انسان جتنا بھی طاقتور ہو جائے، سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے بام عروج کو چھو لے، دنیا کو اپنے زیرِ نگیں کر لے، تخت و تاج اس کے قدموں میں ہو، رعایا اس کے اشارۂ ابرو پر جان نچھاور کرنے کو بے تاب ہو— تب بھی وہ بشر ہے، فانی ہے، محدود ہے۔
اقتدار، دولت، رعب و دبدبہ یہ سب کچھ محض وقتی چمک ہے، ایک دھوکا ہے جو چند لمحے انسان کو لبھاتا ہے اور پھر وقت کی خاک میں دھنسا دیتا ہے۔ کل جو زمانے کا شہنشاہ تھا، آج تاریخ کی گرد میں گم ہے۔ نہ تاج رہا، نہ تخت۔ نہ قصر رہے، نہ قاصد۔
اگر یہ اقتدار ہمیشہ رہنے والا ہوتا، تو آج یہ آپ کے پاس کیوں ہے؟ اور کل آپ کے بعد کسی اور کے پاس کیسے چلا جائے گا؟ غور کیجیے! اس مقام تک آپ ہی کیوں پہنچے؟ شاید اس لیے کہ رب تعالیٰ نے آپ کا امتحان لینا چاہا دیکھنا چاہا کہ دولت، عزت، کرسی اور اختیار پا کر آپ خدا بن بیٹھتے ہیں یا عبدِ خدا رہتے ہیں۔
آج جو نرم و ملائم پوشاکوں میں ملبوس ہے، کل کفن کی سادگی میں لپٹا ہوا ہو گا۔ آج جو شاہانہ قہقہوں کے سائے میں زندہ ہے، کل کسی مٹی کی آغوش میں خاموش ہو گا۔ وقت کا پہیہ کسی کے لیے نہیں رکتا۔ تاریخ کے اوراق پر گواہیاں رقم ہیں کہ جس نے تکبر کا لبادہ اوڑھا، دوسروں کو حقیر جانا، اس نے کچا سودا کیا اور وہ رسوا ہوا۔ جس نے انسانیت کا دامن تھاما، وہ زندہ جاوید ہوا۔
اقتدار کے اس مختصر وقفے میں دل نہ دکھائیے، غرور نہ کیجیے، رزق کے معاملے میں کسی کو حقیر نہ جانئیے۔ کیونکہ رزق، عزت، ذلت سب کچھ اس قادرِ مطلق کے ہاتھ میں ہے جو بادشاہوں کو غلام بنا دیتا ہے اور فقیروں کو تخت پر بٹھا دیتا ہے۔
کوشش کیجیے کہ جب اس دنیا سے رخصت ہوں، تو لوگ صرف آپ کی پوزیشن کو یاد نہ کریں، بلکہ آپ کے حسنِ اخلاق، عاجزی، نرم خوئی اور انسان دوستی کے قصے سنائیں۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ موت کے بعد بھی دلوں میں زندہ رہیں، تو اقتدار کو خدمت کا ذریعہ بنائیے، نہ کہ خود پسندی کا ہتھیار۔
تبصرہ لکھیے