ایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ تصادم کے نتیجے میں دونوں ممالک کو جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ایران میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد مختلف ذرائع میں مختلف بتائی گئی ہے، تاہم اقوامِ متحدہ اور دیگر معتبر اداروں کی رپورٹس کے مطابق ایران میں اب تک 610 سے 700 افراد ہلاک اور تقریباً 1,300 سے 3,000 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ہلاک شدگان میں اعلیٰ فوجی کمانڈر، جوہری سائنس دان، اور عام شہری شامل ہیں۔ ایران کی وزارت صحت نے ابتدائی طور پر 400 سے زائد ہلاکتوں اور تین ہزار سے زائد زخمیوں کی تصدیق کی، جبکہ تہران میں منعقدہ جنازوں اور دیگر غیر سرکاری ذرائع نے اس تعداد کو 600 سے زیادہ بیان کیا ہے۔ بعض غیر مصدقہ مقامی ادارے مثلاً HRANA نے 974 ہلاکتوں کا دعویٰ کیا، لیکن اس کی تائید بی بی سی، ڈوئچے ویلے یا اقوامِ متحدہ کی کسی رپورٹ میں نہیں ملتی، لہٰذا یہ اعداد وشمار غیر مصدقہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔
اس کے برعکس اسرائیل میں اقوامِ متحدہ اور عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق 24 سے 28 افراد ہلاک اور 840 سے زائد زخمی ہوئے۔ ایران کی جانب سے اسرائیل پر داغے گئے تقریباً 550 میزائلوں اور 1,000 سے زائد ڈرونز میں سے بیشتر کو آئرن ڈوم دفاعی نظام نے فضا میں ناکارہ بنا دیا، تاہم کچھ حملے شہری علاقوں پر بھی ہوئے جن سے بیئر شیوا سمیت کئی شہروں میں تباہی کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ خاص طور پر Soroka میڈیکل سینٹر پر ہونے والے حملے میں 50 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جس کی تصدیق عالمی ادارہ صحت نے بھی کی ہے۔ اسرائیل میں نقصانات کا مالی تخمینہ بعض غیر مصدقہ ذرائع میں 1.47 ارب ڈالر بتایا گیا، تاہم اسرائیلی حکومت یا عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے اس تخمینے کی کوئی توثیق موجود نہیں۔
ایران میں اسرائیلی حملوں نے نطنز، اصفہان اور تہران میں موجود حساس جوہری تنصیبات اور فوجی انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچایا، جس کے باعث ایرانی جوہری پروگرام کو وقتی طور پر دھچکہ لگا۔ تہران میں واقع اوین جیل پر میزائل حملہ بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزی قرار دیا گیا جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ایران کی فوجی کمان میں بھی نمایاں خلا پیدا ہوا، جسے بھرنے کے لیے عسکری قیادت نے فوری ردعمل کے طور پر نئی دفاعی حکمت عملیوں پر کام شروع کیا۔
اسرائیلی جانب سے ڈرون اور میزائل حملوں کو روکنے میں دفاعی نظام نے اہم کردار ادا کیا، تاہم ملک کے مختلف علاقوں میں شہری زندگی شدید متاثر ہوئی۔ ہنگامی مراکز، اسکولز، اور بنیادی انفراسٹرکچر کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا۔ خوف و ہراس کے باعث عوامی نقل و حرکت میں بھی کمی واقع ہوئی، اور اسٹاک مارکیٹ میں ایک روز میں 2.3 فیصد کی گراوٹ دیکھی گئی، جس سے ملکی معیشت پر وقتی دباؤ پڑا۔
بین الاقوامی منظرنامے میں ان جھڑپوں اور بعد ازاں جنگ بندی نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی معیشت، توانائی کی قیمتوں، اور سفارتی پالیسیوں پر بھی اثر ڈالا۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام، اور بین الاقوامی سیاسی دباؤ نے اس جنگ کو ایک علاقائی تنازعے سے بڑھا کر ایک عالمی مسئلہ بنا دیا۔ تاہم جنگ بندی کے بعد بین الاقوامی طاقتوں کی کوششوں کے باعث تیل کی قیمتیں کچھ حد تک مستحکم ہوئیں اور عالمی مارکیٹس نے بھی قدرے بہتری کا مظاہرہ کیا۔
مجموعی طور پر اس تصادم میں دونوں ممالک کو جانی، معاشی اور سیاسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، جس نے نہ صرف ان کی دفاعی پوزیشنز کو متاثر کیا بلکہ عالمی برادری کو اس خطے میں ممکنہ مزید عدم استحکام کے حوالے سے متنبہ بھی کر دیا۔ اس تناظر میں ایران کو چاہیے کہ وہ اپنے داخلی نظام، دفاعی حکمت عملی اور سفارتی تعلقات میں واضح اصلاحات لائے، جبکہ اسرائیل کو بھی اپنی دفاعی برتری کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی سفارتی روابط میں توازن پیدا کرنا ہو گا تاکہ آئندہ ایسی کسی صورت حال کو روکا جا سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا کہ ایران نے جنگ میں غیر معمولی بہادری اور مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ ان کے بقول جنگ بندی سے قبل کے آخری دو دن اسرائیل کے لیے انتہائی بھاری ثابت ہوئے، کیونکہ ایران نے اپنی عسکری صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی اہداف کو شدید نقصان پہنچایا۔ ٹرمپ کے مطابق ایران کے بیلسٹک میزائلوں نے اسرائیل کی کئی عمارتوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا، اور اسرائیل کو اس حملے میں واضح نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے ایرانی عوام کو "شاندار لوگ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ بندی ایران سمیت تمام فریقین کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے عالمی سطح پر نئی بحث کو جنم دیا ہے، جس میں کئی مبصرین نے اسے ایران کے مؤقف کی تائید اور اسرائیلی بیانیے کی جزوی نفی کے طور پر دیکھا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے تعلقات گزشتہ کئی دہائیوں سے کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ اسلامی انقلاب (1979ء) کے بعد ایران نے فلسطینی کاز کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ قرار دیا اور اسرائیل کو ایک غاصب ریاست کا درجہ دیا، جس کے جواب میں اسرائیل نے ایران کی عسکری سرگرمیوں کو اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کیا۔ دونوں ممالک کی پالیسیوں میں پراکسی جنگوں، خفیہ آپریشنز اور سفارتی تناؤ کی جھلک صاف دکھائی دیتی رہی ہے، جس کا نکتہ عروج حالیہ مسلح تصادم تھا جس میں دونوں طرف سے شدید عسکری کارروائیاں دیکھنے میں آئیں۔
جنگ کا آغاز شام اور لبنان کے علاقوں میں اسرائیلی مفادات پر ایرانی یا ان کے حمایت یافتہ گروہوں کے حملوں سے ہوا، جس کے جواب میں اسرائیل نے ایران کے مبینہ نیوکلیئر اور عسکری مراکز کو نشانہ بنایا۔ دونوں ممالک کی طرف سے کیے گئے حملوں میں جانی و مالی نقصان ضرور ہوا، لیکن ان حملوں نے کسی ایک فریق کو فیصلہ کن برتری نہیں دی۔ اسرائیل نے جہاں اپنے دفاعی نظام کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، وہیں ایران نے بھی اپنے روایتی اور غیر روایتی ذرائع سے جوابی کارروائیاں کیں، جس میں بعض اسرائیلی علاقوں میں زندگی متاثر ہوئی۔
ایران کے لیے یہ جنگ کئی حوالوں سے پیچیدہ رہی۔ ایک جانب اس کی معیشت پر پہلے ہی عالمی پابندیاں عائد تھیں، دوسری جانب جنگ نے اس کی تیل کی برآمدات، زر مبادلہ کے ذخائر اور اندرونی مالیاتی نظام پر مزید دباؤ ڈالا۔ مہنگائی میں اضافہ اور روزگار کی قلت نے عوام میں بے چینی پیدا کی۔ تاہم، ایران نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے بعض دفاعی اور سفارتی اقدامات بھی کیے، جن میں خطے میں اپنی اتحادی طاقتوں کے ساتھ رابطہ مضبوط کرنا، اور داخلی سطح پر عسکری حکمت عملیوں میں تبدیلی شامل تھی۔
دوسری طرف اسرائیل کو بھی اس جنگ سے مکمل تحفظ نہیں ملا نیز اس کا بھرم و غرور ، رعب و دبدبہ بھی خاک میں مل گیا۔ میزائل اور ڈرون حملوں نے کئی شہری علاقوں کو متاثر کیا، جس سے عوامی تحفظ کے حوالے سے خدشات نے جنم لیا۔ اقتصادی سرگرمیوں میں سست روی اور سیاسی سطح پر بعض فیصلوں پر تنقید نے اسرائیلی حکومت کو بھی غور و فکر پر مجبور کیا کہ عسکری حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ سفارتی محاذ پر بھی متوازن رویہ اختیار کیا جائے۔
بین الاقوامی برادری نے اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے۔ امریکہ، چین، روس، یورپی یونین، قطر اور ترکی نے سفارتی مداخلت کی کوشش کی، تاکہ فریقین جنگ بندی پر رضامند ہوں۔ اقوامِ متحدہ اور آئی اے ای اے کی طرف سے ایران کے جوہری پروگرام پر زیادہ سخت نگرانی کی بات کی گئی، اور اسرائیل کو بھی اس امر کا پابند کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنی جارحانہ کارروائیوں کو بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رکھے۔
معاشی لحاظ سے یہ جنگ دونوں ملکوں کے لیے نقصان دہ رہی۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام، اور سرمایہ کاری کے ماحول میں بے یقینی نے خطے کی اقتصادیات کو متاثر کیا۔ جنگ بندی کے بعد وقتی طور پر حالات میں بہتری دیکھی گئی، لیکن یہ بہتری اس شرط سے مشروط ہے کہ آئندہ اس نوعیت کی کشیدگی سے گریز کیا جائے اور مذاکرات کو فوقیت دی جائے۔
سیاسی سطح پر دونوں ممالک کو اندرونی معاملات میں مختلف ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران میں حکومتی پالیسیوں پر عوامی حمایت میں اضافہ ہوا اور عسکری کارروائیوں کی کامیابیوں پر عوام نے جیت کا جشن منایا۔ جبکہ اسرائیل میں جنگ بندی کے وقت کو لے کر داخلی سیاست میں بحث چھڑ گئی، کہ آیا حکومت نے جنگ ختم کر کے ایک اہم موقع ضائع کیا یا ایک ذمہ دارانہ فیصلہ کیا۔
عالمی برادری کو اب اس بات کا شدت سے احساس ہو چکا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا یہ تنازع صرف دو ملکوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات عالمی سطح پر بھی پڑتے ہیں۔ توانائی، تجارت، مہاجرت، اور علاقائی امن جیسے اہم معاملات اس تنازع سے جُڑے ہیں، اور ان کے استحکام کے لیے ایک طویل المدت، مربوط اور قابلِ عمل حکمت عملی درکار ہے۔ یہ صرف عسکری معاملات نہیں بلکہ سفارتی، اقتصادی، انسانی اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کا بھی مسئلہ ہے۔
موجودہ جنگ بندی اگرچہ وقتی سکون کا ذریعہ بنی ہے، مگر یہ دیرپا امن کی ضمانت نہیں۔ ایران کو چاہیے کہ وہ علاقائی سلامتی کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنے جوہری اور دفاعی پروگرام کو شفافیت کے ساتھ جاری رکھتے ہوئے علاقائی و بین الاقوامی اداروں سے تعاون کو فروغ دے۔ جبکہ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ اپنی عسکری لشکر کشی کو سیاسی بصیرت سے متوازن کرے اور فلسطینی مسئلے کو انسانی و قانونی بنیادوں پر دیکھے، تاکہ خطے میں حقیقی استحکام ممکن ہو سکے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک اپنی پالیسیوں پر از سرِ نو غور کریں، سفارتی راستوں کو ترجیح دیں، اور عالمی برادری ایک فعال اور غیر جانبدار ثالث کے طور پر سامنے آئے، جو اس بحران کو نہ صرف محدود کرے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے، پائیدار اور ترقی یافتہ دور کا آغاز کرے۔ بصورتِ دیگر، یہ تنازع مستقبل میں بھی عالمی امن کے لیے ایک مستقل خطرہ بنا رہے گا۔
تبصرہ لکھیے