پہلی دو قسموں میں چند فروق ہیں جو اس ضمیمے کے پہلے حصے میں ذکر کیے گئے ہیں۔ تاہم ان فروق کے باوجود ان میں یہ امر مشترک ہے کہ ان کی تنفیذ کا اختیار حکومت اور عدالت کے پاس ہے۔گویا ان دونوں کا تعلق فوجداری قانون سے ہے؛ البتہ سیاسہ کا دائرہ عمومی فوجداری قانون کا ہے جبکہ تعزیر کا اطلاق حدود اور قصاص کے ذیل میں ہوتا ہے۔ جہاں تک تعزیر کی تیسری قسم کا تعلق ہے، تو یہ باقاعدہ سزا (punishment-proper) نہیں ہے اور اس وجہ سے اسے فوجداری قانون سے الگ ذکر کرنا چاہیے۔ اس تادیبی کارروائی (disciplinary action) کا اختیار باپ کو نابالغ بچے پر، شوہر کو بیوی پر اور افسر کو ماتحت پر حاصل ہے۔
فوجداری قانون اور سزا کے متعلق تو تفصیلات عام طور پر ذکر کی جاتی ہیں لیکن اس تیسری قسم کے متعلق لوگوں کو بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ اس لیے اس کے متعلق چند اہم اصول یہاں ذکر کیے جاتے ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں "گھریلو تشدد" (domestic violence) کے بارے میں بہتر قانون بنایا جاسکتا ہے۔

پہلا اصول یہ ہے کہ یہ سزا نہیں بلکہ تادیب یا ڈسپلن کرنا ہے۔ امام کاسانی نے تصریح کی ہے :
وذلک بطریق التهذیب و التادیب، لا بطریق العقوبة، لأنها تستدعي الجنایة، وفعل الصبيّ لا یوصف بکونه جنایة۔
(یہ تہذیب اور تادیب کے طور پر ہے، نہ کہ سزا کے طور پر کیونکہ سزا کےلیے جرم کا ہونا ضروری ہے اور بچے کے فعل کو جرم نہیں کہا جاسکتا۔)
آگے وہ مزید تصریح کرتے ہیں کہ جو بچہ تمیز کی عمر تک نہ پہنچا ہو وہ تادیب کی اہلیت بھی نہیں رکھتا:
بخلاف المجنون والصبيّ الذی لا یعقل لأنهما لیسا من أهل العقوبة ولا من أهل التادیب۔
(پاگل اور اس بچے کو جو عقل نہیں رکھتا، اسے یہ تعزیر نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ دونوں نہ سزا کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی تادیب کی۔ )
دوسرا اصول یہ ہے کہ چونکہ یہ تعزیر سزا نہیں بلکہ محض تادیب کےلیے ہے، اس لیے تادیب دینے والا نہ ہی زیادہ زور سے مار سکتا ہے (جسے اصطلاحاً 'ضرب فاحش' کہتے ہیں) اور نہ ہی تادیب کے مقصد سے چھڑی کا استعمال کرسکتا ہے۔ علامہ شامی نے تصریح کی ہے: والمراد: ضربه بید، لا بخشبة۔ (مراد ہاتھ سے مارنا ہے نہ کہ لکڑی سے۔)

تیسرا اصول یہ ہے کہ اگر ہڈی ٹوٹ جائے یا جلد پھٹ جائے یا جلد پر نشان آجائیں تو یہ ضربِ فاحش ہے جسے تادیب نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ جرم ہے۔ علامہ شامی کہتے ہیں : وهوالذی یکسّر العظم أو یخّرق الجلد أو یسوّده۔
چوتھا اصول یہ ہے کہ چونکہ تادیب محض مباح امر ہے،نہ کہ واجب، اس لیے اسے اس طریقے سے کیا جانا لازم ہے کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے: تادیبه مباح فیتقید بشرط السلامة۔ چنانچہ اگر اس تادیبی کارروائی میں حد سے تجاوز کیا گیا (ضرب فاحش کی صورت ہوئی ) یا کوئی اور نقصان پہنچا تو الٹا یہ تادیبی کارروائی کرنے والا تعزیری سزا کا مستحق ہوجاتا ہے۔ علامہ محمد بن عبد اللہ التُمُرتاشی (م 1004ھ/1596ء) کہتے ہیں:
ادعت علی زوجها ضرباً فاحشاً وثبت ذلک علیه، عُزِّر۔ کما لوضرب المعلّم الصبيّ ضرباً فاحشاً۔
(بیوی نے شوہر پر ضرب فاحش کا دعوی کیا اور یہ اس کے خلاف ثابت ہوا تو اسے تعزیر دی جائے گی، جیسے اس صورت میں کیا جائے گا جب استاد نے بچے کو ضرب فاحش دی۔)
اسی طرح فقہاے کرام نے تصریح کی ہے کہ اگر تادیب کے نتیجے میں بچے کی موت واقع ہوجاتی ہے تو اس کی دیت واجب ہوتی ہے : المعلم إذا أدّب الصبیّ فمات منه، یضمن۔
پانچواں اصول یہ ہے کہ دیت کی معافی کا اختیار تو ورثا کو حاصل ہے لیکن جو تعزیری سزا یہاں ذکر کی گئی ہے اس کے بارے میں ذرا تامل سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اوپر مذکور پہلی قسم کی تعزیر ہے جس پر سیاسہ کے اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ یہ باقاعدہ سزا ہے اور اسے قاضی ہی نافذ کرسکتا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اگر یہ سیاسہ ہے تو اس کی معافی کا اختیار بچے کے ورثا کے پاس نہیں بلکہ قاضی یا حکمران کے پاس ہےجو مناسب سمجھے تو یہ تعزیری سزا معاف کرسکتا ہے اور مناسب سمجھے تو ورثا کی معافی کے باوجود یہ سزا نافذ کرسکتا ہے۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment