ہوم << پرانی و نئی ویب سائٹس اور ایک تجویز - محمد عامر خاکوانی

پرانی و نئی ویب سائٹس اور ایک تجویز - محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی سوشل میڈیا پر مائیکرو بلاگنگ نے ہمارے منظرنامے میں ایک بڑی اہم تبدیلی پیدا کی۔ بڑا فائدہ تو یہ ہوا کہ بہت سے عمدہ لکھاری سامنےآ گئے۔ علم وادب سے دلچسپی رکھنے والے کئی لوگ ایسے تھے، جن میں‌ لکھنے کی صلاحیت موجود تھی، مگر کوئی پلیٹ فارم دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اور کچھ اپنی صلاحیتوں‌ پر عدم یقین کے سبب وہ لکھنے کی طرف نہیں‌ آ رہے تھے۔ فیس بک پر کمنٹس کی صورت میں انہوں‌ نے آغاز کیا اور بتدریج جیسے ہی ہاتھ رواں ہوا، اپنی وال پر چھوٹے بڑے بلاگ لکھنے شروع کر دیے۔ یوں‌جلد ہی انہیں قارئین کا حلقہ بھی مل گیا۔ جس میں‌ جتنی صلاحیت تھی، اسے اس اعتبار سے قاری ملتے گئے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ان نئے لکھنے والوں میں خیالات کی تازگی تھی، کرنٹ‌ افئیرز پر لکھنے کا دبائو نہیں‌تھا، کسی قسم کے سنسر یا کارپوریٹ‌ دبائو کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا، یوں فیس بک پوسٹوں‌کی صورت میں‌ رنگا رنگ تحریروں‌ کا نہایت حسین گلدستہ بن گیا۔ ہر شام نت نئی تحریریں وجود میں آتیں اور دلچسپی رکھنے والے اپنے پسندیدہ لکھاریوں‌کو سی فرسٹ کیٹیگری میں‌ رکھ کر ان کی کوئی بھی پوسٹ مس نہ کرتے۔
یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، مگر پچھلے سال ڈیڑھ میں ایک اور خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی کہ کئی عمدہ ویب سائٹس منظر عام پر آئیں۔ ویب سائٹس تو پہلے سے بھی موجود تھیں اور ان میں سے کچھ ٹھیک ٹھاک رش لے رہی تھیں، مگر ان نئی ویب سائٹس میں سے بیشتر نان کمرشل بنیاد پر آئیں، ان کا مقصد کمانا نہیں‌تھا یا یہ کہہ لیں‌ کہ صرف کمانا نہیں‌تھا۔ ان میں سے چند کا نام لینا چاہوں‌گا، جو میں دیکھتا رہا ہوں ، اور بھی ہوں‌گی، لیکن چونکہ میں‌انہیں دیکھتا نہیں تو ان پر کمنٹ بھی نہیں کر پائوں‌گا۔ ہمارے دوست اجمل شاہ دین نے دنیا پاکستان ویب سائٹ شروع کی، جس کے ایڈیٹر شروع میں‌ برادرم وجاہت مسعود تھے۔ دنیا پاکستان کو بہت جلد پزیرائی حاصل ہوئی، وجاہت صاحب نے نئے اور پرانے لکھنے والوں‌کا خاصا بڑا حلقہ اکٹھا کر لیا۔ ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جو پہلے کبھی کبھار اپنے بلاگ پر کچھ لکھ دیتے یا پھر اپنی وال تک محدود تھے، دنیا پاکستان نے انہیں‌پلیٹ فارم دیا اور پھر تواتر سے لکھنے کی طرف مائل کیا۔ مجھے ذاتی طور پر بعض لکھاریوں‌ں نے چونکایا جن میں‌ حسنین جمال سرفہرست ہیں۔ حسنین جمال نے ایسی خوبصورت تخلیقی تحریریں لکھیں کہ خوشگوار حیرت ہوئی۔ وصی بابا کی نہایت شگفتہ فیس بک پوسٹوں کا میں شروع سے مداح تھا، مگر وجاہت مسعود کی صحبت اور رہنمائی نے انہیں سنوارا اور وہ ایک مستند، عمدہ لکھنے والے کی صورت میں سامنےآئے، جس میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ تجزیہ کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ وقار احمد خان کی تحریریں اور سفرنامے بھی دلچسپ اور عمدہ تھے۔ دنیا پاکستان سے وجاہت مسعود صاحب کی علیحدگی نے ’’ہم سب ‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ دنیا پاکستان کو دھچکا تو شدید لگا، مگر یہ ویب سائٹ اب کسی حد تک سنھبل گئی ہے، گل نوخیز اختر جیسا منفرد مزاح‌نگار اور تجربہ کار صحافی اس کا ایڈیٹر ہے اور سنا ہے کہ برادرم نعیم احمد بلوچ بھی وہاں‌ کچھ ذمہ داریاں‌ انجام دے رہے ہیں۔
’’ہم سب‘‘ نے سوشل میڈیا یا یہ کہہ لیں کہ سائبر ورلڈ میں ایک ہلچل مچائی، تہلکہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ عدنان خان کاکڑ کی معاونت سے برادرم وجاہت مسعود نے بہت عمدہ کام کیا۔ بہت اچھے لکھنے والوں‌کی ایک فوج ظفر موج نہ صرف تیار ہوئی بلکہ اچھی بات یہ ہے کہ کئی عمدہ خواتین لکھاری بھی سامنے آ گئیں۔ ہم سب سے مجھے کئی لوگوں‌ کو پہلی بار پڑھنے کا موقع ملا۔ عثمان قاضی ان میں سرفہرست ہیں، ان کی علمیت اور خوبصورت زبان نے متاثر کیا۔ برادرم انعام رانا کے ہنر بھی ہم سب ہی میں کھلے اور بہت جلد اس آتشی رانگڑ نے اپنی جگہ بنا لی۔ برادرم آصف محمود جیسے منجھے ہوئے صحافی اور اینکر بھی ادھر لکھ رہے تھے تو دوسری طرف دینی مدارس کے بعض‌ طلبہ اور فارغ التحصیل کو بھی پہلی بار شائع ہونے کا موقع ملا۔ ہم سب کے بعض‌لکھنے والوں سے اس فقیر کو اختلاف ہے، مگر ان کے قلم کی خوبصورتی اور فنی مہارت کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ چونکہ میں‌ یہ تحریر ویب سائٹ پر نظر ڈالے بغیر عجلت میں لکھ رہا ہوں، اس لیے زیادہ نام نہیں‌ٌ لے سکتا، مگر فرنود عالم اور ید بیضا کا نام ضرور لینا چاہوں‌گا۔ اللہ انہیں راہ راست پر رکھے اور قلم وخیالات میں برکت عطا فرمائے۔ ظفر عمران کی بعض عمدہ تحریریں بھی یہیں پڑھنے کو ملیں۔ ہم سب کا مضبوط شعبہ اس کے بلاگ اور کالم ہیں۔ خبریں‌اگرچہ یہ دیتے ہیں، مگر اس پر شاید زیادہ فوکس نہیں۔
آئی بی سی اسلام آباد کے سینئر صحافی اور اینکر سبوخ سید کا برین چائلڈ ہے۔ ایکسپریس لاہور کے میگزین سیکشن میں کام کرنے والے فرحان احمد خان جو مجھے چھوٹے بھائیوں‌ کی طرح عزیز ہے، وہ بھی سبوخ کا کچھ ہاتھ بٹاتا ہے، مگر حیرت ہے کہ اتنی مصروفیت کے باوجود سبوخ سید نے ایسی اچھی ویب سائٹ بنا دی۔ آئی بی سی کا مضبوط پہلو ان کی بہت عمدہ اور ایکسکلیوسو نیوز سٹوریز ہیں۔ یہ نظریاتی سے زیادہ صحافتی انداز کی ویب سائٹ ہے، اگرچہ بہت سی اچھی فکری اور نظریاتی تحریریں بھی ادھر شائع ہوتی رہتی ہیں۔
وجود ایک اور اہم ویب سائٹ ہے۔ برادرم محمد طاہر اس کے مدیر ہیں۔ محمد طاہر کا تعلق کراچی سے ہے، تکبیر سے انہوں‌ نے نام کمایا اور بعد میں اپنا جریدہ وجود شائع کیا، جنرل مشرف کی حکومت کی ابتدا میں یہ رسالہ حکومتی جبر کی بنا پر بند کرنا پڑا۔ محمد طاہر نہایت عمدہ کالم نگار ہیں، روزنامہ پاکستان، جسارت وغیرہ میں کالم لکھتے ہیں، ٹی وی اینکر بھی رہے، کراچی کے بعض چینلز میں کرنٹ افیئرز پروگرام کرتے رہے، بعد میں دنیا چینل میں‌ بھی ریسرچ کے شعبے کے سربراہ رہے اور پروگرام بھی کرتے رہے۔ ایکسکلیوسو سٹوریز کی بنا پر انہیں‌ باخبر صحافی سمجھا جاتا ہے، بقول ہارون الرشید صاحب خبر محمد طاہر تک اڑ کر پہنچتی ہے۔ محمد طاہر نے وجود کو ایک باقاعدہ نیوز ویب میگزین شکل دے رکھی ہے۔ ایکسکلیوسو سٹوریز وہ دیتے رہتے ہیں اور محمد طاہر طبعآ بڑے شکاری ہیں، مدمقابل جتنا بڑا شکار ہوگا، اتنا ہی ان کی صلاحیتوں کو مہمیز لگتی ہے۔جہاں‌اچھے اچھوں‌کے پر جلتے ہیں، وہاں‌طاہر مسکراتے ہوئے قدم رکھتے اور فاتحانہ اپنا جھنڈا لہرا دیتے ہیں۔ وجود میں کالم اور بلاگ بھی شائع ہوتے ہیں۔ کئی اچھا لکھنے والے اس سے وابستہ ہیں۔
برادرم رعایت اللہ فاروقی نے انکشاف کے نام سے عمدہ ویب سائٹ شروع کی، افسوس کہ وہ اپنے کچھ مسائل کی وجہ سے اسے زیادہ دیر نہیں چلا پائے اور بند کرنا پڑ گئی۔ فاروقی صاحب کے لیے اکیلے اسے چلانا مسئلہ تھا، ٹیم کے بغیر ویب سائٹ چلانا ناممکن ہے، مگر بدقسمتی سے فاروقی صاحب کے بعض اپنوں نے ان کا ساتھ نہ دیا، اگر وہ لکھنے والے جنہوں نے ان کے ساتھ پہلے پرجوش وعدے کیے تھے، ساتھ دیتے تو انکشاف آج بھی موجود ہوتی۔
اردو ٹرائب ایک اور بہت عمدہ ویب سائٹ ہے، اگرچہ اس کا زیادہ فوکس نیوز ہیں، مگر بلاگ یہ بھی لگاتے ہیں۔ اردو ٹرائب نے دلچسپ خبروں کے ساتھ فیملی اور پیرنٹنگ کے حوالے سے بہت اچھا مواد شائع کیا ہے۔ اس کا لے آئوٹ بھی خوبصورت ہے۔
برادرم ثاقب ملک کے آرچر آئی کا ذکر بھی ضروری ہے، میں آرچر آئی کو ویب سائٹ نہیں بلاگ سمجھتا تھا. ثاقب نے اس کے ذریعے کئی عنمدہ کام کیے، نئے لکھنے والوں کی ریٹنگ کا ڈول ڈالا، پیروڈیز شائع کیں، افسانوں کے مقابلے کیے، کئی عمدہ لکھنے والے متعارف کرائے۔ اور سیک کا سیمینار تو ہم سب کے سامنے کی بات ہے۔
دوسروں کی ویب سائٹس کی اتنی تعریف کے بعد مجھے تھوڑا سا حق ملنا چاہیے کہ دلیل ڈاٹ پی کے پر بھی کچھ لکھ ڈالوں۔ ’’دلیل ‘‘ کو وجود میں‌ آئے ابھی بمشکل دو ماہ ہوئے ہوں‌گے، مگر الحمداللہ اس نے اچھی جگہ بنا لی۔ آج کی ریٹنگ کے مطابق یہ ٹاپ ساڑھے بارہ سو میں‌ آ چکی ہے۔ بغیر کوئی سرمایہ کاری اور پروموشن کے اس جگہ پر پہنچنا رب تعالیٰ‌ کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں‌ تھا۔ دلیل کو شروع ہی سے بعض دوستوں‌نے ’’ہم سب‘‘ کا مدمقابل اور ہم سب کا جوابی بیانہ قرار دیا، اسے بعض دوست رائٹسٹ یا اسلامسٹ ترجمان کے طور پر بھی بیان کرتے رہے۔ ہم تو سادہ سی بات کہتے ہیں کہ دلیل کا مقصد دراصل اپنا نقظہ نظر بیان کرنے کا پلیٹ فارم تخلیق کرنا تھا، جہاں مختلف ایشوز پر شائستگی، اعتدال اور دلیل کے ساتھ اسلامی، نظریاتی حوالوں سے اپنا موقف بیان کیا جائے، الحاد اور سیکولرازم کے مقابلے میں اسلامی فکر کو پیش کیا جائے، نظریہ پاکستان کو بیان اور اس حوالے سے ہونے والے حملوں‌کا دفاع کیا جائے، نوجوانوں‌میں ادبی ذوق پیدا کیا جائے اور نئے لکھنے والوں کو بھرپور مواقع پیش کیے جائیں۔ دلیل کا پلیٹ فارم صرف اسلامسٹوں‌ کے لیے نہیں، بلکہ معتدل اور لبرل لکھاری بھی ادھر شائع ہوسکتے ہیں، البتہ مذہب، اخلاقیات اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے تضحیک آمیز تحریروں کی ہمارے ہاں‌ کوئی جگہ نہیں۔ فرقہ پرستی، شدت پسندی اور پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی تنظیم، گروہ یا نظریے کی نہ صرف ہمارے ہاں کوئی گنجائش نہیں بلکہ ہم اس حوالے سے بھرپور دفاع بھی کریں گے ان شا اللہ۔ دلیل ایک طرح سے اسلامسٹ ویب سائٹ تو ہے، مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام ایک اعتدال پسند مذہب ہے اور حقیقی اسلامسٹ ہوتا ہی معتدل ہے۔ اس لیے دلیل ایک اعتبار سے معتدل ویب سائٹ بھی ہے۔
یہ اتنی لمبی چوڑی تحریر لکھنے کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ آج کل بعض اور ویب سائٹس کے آنے کا چرچا ہے۔ ہمارے محترم سینئر صحافی سجاد میر کے حوالے سے خبر ملی ہے کہ وہ بعض نوجوان کی سرپرستی کرتے ہوئے بہت جلد ایک نئی ویب سائٹ بنا رہے ہیں۔ برادرم انعام رانا نے ہم سب سے اپنی دست برداری کے اعلان کے بعد ایک پوسٹ کی کہ میری ویب سائٹ آ رہی ہے، وہ پوسٹ تو شاید مزاح کے طور پر لکھی گئی، مگر حسب توقع ان کے اندر کا مضطرب، بے چین جنگجو انہیں‌’’مکالمہ‘‘ کے نام سے ویب سائٹ کی طرف لے آیا ہے۔ میری نیک تمنائیں‌ اور دعائیں رانا صاحب کے ساتھ ہیں۔ آج شام کو اطلاع ملی کہ صحافی، کالم نگار اور چیریٹی تنظیم کاروان علم کے ڈائریکٹر برادرم خالد ارشاد نے اپنی ویب سائٹ ’’اخبار‘‘ کے نام سے شروع کر دی ہے۔ برادرم خالد ارشاد کو خوش آمدید کہنا چاہوں‌گا۔ انہوں نے منتخب کالموں، بلاگز وغیرہ کے سلسلے بھی رکھے ہیں، مگر خبروں‌ پر وہ خاصا فوکسڈ لگ رہے ہیں۔ ان سے توقع ہے کہ وہ ایک اچھی ویب سائٹ لوگوں‌کے لیے پیش کریں گے۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں‌ میں شاید اوریا مقبول جان صاحب اور بعض دوسرے سینئر صحافی بھی اپنی ویب سائٹس سامنے لے آئیں۔ جماعت اسلامی کے وابستگان میں سے بعض نوجوان ایک ویب سائٹ لانا چاہ رہے ہیں، ممکن ہے اس پر بھی عمل ہوجائے۔
میں اپنی اور دلیل کی جانب سے ان تمام ویب سائٹس کا خیر مقدم کرنا چاہوں‌گا، جو سامنے آ چکی ہیں یا جن کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں فیس بک کی مائیکرو بلاگنگ جس طرح بےمہار ہوچکی تھی، اس کے پیش نظر یہ ضروری تھا کہ زیادہ سے زیادہ ویب سائٹس سامنے آتیں اور لکھنے والے ادھر شفٹ ہوتے، وہاں کسی نہ کسی ایڈیٹر کے ڈسپلن میں وہ مناسب انداز میں لکھ پائیں گے۔
میں ایک اور تجویز بھی پیش کرنا چاہوں گا کہ مین سٹریم میڈیا کی طرح سائبر ورلڈ پر ابھی بےرحم مسابقت اور مقابلہ شروع نہیں ہوا۔ ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے۔ بجائے ایک دوسرے کے مقابلے میں آنے کے ہمیں مفاہمت اور باہمی محبت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے کوئی غیر رسمی سا ضابطہ اخلاق بن جائے تو اچھا ہے۔ میری ذاتی رائے میں مختلف ویب سائٹس کو ایک دوسرے کی تحریروں کے تبادلے کی گنجائش باقی رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر وہ ویب سائٹ جو ایک نظریے کی حامل ہیں، انہیں‌ مختلف نظریاتی، فکری ایشوز پر دوسروں کی بامقصد، اصلاحی، فکر انگیز تحریریں‌ لفٹ کر لینی چاہییں۔ اس میں ایک قباحت ریٹنگ کی ہو سکتی ہے کہ ہر ویب سائٹ کی خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ وزیٹرز اس کی طرف آئیں تو اس کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بھی ویب سائٹ کی تحریر ایک دو دنوں‌کے بعد لفٹ کی جائے اور اس کے نام کا حوالہ بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ اس کا لنک آخر میں دے دیا جائے۔ عام طور پر ویب سائٹس میں پہلے چوبیس گھنٹے اہم ہوتے ہیں، سٹوری کے زیادہ تر ویوز پہلے دن ملتے ہیں، اکا دکا ایسی ہوتی ہیں جو دوسرے دن بھی رش لیتی ہیں اور کبھی کبھار کوئی اس سے بھی زیادہ چل جاتی ہے، ورنہ نئی آنے والی سٹوریز، بلاگز کی وجہ سے پرانے ایک ڈیڑھ دن کے اندر پیچھے چلے جاتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر دلیل ڈاٹ پی کے کی طرف سے یہ پیش کش کر رہا ہوں کہ ہماری کوئی بھی تحریر خواہ وہ کس قدر ایکسکلیوسو ہو، اسے کوئی بھی ویب سائٹ دلیل حوالے کے ساتھ لفٹ کر سکتی ہے، تاہم سٹوری شائع ہونے کے بعد ایک دن کی رعایت اگر ہمیں بھی دے دیں تو شکر گزار ہوں گے۔ اس تجویز کا مقصد خدانخواستہ کسی ویب سائٹ کے ہٹس یا ویوز کم کرنا نہیں‌ بلکہ میری خواہش ہے کہ خیر کا باعث بننے والی تحریریں زیادہ سے زیادہ شیئر ہوں اور اگر ہم اس کارخیر میں حصہ ڈال سکیں تو ہماری خوش نصیبی ہوگی۔

Comments

Avatar photo

محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی

Click here to post a comment