ہوم << سیاحت یا قیامت - عاصمہ حسن

سیاحت یا قیامت - عاصمہ حسن

پاکستان کے شمالی علاقہ جات خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں ـ دلکش نظارے ' وادیاں ' پہاڑ' پربت' جھرنے ' دریا' گلیشئیرز ' پھر ٹھنڈی ہوائیں سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ـ میدانی اور شہری علاقوں کے گرمی کے ستائے لوگ جیسے ہی گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں ان خوبصورت جگہوں کا رُخ کرتے ہیں ـ یہ رجحان گزشتہ چند سالوں سے زیادہ زور پکڑ گیا ہے ورنہ پہلے لوگ اپنے اردگرد یا قریبی تفریحی مقامات خاص طور پر تاریخی مقامات کی سیر کو جاتے تھے ـ لمبے اور تھکا دینے والے پُر خطر سفر سے گریز ہی کرتے تھے ـ شاید وی لاگرز کی سوشل میڈیا اور ان کے دیگر چینلز پر وڈیوز نے لوگوں کے دلوں میں چھپی خواہش کو ہوا دی ہے کہ وہ بھی اپنے پیارے دیس کی وادیوں میں گھومیں اور اس کے حسن سے لطف اندوز ہوں ـ ظاہر ہے یہ ایک فطری عمل ہے ـ

ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئیے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات ترقی یافتہ ممالک کی طرح فروغ یافتہ نہیں ہیں ـ جہاں آج کے اس دور میں بھی مواصلات کا کوئی منظم نظام نہیں ہے تو آپ اور کیا توقع کر سکتے ہیں ـ ان علاقوں میں کسی بھی کمپنی کا انٹرنیٹ صحیح طور پر کام نہیں کرتا ' اگر وہاں کی سم لی جائے تو اس کا انٹرنیٹ بھی صرف اسی ہوٹل کی لابی تک ہی محدود ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ پہلی منزل تک کچھ وقت کے لیے دستیاب ہوتا ہے ـ اس کے علاوہ کوئی ایسا انتظام نہیں جس کی بدولت مشکل یا ضرورت کے وقت کال کی جا سکے ـ پھر کسی حادثے کی خبر کیسے حکام یا انتظامیہ یا امدادی ٹیم تک پہنچ سکے گی ـ
شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے اس موسم میں کمانے کے لیے جگہ جگہ بلند و بالا ہوٹل تعمیر کر دیے گئے ہیں جس سے وہاں کی قدرتی خوبصورتی تو خراب ہوئی ہی ہے لیکن ہر جگہ عمارتیں ہونے کی وجہ سے ہوٹل کے کمرے سے حسین نظارے بھی ناپید ہو گئے ہیں ـ کچھ لوگوں نے سیاحوں کے شوق کو دیکھتے ہوئے دریا اور جھیلوں کے اوپر ہوٹل بنا لیے ہیں تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ نظاروں سے محظوظ کیا جائے اور کرایہ بھی اپنی مرضی کا لیا جائے لیکن ایسے میں قدرتی آفات کا عنصر یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے جو کئی جانوں کے نقصان کا باعث بنتا ہے ـ
حالیہ متعدد حادثوں سے ہمیں آئندہ کے لیے سبق سیکھنا چاہئیے ـ سب سے پہلے تو بطور سیاح ہماری اپنی کچھ ذمہ داریاں ہیں جن سے بھی ہمیں منہ نہیں موڑنا چاہئیے ـ

سب سے پہلے جب سیر و سیاحت کا پروگرام ترتیب پا جائے تو ان علاقوں کے موسم کی پوری معلومات حاصل کریں ـ بارشوں کے موسم میں کبھی سفر کا ارادہ نہ کریں ـ یہ بارشیں اور برفباری لگتی بہت پیاری ہیں لیکن بہت خطرناک ہو جاتی ہیں ـ ان علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے پھر پانی کا بہاؤ بہت زیادہ تیز ہوتا ہے ـ خدانخواستہ اگر گلیشیر پھٹ جائے تو سیلابی صورتحال بن جاتی ہے اور منہ زور پانی کے آگے کسی کی نہیں چلتی' سب بے بس ہو جاتے ہیں ـ جانے سے پہلے راستے میں جہاں جہاں رکنا ہے وہاں پہلے ہی بکنگ کروا لیں تاکہ عین وقت پر مشکل نہ ہو ـ
اپنی گاڑی جو آپ نے لے کر جانی ہے اس کا مکمل معائنہ کروائیں ' انجن ' ٹائر اور بریک وغیرہ چیک کروائیں پرانے ٹائر زموٹر وے اور ان پتھریلے علاقوں میں نہیں چل سکتے مزید یہ کہ پہاڑوں پر چڑھائی اور اترائی میں بریک کا استعمال ہوتا ہے اس لیے گاڑی کی کلچ اور بریک لازمی چیک کروائیں ـ پھر اتنے ہی لوگ گاڑی میں ہونے چاہئیے جتنی کہ گنجائش ہے زیادہ سواریاں پھر سامان کا بوجھ ان علاقوں میں مشکل کو بڑھا دیتا ہے ـ گاڑی قابو میں نہیں رہتی پھر ایک طرف بلند و بالا پہاڑ اور دوسری طرف کھائی ' ذرا سی غفلت کئی جانوں کا نقصان کروا دیتی ہے ـ

سفر کا دورانیہ طویل ہوتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ مناسب وقفے کے ساتھ آرام اور نیند کا پورا خیال رکھا جائے زیادہ حادثے اسی وجہ سے ہوتے ہیں کہ ڈرائیور کی آنکھ لگ جاتی ہے مزید یہ کہ ان پہاڑی علاقوں میں رات کا سفر نہ کیا جائے کیونکہ وہاں اول تو سڑک نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور نہ ہی ان پہاڑوں پر بنے راستوں پر اردگرد لائیٹیں لگی ہوتی ہیں گھپ اندیھرا ہوتا ہے اور موڑ انتہائی خطرناک ہوتے ہیں ـ جس پر ایک وقت میں ایک ہی گاڑی گزر سکتی ہے مزید یہ کہ ڈرائیور کا ماہر ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ نوجوان لڑکے یا میدانی علاقوں کی سڑکوں پر گاڑی چلانے والے حضرات پہاڑوں کے پرپیچ پتھریلے راستوں پر گاڑی نہیں چلا پاتے ـ کئی دفعہ خواتین گاڑی چلا رہی ہوتی ہیں لہذا اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی داؤ پر نہ لگائیں ـ

مائیکل شو میکر بننے کی بجائے اپنی لین میں رہیں ' اوور ٹیک نہ کریں ' اس سے ایک تو ٹریفک کی صورتحال گھمبیر ہوتی ہے دوسرا اپنی اور دوسروں کی زندگیوں سے نہ کھیلیں ـ راستوں اور موڑ کی نزاکت کا خیال کریں جلدبازی' اور تیز رفتاری سے بہتر ہے کہ منزل پر بحفاظت اور تھوڑا تاخیر سے پہنچ جائیں ـ
اپنے جزبات پر قابو رکھیں گلیشئیرز کے نیچے کھڑے ہو کر یا اوپر چڑھ کر تصاویر بنانے سے گریز کریں اپنی اور اپنے پیاورں کی حفاظت کی ذمہ داری آپ پر ہی عائد ہوتی ہے ـ
تصویریں ' وڈیوز بنانے کے جنون میں پتھروں پر نہ چڑھیں یا پانی میں نہ اتریں کیونکہ کونسا پتھر کب کھسک جائے معلوم نہیں ہوتا ' زیادہ ایڈوینچر میں نہ پڑیں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ ہوتا ہے اور طغیانی کسی بھی وقت آ سکتی ہے پھر ایک لمحہ بھی سنبھلنے کے لیے نہیں ملتا ـ ان پہاڑی علاقوں میں زندگی بہت مشکل ہے اور وسائل کی شدید کمی ہے لہذا اپنی جان کی خود حفاظت کریں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں ـ
زپ لائن' رافٹنگ یا کشتی رانی میں ایڈوینچر کا تڑکا نہ لگائیں کیونکہ تربیت یافتہ ' ماہر عملے کی عدم دستیابی کی وجہ سے بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں بنتا ـ
جہاں بجلی نہیں ہے' انٹرنیٹ نہیں ہے' ٹیلیفونک رابطہ نہیں ہے وہاں کیسے کسی حادثے کی بروقت اطلاع ہو سکتی ہے اور کوئی کیسے فوراً مدد کے لیے پہنچ سکتا ہے ـ
سوچ سمجھ کر ' تفریحی مقامات کی نزاکت اور وسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پروگرام ترتیب دیں پھر اپنی ذمہ داریاں خود اٹھائیں کیونکہ جنھوں نے اقدامات یا وسائل مہیا کرنے ہیں یا فیصلے لینے ہیں وہ شاید وقت پر دستیاب نہ ہوں ـ
پچھلے چند سالوں میں جتنے حادثات ہو چکے ہیں اور جتنی قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت' اداروں اور انتظامیہ کو سنجیدہ بنیادوں پر نہ صرف سوچنا ہو گا بلکہ عمل بھی کرنا ہو گا ـ اگر حکومت سیاحت کو فروغ دینا چاہتی ہے تو وسائل بڑھانے ہوں گے ' انتظامات بہتر کرنے ہوں گے' قانون نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ سختی سے ان پر عمل بھی کروانا ہو گا کیونکہ یہ قوم اپنی جان پر تو کھیل جائے گی لیکن ڈنڈے کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں سمجھے گی ـ اگر ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے تو شمالی علاقہ جات کو سیرو سیاحت کے لیے بند کر دیں ـ

حکومتی اداروں کو چاہئیے کہ دریاؤں کے کناروں ' جھرنوں یا پانی کے گزرنے کے راستوں پر کسی قسم کے ہوٹل یا ریسٹورینٹ بنانے کی اجازت نہ دے اور اگر کوئی بنائے تو اس کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے ـ راستوں کے بارے میں جگہ جگہ اشارے اور گائیڈ لائنز لگائی جائیں ـ موڑ کے خطرناک ہونے کا بتایا جائے' اس کے علاوہ جو علاقے ممنوع قرار دیے جائیں ان پر بڑے بڑے بورڈز لکھ کر لگائے جائیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ وہ اپنی جان کو خود خطرے میں ڈال رہے ہیں ـ ان علاقوں میں بھی جگہ جگہ چیک پوسٹس ہونی چاہئیے جو لوگوں کی مدد کے ساتھ ساتھ رہنمائی بھی کر سکیں ـ

مواصلاتی نظام بہتر کیا جائے ـ حکومتی سطح پر اپنی مصدقہ ویب سائیٹس ' سوشل میڈیا پیجز بنائیں تاکہ لوگوں کو درست معلومات فراہم کی جا سکیں اور صحیح صورتحال سے آگاہ کیا جا سکے ـ جو خطرناک علاقے ہیں وہاں داخلہ ممنوع قرار دیا جائے ـ تھوڑے تھوڑے وقفے پر ورکشاپس' ہسپتال اور ایمبولینس کی سہولت یقینی بنانی چاہئیے ـ ہنگامی صورتحال کے لیے ہیلی کاپٹر اور لائیف سیونگ جیکٹس کا انتظام ہونا چاہئیے ـ تاکہ کسی بھی صورتحال میں کوڑے والے ٹرک استعمال نہ کرنا پڑیں ـ
لوگوں کے تفریح کے سفر کو موت کے سفر میں تبدیل نہ کیا جائے ـ بے شک موت کا وقت مقرر ہے اور اسی مقام پر پہنچنا ہے لیکن قدرت نے ہمیں سمجھ ' بوجھ اور عقل عطا کی ہے تاکہ اس کو بروئے کار لایا جائے ـ اپنے وسائل کا بہتر استعمال کیا جائے ـ بے حس نہ بنا جائے کیونکہ آج کسی اور کی باری ہے تو کل آپ کی باری ہو گی ' اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ ہم نے خود اٹھانا ہے اور آگے پیش ہونا ہے ـ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی حفاظت میں رکھیں آمین ثم آمین ـ

Comments

Avatar photo

عاصمہ حسن

عاصمہ حسن کا تعلق باغوں کے شہر لاہور سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے' پڑھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ معیار زندگی نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات میں کالم لکھتی ہیں. اپنی تحریروں سے ہر عمر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت پیغام دیتی ہیں۔ آسان اور عام فہم لفظوں کا چناؤ ہی ان کا خاصا ہے۔ ان کا قلم ایک دہائی سے اپنے مقصد پر ڈٹا ہوا ہے۔ منزل کی کس کو فکر ہے، دلکش نظارے ہی دل لبھانے کو کافی ہیں۔

Click here to post a comment