600x314

سی سی ڈی،جرائم کی بیخ کنی کی نئی حکمتِ عملی – سلمان احمد قریشی

پاکستان میں جرائم کی روک تھام اور قانون کی بالادستی ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے، مگر جب خلوصِ نیت، پیشہ ورانہ مہارت اور جدید حکمتِ عملی یکجا ہو جائیں تو تبدیلی ممکن ہو جاتی ہے۔ سی سی ڈی (کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ) کا قیام بھی اسی مثبت سوچ کا تسلسل ہے، جس کا مقصد منظم جرائم، منشیات، چوری، ڈکیتی اور دیگر سماجی برائیوں کے خلاف مؤثر کارروائی کو یقینی بنانا ہے۔

سی سی ڈی، کریمنل انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کی جگہ کام کر رہا ہے، جسے جدید ٹیکنالوجی اور وسائل سے لیس کیا گیا ہے۔ پنجاب پولیس کا محکمہ سی آئی اے طویل عرصے سے سنگین جرائم جیسے قتل، ڈکیتی اور منشیات کی اسمگلنگ کی تفتیش کرتا رہا ہے۔ تاہم، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 2025 میں امن و امان کی خراب صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے سی آئی اے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی کارکردگی تسلی بخش نہیں اور منظم جرائم سے نمٹنے کے لیے ایک جدید، مؤثر اور ٹیکنالوجی سے آراستہ ادارے کی ضرورت ہے۔

سی سی ڈی کو 4000 سے زائد افسران و اہلکاروں پر مشتمل ایک مضبوط فورس بنایا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد سات سنگین منظم جرائم قتل، ڈکیتی، قبضہ مافیا، گینگ نیٹ ورکس، منشیات، اسلحے کی نمائش، اور ڈالا کلچرپر قابو پانا ہے۔ یہ ادارہ ڈرون سرویلنس، 21 ہزار سیف سٹی کیمروں، اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے جرائم کی مؤثر نگرانی کرتا ہے۔ ڈرونز جائے وقوعہ پر پانچ منٹ میں پہنچ کر شواہد اکٹھے کرتے ہیں جبکہ اے آئی کی مدد سے ڈیٹا مینجمنٹ اور تجزیہ ممکن ہوتا ہے۔ سی سی ڈی کے چھ سیلز: ہیڈ منی، کریمنل ریکارڈ آفس، اشتہاری ملزمان (POs)، انٹیلیجنس، جرائم کی تفتیش، اور چالان ایک مربوط نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ محکمے کو نئی عمارات، گاڑیاں، اسلحہ اور خصوصی الاؤنسز بھی دیے گئے ہیں۔

پولیس آرڈیننس 2002 میں ترمیم کرکے آرڈیننس 2025 کی منظوری دی گئی، جس کے تحت ایڈیشنل آئی جی سہیل ظفر چٹھہ کو سی سی ڈی کا سربراہ تعینات کیا گیا۔سی سی ڈی نے جرائم کے خلاف منظم اور مربوط حکمتِ عملی کے ساتھ نمایاں کارکردگی دکھائی ہے۔ چوری، ڈکیتی، قتل، اغوا، بھتہ خوری، اور زیادتی کے کیسز میں مؤثر تفتیش جاری ہے۔ دیگر 18 سنگین مقدمات بھی سی سی ڈی کے دائرہ اختیار میں آ چکے ہیں۔ کسی بھی اہم مقدمے کی تفتیش مقدمہ مدعی کی درخواست پر سی سی ڈی بورڈ کے ذریعے منتقل کی جاتی ہے۔

پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جس پر عوام کا اعتماد بحال رکھنا بظاہر مشکل نظر آتا ہے، مگر جب اس کی قیادت مخلص اور باصلاحیت افراد کے ہاتھ میں ہو تو یہی ادارہ عوام کا محافظ بن جاتا ہے۔ ضلع اوکاڑہ کے موجودہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر راشد ہدایت انہی روشن مثالوں میں سے ہیں۔ ان کی قیادت عوام دوست، شفاف اور مؤثر ہے۔ ان کا انداز قیادت ان کے نام کی حقیقی عکاسی کرتا ہے: "راہ دکھانے والا، رہنما”۔ڈی پی او راشد ہدایت نے کھلی کچہریوں کے تسلسل سے انعقاد سے نہ صرف عوام کو براہِ راست انصاف مہیا کیا بلکہ پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے بھی کم کیے۔

ان کی قیادت میں پولیس اہلکاروں کے رویے میں نرمی، فوری رسپانس، اور جرائم کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی جیسے مثبت رجحانات ابھرے ہیں۔ ضلع میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی، تھانوں میں شفافیت اور رشوت و سفارش کے خلاف سخت رویہ ان کی اصولی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ان کی سب سے بڑی خوبی ’’رسائی‘‘ ہے؛ وہ عوام کے بیچ رہتے ہیں، اُن کے دکھ سُنتے اور حل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف ایک افسر نہیں، بلکہ ضلع میں انصاف، تحفظ اور اُمید کی علامت بن چکے ہیں۔

اوکاڑہ میں سی سی ڈی کی قیادت مہر یوسف کر رہے ہیں، جو نہ صرف پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں بلکہ عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔ مختصر مدت میں ان کی سربراہی میں منشیات فروشوں، ڈاکوؤں کے نیٹ ورک، اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کامیاب کارروائیاں کی گئیں۔ خفیہ معلومات کی بنیاد پر بروقت چھاپے اور عوامی شکایات پر فوری کارروائی سی سی ڈی کا طرۂ امتیاز بن چکی ہے۔اعداد و شمار اس تبدیلی کی گواہی دیتے ہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت موجودہ سال اوکاڑہ میں اسٹریٹ کرائم، چوری، اور گاڑیوں کی چوری میں واضح کمی آئی ہے۔ سی سی ڈی کی بروقت کارروائیاں نہ صرف جرائم پیشہ افراد کے لیے خطرہ بن چکی ہیں بلکہ عوام کے لیے اطمینان کا باعث بھی ہیں۔

مہر یوسف کی ٹیم مقامی پولیس کے ساتھ مکمل ہم آہنگی سے کام کر رہی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جرائم کا قلع قمع کر رہی ہے۔تاجر، سماجی حلقے اور عام شہری سی سی ڈی کی کارکردگی کو بھرپور سراہ رہے ہیں۔ اگر یہی جذبہ برقرار رہا تو ضلع اوکاڑہ پورے پنجاب کے لیے ایک ماڈل ڈسٹرکٹ بن سکتا ہے۔تونسہ شریف کے قریب سی سی ڈی نے سی ٹی ڈی کے ساتھ مشترکہ آپریشن میں "فتنۃ الہندوستان” کے پانچ دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا، جبکہ آٹھ زخمی ہوئے۔ بعدازاں علاقے میں کلین اینڈ سرچ آپریشن کیا گیا۔ ایک اور کارروائی میں بہاولپور میں خفیہ اطلاع پر دہشت گرد مارا گیا اور بڑا سانحہ ناکام بنا دیا گیا۔ ان کامیاب کارروائیوں پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے فورسز کو شاباش دی۔

اگرچہ سی سی ڈی کی کامیابیاں سوشل میڈیا پر دھوم مچا رہی ہیں، لیکن ساتھ ہی کچھ بے بنیاد افواہیں بھی پھیلائی جا رہی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام الناس کو چاہیے کہ غیر مصدقہ خبروں پر یقین نہ کریں اور سی سی ڈی پر اعتماد رکھیں، کیونکہ یہ ادارہ اُن ہی کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے۔ایڈیشنل آئی جی سہیل ظفر چٹھہ نے واضح پیغام دیا ہے”پنجاب سن لے کوئی وڈیرا، بدمعاش، کن ٹوٹا، ڈاکو، چور، قبضہ گروپ، بھتہ خور یا غنڈہ سی سی ڈی کی نظر سے نہیں بچ سکتا۔ میری فورس ہر بدمعاش اور غنڈے کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔”

ان کا کہنا ہے کہ منفی پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہوں، نتائج میڈیا اور سوشل میڈیا پر واضح ہیں۔ ہمیں سی سی ڈی کا ساتھ دینا ہے،کیونکہ یہ ہمارے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔سی سی ڈی کا قیام محض ایک ادارے کا اضافہ نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک نئے نظام اور قانون کی بالادستی کی جدوجہد کا مظہر ہے۔ اگر یہی جذبہ، یہی عزم اور یہی شفافیت برقرار رہی تو وہ دن دور نہیں جب اوکاڑہ جیسے اضلاع پنجاب ہی نہیں، پورے پاکستان کے لیے ماڈل پولیسنگ کی روشن مثال بن جائیں گے۔ سہیل ظفر چٹھہ، راشد ہدایت اور مہر یوسف جیسے آفیسرز ہماری امید، ہماری طاقت اور جرائم کے خلاف جنگ کے ہراول دستے ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے۔

مصنف کے بارے میں

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment