ہوم << نوجوان اور سوشل میڈیا - صیام عثمانی

نوجوان اور سوشل میڈیا - صیام عثمانی

آج کا دور ٹیکنالوجی اور معلومات کا دور ہے۔ جہاں زندگی کے مختلف شعبے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں، وہیں سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے جس نے دنیا کو ایک “عالمی گاؤں” میں تبدیل کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے رابطے آسان بنائے ہیں، معلومات تک فوری رسائی دی ہے اور اظہارِ خیال کے مواقع فراہم کیے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے: کیا نوجوان اس ٹیکنالوجی سے درست فائدہ اٹھا رہے ہیں یا اس کے منفی اثرات کا شکار ہو رہے ہیں؟ سوشل میڈیا کا پہلا بڑا فائدہ معلومات تک فوری رسائی ہے۔ نوجوان چند لمحوں میں دنیا بھر کی خبریں، سائنسی تحقیق، تعلیمی مواد اور نصیحت آموز ویڈیوز تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس سے ان کی فکری اور تعلیمی سطح بلند ہوتی ہے۔دوسرا پہلو، اظہارِ خیال کی آزادی ہے۔ نوجوان آج بلاگ، ویڈیوز، ٹوئٹس، اور پوسٹس کے ذریعے اپنے خیالات بیان کر سکتے ہیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ایک پلیٹ فارم میسر آ گیا ہے۔

تیسرا فائدہ، ربط و تعلق ہے۔ سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں رابطوں کو سہل بنا دیا ہے۔ نوجوان مختلف ممالک کے افراد سے تعلقات قائم کرتے ہیں، ثقافتوں سے واقف ہوتے ہیں اور ایک عالمگیر سوچ کو پروان چڑھاتے ہیں۔
جہاں سوشل میڈیا فوائد کا حامل ہے، وہیں اس کے نقصانات بھی قابلِ توجہ ہیں۔ نوجوان اکثر سوشل میڈیا کے نشے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وقت کا ضیاع، نیند کی کمی، پڑھائی سے دوری اور ذہنی انتشار اس کے عام اثرات ہیں۔

دوسرا نقصان، شخصیت کی ساخت پر ہوتا ہے۔ نوجوان اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ وہ دوسروں کی “مصنوعی” زندگیوں کو دیکھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ ظاہری نمائش اور لائکس کی دوڑ میں اپنی اصل صلاحیتوں کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔

تیسرا خطرہ، اخلاقی زوال کا ہے۔ سوشل میڈیا پر فحاشی، بے حیائی، جھوٹ، دھوکہ دہی اور منفی مواد کی بھرمار ہے۔ کم عمر ذہن ان چیزوں سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات یہ ان کی زندگی کو تباہ کن راہ پر ڈال دیتا ہے۔ سوشل میڈیا ایک طاقتور ہتھیار ہے، جسے نوجوان بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے لیے بھی۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔

اگر صحیح رہنمائی، اعتدال، اور نیت ہو تو سوشل میڈیا علم، ترقی اور اخلاقی شعور کے فروغ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اس کے استعمال میں توازن پیدا کریں، تاکہ وہ خود بھی سنوریں اور معاشرہ بھی۔