ٹھنڈا پانی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں،رسول اللہ ﷺ کی دعا مبارکہ ہے :
”اے اللہ!میرے دل میں اپنی محبت،میری جان اورمیرے اہل اور ٹھنڈے پانی کی محبت سے بھی زیادہ پیاری بنا دے".(جامع الترمذی)
اس فرمان نبوی ﷺمیں اللہ تعالیٰ کی محبت کو ٹھنڈے پانی کی محبت سے زیادہ کرنے کی دعا کی گئی ہے۔ جس سے پتہ چلا کہ ٹھنڈا پانی بڑی عظیم نعمت ہے۔پانی پلانے کو احادیث مبارکہ میں ”صدقہ جاریہ“ فرمایا گیا جس کا ثواب مرنے کے بعد انسان کو ملتا رہتا ہے، نلکا،ٹینکی، کنواں، ٹیوب ویل وغیرہ کی شکل میں غریبوں اور ناداروں کے لیے پانی کا انتظام کرنا مرحومین کے ایصال ثواب اور ان کے لئے اجر ِآخرت اورصدقہ جاریہ ہوسکتا ہے۔
حضرت سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ:
اے اللہ کے رسول میری والدہ وفات پاگئی ہیں اور ان کی طرف سے کونسا صدقہ افضل رہے گا؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا”پانی کا صدقہ“چنانچہ انہوں نے ایک کنواں کھدواکر وقف کردیا اور کہا یہ سعد کی والدہ کے ثواب کے لئے ہے۔(سنن ابی داؤد)
پانی پلانا بہترین صدقہ بھی ہے پیاسوں کی سیرابی کا یہ عمل ایک بہترین صدقہ ہے جس کی ترغیب حدیث مبارکہ میں دی گئی ہے چنانچہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی ا للہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہﷺسے عرض کیا:آقاکونسا صدقہ افضل ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”بہترین صدقہ پانی پلانا ہے.“
کیا تم نے جہنمیوں کے اِس قول کو نہیں سنا جب انہوں نے اہل جنت سے مدد چاہی اور جنتیوں سے کہا
”ہم پر تھوڑا ساپانی ڈال دو یا کچھ اس چیزمیں سے دو جو تمہیں اللہ نے رزق دیا ہے۔ (سورۃ الاعراف: 50)
ابن ماجہ میں سید ہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
”جہان پانی کی کثرت ہو اس جگہ اگر کسی نے پانی پلایا تو اس کو غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا اورجہاں پانی کی کثرت نہ ہو(یعنی بمشکل پانی ملے)ایسی جگہ اگر کسی نے پانی پلایا تو اس کو ایسا ثواب ملتاہے جیسے مردہ کو زندہ کردیا.“
(سنن ابن ماجہ)
پانی پلانے کا عمل نہایت معمولی ہونے کے باوجود ثواب،اجر آخرت اور رضائے الٰہی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ بروزِ محشر مغفرت وبخشش کا باعث ہوتا ہے صرف اس عمل کی وجہ سے انسان جہنم سے خلاصی حاصل کرکے جنت کا مستحق ہوسکتاہے اس مضمون کو صحیح بخاری کے اس واقعہ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی چل رہا تھا اس دوران اسے پیاس لگی وہ ایک کنویں میں اُترا اور اس نے پانی پیا۔کنویں سے باہر نکلا تو دیکھا ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے کیچڑ چاٹ رہا ہے.
اس نے کہا کہ اس کو بھی ویسی ہی پیاس لگی ہے جیسی مجھے لگی تھی۔چنانچہ اس نے موزہ پانی سے بھرا، پھر اس کو منہ سے پکڑا پھر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکی قبول فرمائی اوراس کو بخش دیا لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ!کیا چوپائے (جانوروں کے ساتھ نیکی اوررحم وکرم کے عمل) میں بھی ہمارے لئے اجر ہے آپ نے فرمایا ”یعنی ہر تر جگر والے یعنی جاندار میں ثواب ہے.(صحیح بخاری)
حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:”جو مسلمان کسی ننگے کو کپڑا پہنائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کاسبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے کو کھانا کھلائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا پھل کھلائے گا۔ اور جو مسلمان کسی پیاسے کو پانی پلائے تو اس کو اللہ تعالیٰ جنت کی شراب پلائے گا۔“(سنن ابی داؤد)
امام بیہقی المتوفی 458ھ نے ”السنن الکبری“میں ایک روایت نقل کی ہے۔ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیں جومجھے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے قریب اور جہنم سے دور کردے۔ آپ ﷺنے فرمایا:کیا تم ان دو چیزوں پر عمل کرو گے اس نے عرض کیا:ہاں،آپ نے فرمایاانصاف کی بات کہو اور زائد چیزیں دوسروں کومرحمت کرد و۔اعرابی نے عرض کیا اللہ کی قسم میں نہ تو انصاف کی بات کرسکتا ہوں اور نہ اپنے مال سے زائدچیز کسی کو دے سکتا ہوں۔پھر آپ نے فرمایا کھانا کھلاؤاور سلام کرو۔اس نے عرض کیا: یہ بھی مشکل ہے، پھرآپﷺنے فرمایاکیا تیرا اپنا اونٹ ہے اس نے عرض کیا جی ہاں۔
آپ نے فرمایا!جاؤ اپنااونٹ اور مشکیزہ لو پھر”ان لوگوں کے گھر جاؤجن کو کبھی کبھی پانی ملتاہے اُ ن کو پانی پلاؤشاید کہ تمہارااونٹ ہلاک ہو اور تمہارا مشکیزہ پھٹ جائے اس سے پہلے کہ تمہارے لئے جنت واجب ہوجائے گی“۔راو ی کہتے ہیں کہ وہ دیہاتی تکبیر کہتا ہوا چلا۔کہتے ہیں کہ اس کے مشکیزہ کے پھٹنے اور اونٹ کے ہلاک ہونے سے پہلے وہ شہادت حاصل کرچکا۔(السنن الکبری)
نہ صرف انسانوں کی تشنگی کا سامان کرنے پرہی ثواب ملتا ہے بلکہ کسی پیاسے، سلکتے بلکتے اور پیاس کی شدت سے تڑپتے ہوئے جانور کے لئے پانی پلانے اور سیرابی کا سامان کرنے پر اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی اکرمﷺ کے مرض الوصال میں حاضر خدمت ہوا میں نے رسول اللہ ﷺسے سوالات پوچھنا شروع کر دئیے حتیٰ کہ میرے پاس سوالا ت ختم ہوگئے تو نبی اکرمﷺنے فرمایا:”کچھ اور یاد کرو“اُن سوالات میں سے ایک سوال میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ یارسول اللہ ﷺ وہ بھٹکتے ہوئے اونٹ جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا جب کہ میں نے وہ پانی اپنے اونٹوں کے لئے بھرا ہے۔
حضور اکرم ﷺنے فرمایا ہاں ہر تر جگر رکھنے والے (کے ساتھ رحم وکرم اورنیکی والے عمل)میں اجر وثواب ہے۔(مسند احمد)
رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کے لئے وعید بھی سنائی ہے جو اپنی ضرورت سے زیادہ پانی کو دوسروں پر خرچ کرنے سے بخل سے کام لیتے ہیں اور دوسروں کو فائدہ اٹھانے سے روکتے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ہی ان پر نظر رحمت فرمائے گا۔ایک وہ شخص جو جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان تجارت فروخت کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی قیمت حاصل کرسکے۔
دوسرا وہ شخص جونماز عصر کے جھوٹی قسم کھائے تاکہ کسی مسلمان کو مال ہڑپ لے اور تیسرا وہ شخص جو اپنی ضرورت سے زائد پانی کو لینے سے دوسروں کو روکے،ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ جس طرح تم نے دنیا میں زائد پانی سے دوسروں کو روکا تھا جب کہ اس میں تمہارے عمل کا کوئی دخل نہیں تھا، آ ج میں تم کو اپنے فضل سے محروم رکھوں گااور اپنا فضل تم پر نہیں کروں گا(صحیح بخاری) حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ان سے فرمایا: اے سعد! کیا میں تمہیں ایسا ہلکا صدقہ جس میں بوجھ بالکل کم ہو نہ بتاؤ؟ فرمایا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسولؐ! فرمایا: ”پانی پلانا؛ چنانچہ حضرت سعد نے پانی پلایا۔(المعجم الکبیر للطبرانی،حدیث:5247)
صاف،میٹھااور ٹھنڈاپانی پلانے سے پیاسے انسان کو بہت راحت ملتی ہے،اور یہی پانی تلخی اور پیاس میں بہت عمدہ بھی لگتا ہے۔اس لئے پانی پلانے میں اس کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کہ جس سے پینے والوں کو راحت بھی ملے اور سخت گرمی میں سکون بھی حاصل ہو۔نبی کریمﷺ کوٹھنڈا پانی پسند تھا،حضرت عائشہ ؓ فرماتے ہیں: آپ ﷺ کو پینے میں ٹھنڈا اورمیٹھا پانی محبوب تھا.(ترمذی:1813)
اسی لئے آپ ﷺ کیلئے اس کا اہتمام بھی کیاجاتا تھا۔چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں آپﷺ کے لئے بیوت ِ سقیا سے میٹھا پانی لایاجاتا تھا.(ابوداؤد:3248)
اسلام نے بہت سے اعمال کو انسان کے لئے سعادت ونجات،بخشش ومعافی کا ذریعہ بنایا ہے،چنانچہ ان ہی میں سے ایک ”پانی پلانا“بھی ہے،جس کے چند فضائل ذکر کئے گئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پانی پلانا جہاں ایک انسانی خدمت ہے وہیں انسان کیلئے اجرو ثواب کے حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے،ناجانے کتنے پیاسے انسان اپنی تشنگی کو بجھاکر اور پیاس کو مٹاکر اس خدمت کرنیوالے کو دعائیں دیتے ہیں اور وہ جن سے متعلق ہوکر اس خدمت کو انجام دیتا ہے اس کی بھلائی کیلئے رب سے التجائیں کرتے ہیں. انسانوں کی خدمت کرکے ہی انسان قرب ِ خدا وندی کو حاصل کرسکتا ہے اسی لئے ایک مومن کو بالخصوص ایسے موقعوں کو نہیں چھوڑنا چاہیے.
جن کے ذریعہ وہ اللہ کا قرب حاصل کرسکے،اگر وہ براہ ِ راست پیاسوں کو پلاسکتا ہے تو بہت اچھا ہے لیکن اگر اس سے یہ ممکن نہ ہوتو وہ ان لوگوں کا ساتھ دے،ان کی مددکرے جو اس کارِ خیر کو انجام دیتے ہیں،اپنے مال کو اس خدمت کے لئے پیش کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے حصے میں وہ تمام اجر وثواب عطافرمائیں گے۔چوں کہ بہت سے کام انسان اپنی خواہش کے باوجود بھی نہیں کرسکتا اپنی دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے، اس لئے نیکیوں کے انجام دینے میں کم از کم اپنے مال کے ذریعہ اسے اس میں شریک ہونا چاہیے اور کسی بھی کارِ خیر کو انجام دینے میں اس کا حصہ بننا چاہیے۔
بہر حال پیاسوں کو پانی پلانا،،خشک لبوں کو سیرابی کاسامان کرنا، انسانوں کی پانی کی ضروریات کی تکمیل یہ نہایت اجر وثواب اور بلندی درجات کا باعث ہے، نہ صرف انسانوں کو پانی پلانا بلکہ پیاسے جانوروں کے لیے پانی کانظم کرنا بھی ثواب اور اجر آخرت کا باعث ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس طرح کے نیک اعمال کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
تبصرہ لکھیے