ہوم << قربِ حقیقی - نعیم اللہ باجوہ

قربِ حقیقی - نعیم اللہ باجوہ

قرب کا مفہوم انسان کی عقل کو مفلوج کر دینے والا ہے، اور فاصلہ اکثر دھوکہ ہوتا ہے۔ مچھلی اگر سمندر کو باہر سے دیکھے گی، مر جائے گی، لیکن اگر وہ اندر ہو، تو زندہ رہے گی، یہ محض ایک سادہ حیاتیاتی حقیقت نہیں، بلکہ ایک گہرا روحانی استعارہ ہے۔

انسان کی روح بھی اسی مچھلی کی مانند ہے۔ جب وہ رب کو باہر سے دیکھنے کی، سمجھنے کی، ماپنے کی، جانچنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ اپنے ہی تصور میں ڈوب کر ہلاک ہو جاتا ہے۔ کیونکہ رب کو دیکھا نہیں جا سکتا، رب کو جیا جاتا ہے؛ وہ کوئی منظر نہیں جسے آنکھ دیکھے، بلکہ ایک حضوری ہے جو ہر لمحے تیرے وجود میں سانس لیتی ہے۔ رب کو سمجھا نہیں جا سکتا، رب کو فقط محسوس کیا جاتا ہے؛ وہ عقل و منطق کے دائرے سے ماورا، دل کی دھڑکنوں، آنکھ کی نمی، اور روح کی خاموشی میں بولتا ہے۔ رب کو پکارا نہیں جاتا، بلکہ رب خود پکارتا ہے؛ تیری بے قراری، تیری سجدوں کی نمی، تیری تڑپ—یہ سب اسی کی طرف سے بھیجی گئی دعوت ہے۔ وہی تجھے اپنی طرف بلاتا ہے، وہی دل میں آنے والا شوق، وہی آنکھ میں اترتی روشنی، اور وہی روح میں جاگتی محبت ہے۔ رب کو پانے کے لیے نہ آنکھ کافی ہے، نہ عقل، نہ زبان؛ بس دل کو خالی کر، خود کو بھول، اور خاموش ہو جا—وہ خود بول اٹھے گا، "میں ہوں، تیرے رگِ جاں سے بھی قریب۔"
صوفیاء کرام نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا کہ "جو رب کو تلاش کرے گا، وہ رب سے دور ہو جائے گا۔"

تلاش کرنے والا جب تک رب کو منفصل سمجھتا ہے. اسے پانے کا خواب دیکھتا ہے، وہ دراصل اپنے اندر موجود سمندر سے باہر آ کر اسے دیکھنے کی جسارت کرتا ہےاور یہی اس کی روح کی موت ہے۔مچھلی سمندر میں ہے، مگر وہ کبھی سمندر کو نہیں دیکھتی، وہ صرف جیتی ہے۔ وہ اس کا حصہ ہے، اس میں تحلیل ہے۔ اسی طرح، انسان بھی اگر رب کے قرب میں جینا سیکھ لے، رب کو محسوس کرنا سیکھ لے، رب کی موجودگی کو اپنی سانسوں میں، اپنی نگاہوں میں، اپنے وجود کے ذرّے ذرّے میں محسوس کرے، تو اسے رب سے جدا ہونے کی حاجت نہیں پڑتی۔ وہ فاصلوں کا قائل نہیں رہتا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسان اکثر اپنے شعور کو اپنا رب بنا لیتا ہے۔ وہ اپنی عقل سے خدا کو جانچنا چاہتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جس کی تلاش میں وہ نکلا ہے، وہ پہلے ہی اس کے اندر ہے۔ جیسے مچھلی یہ بھول جائے کہ وہ پانی میں ہے، اور پانی کو باہر سے دیکھنے نکلے۔ وہ گھبرا جائے، تڑپے، بے قرار ہو، اور بالآخر مر جائے۔ یہی انسان کا حال ہے جب وہ اپنے وجود میں رب کی موجودگی سے غافل ہو جاتا ہے۔

جب صوفی یہ کہتا ہے کہ میں وہ ہوں جسے میں تلاش کرتا تھا، تو وہ دراصل یہی کہتا ہے کہ میں اس سمندر میں ہوں جس کا نظارہ کرنے کی خواہش مجھے مار رہی تھی۔ اس قرب کو محسوس کرنا ہی اصل نجات ہے، دیکھنا نہیں۔ انسان جب خود کو فنا کرتا ہے، تب ہی رب کی بقا کو محسوس کرتا ہے۔ یہ قرب فنا کی گزرگاہ سے ہو کر آتا ہے۔ جیسا کہ بایزید بسطامی نے کہا:
"سب کچھ قرب میں ہے، مگر میں ہوں جو درمیان میں حائل ہوں۔"

اگر انسان اپنی خودی، اپنی خواہش، اپنا تجزیہ، اپنی منطق، اپنی تمنا، اپنے سوالات کو ایک لمحے کے لیے ساکت کر دے، تو وہ سمندر میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ زندہ ہو جاتا ہے۔قرب کا اصل راز یہی ہےکہ رب کو دیکھنے کی نہیں، رہنے کی کوشش کرو۔ رب کو تلاش مت کرو، خود کو کھو دو۔ رب کو پکارنے سے پہلے خاموش ہو جاؤ، تاکہ اس کی پکار سن سکو۔ رب کو پانے کے لیے دور مت جاؤ، اندر اتر جاؤ۔ کیونکہ مچھلی جب باہر آئے گی، مر جائے گی۔

اور یہی وہ روحانی موت ہے جس سے اولیاء ہمیشہ پناہ مانگتے ہیں: کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم رب کو تلاش کرتے رہیں. جب کہ وہ ہمارے اندر، ہماری سانسوں میں، ہمارے احساسات میں، ہمارے دل کے دھڑکنے میں چھپا ہو۔ کبھی کبھی سب سے بڑا فاصلہ وہ ہوتا ہے… جو بہت زیادہ قرب کے باعث نظر نہیں آتا۔