تالو، جسے انگریزی میں کلیفٹ لیپ اینڈ پلیٹ کہتے ہیں، ایک پیدائشی عارضہ ہے جو بچوں کے ہونٹوں اور منہ کی ساخت کو متاثر کرتا ہے۔ یہ مسئلہ دنیا بھر میں پایا جاتا ہے، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اس کی شرح کچھ زیادہ ہے۔ اس کی وجوہات میں غذائی قلت، ماں کی صحت کا خیال نہ رکھنا، اور جینیاتی عوامل شامل ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں اس عارضے کے بارے میں آگاہی کی کمی ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں اور ان کے خاندانوں کو سماجی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تالو کی دو اقسام ہیں:
کلیفٹ لیپ (ہونٹ کاٹا ہوا) اور کلیفٹ پلیٹ (تالو کاٹا ہوا)۔ کچھ بچوں میں دونوں عارضوں کی شکلیں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ مسئلہ حمل کے ابتدائی ہفتوں میں جنین کی نشوونما کے دوران ہونٹ یا تالو کے مکمل طور پر جوڑ نہ پانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی صحیح وجہ ابھی تک مکمل طور پر سامنے نہیں آئی، لیکن کچھ عوامل جیسے ماں کی غذائی کمی (خاص طور پر فولک ایسڈ کی کمی)، تمباکو نوشی، یا بعض ادویات کا استعمال اس کے امکانات بڑھا سکتے ہیں۔
پاکستان میں تالو کے شکار بچوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے تو ان کی خوراک اور نگلنے میں دشواری ہوتی ہے، کیونکہ تالو کی خرابی کی وجہ سے بچہ دودھ یا کھانا صحیح طریقے سے نہیں پی سکتا۔ اس کے علاوہ، تقریر میں مشکلات ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے بچے کو بولنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ مسئلہ بڑھ کر سماجی تنہائی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جسمانی عارضوں کے حوالے سے لوگوں کے رویے اکثر غیر حساس ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ بچے اور ان کے والدین کو شرمندگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لیکن اچھی بات یہ ہے کہ جدید میڈیکل سائنس کی بدولت تالو کا علاج ممکن ہے۔ سرجری کے ذریعے ہونٹ اور تالو کو درست کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں، بچے کی پیدائش کے بعد پہلے سال میں ہی سرجری کر دی جاتی ہے۔ پاکستان میں کئی سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں یہ علاج مفت یا کم قیمت پر دستیاب ہے۔ مثال کے طور پر، جناح ہسپتال، لاہور اور انڈس ہسپتال، کراچی جیسی بڑی ہسپتالوں میں اسپیشلسٹ ڈاکٹرز اس سرجری کو کامیابی سے انجام دیتے ہیں۔
کچھ این جی اوز جیسے "سپینا بائیفیدا اینڈ ہائیڈروسیفالس فیلیٹ آف پاکستان" بھی غریب خاندانوں کو مفت علاج فراہم کرنے میں مدد کرتی ہیں۔سرجری کے بعد بچے کو تقریر تھراپی کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے تاکہ وہ صحیح طریقے سے بول سکے۔ اس کے علاوہ، دانتوں کی صحت کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے، کیونکہ تالو کی خرابی سے دانتوں کی ترتیب متاثر ہو سکتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کی مکمل طبی نگرانی کریں اور ڈاکٹرز کے مشورے پر عمل کریں۔ پاکستانی معاشرے میں تالو کے بارے میں آگاہی بڑھانے کی شدید ضرورت ہے۔
لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ کوئی لعنت یا بدشگونی نہیں ہے، بلکہ ایک طبی مسئلہ ہے جس کا علاج موجود ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت اور سماجی اداروں کو چاہیے کہ وہ غریب خاندانوں کو مفت علاج کی سہولیات فراہم کریں تاکہ کوئی بچہ علاج سے محروم نہ رہے۔ اگر آپ کا کوئی جاننے والا تالو کے مسئلے سے دوچار ہے، تو اسے حوصلہ دیں اور علاج کروانے میں مدد کریں۔ یاد رکھیں، صحیح علاج اور دیکھ بھال سے یہ بچے بھی عام زندگی گزار سکتے ہیں اور معاشرے کے کارآمد فرد بن سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے