ہوم << امت مسلمہ اور گریٹر اسرائیل - عرفان علی عزیز

امت مسلمہ اور گریٹر اسرائیل - عرفان علی عزیز

1919ء میں پہلا یہودی قافلہ دنیا کی تمام تر عیش وعشرت کو نظر انداز کرتے ہوئے بیلجیم ، نیو یارک اور پیرس جیسے پُرلطف اور ترقی یافتہ شہروں کو خیر باد کہہ کر حیفہ اور تل ابیب کے بیابان ریگستانوں میں جا کر آباد ہوا، تب عرب مسلمانوں سمیت دنیا کی کوئی بھی قوم شاید اس بات کا اندازہ نہ کر پائی کہ یہودی قوم پوری دنیا کی آسائشیں چھوڑ کر آخر کیوں ان ریگستانوں کا انتخاب کر رہی ہے، مگر دوسری طرف یہودیوں کا ہر بچہ بوڑھا اور جوان اس راز سے بخوبی آگاہ تھا کہ ان کے Promised Land پر جمع ہونے کے پیچھے کیا مقصد ہے، جس جگہ سے وہ سینکڑوں سال قبل بے دخل کر دیئے گئے تھے اور پوری دنیا میں ذلت کا سامنا کرتے رہے۔ ہولو کاسٹ سمیت وہ تمام مشکلات جن کا یہودیوں کو پچھلے کئی سو سال میں سامنا کرنا پڑا ان کے دماغ سے اس عظیم ریاست کا خواب نہ نکال سکیں جس کے ذریعے وہ ایک عالمی ریاست قائم کریں گے۔

جس کی سرحد میں فرات تک وسیع ہوں گی ، اس میں اردن، قطر، کویت ، یواے ای ، بحرین، یمن اور مدینہ تک کے علاقے شامل ہوں گے، جس کا اظہار گریٹر اسرائیل نامی منصوبے کے ذریعے کئی بار کیا جا چکا ہے۔ (یہ آئیڈیا پہلی مرتبہ کرنل رچرڈ ٹزاگن جس نے ایک انگریز فوجی افسر کی حیثیت سے اسرائیل کے قیام کے لیے کام کیا تھا۔اس نے اپنی کتاب middle east dairy 1917-1956 میں تفصیل سے لکھا ہے۔)

1948ء میں حیفہ اور تل ابیب کے علاقے پر مشتمل با قاعدہ یہودی ریاست کا اعلان کر دیا گیا جسے مغربی دنیا نے کھلے دل کے ساتھ تسلیم کر لیا۔ اس ریاست کا وجود میں آنا تھا کہ مسلمانوں پر ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے زیادہ سخت ثابت ہونے لگا، اسرائیل کے وجود میں آنے کے فورا بعد اس کے اور ہمسایہ عرب ملکوں کے درمیان زبردست جنگوں کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ جنگیں کسی نہ کسی طرح 19 سال تک جاری رہتی ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان جنگوں میں عرب اتحاد کو نہ صرف ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بہت سے اہم علاقے بھی ان کے ہاتھوں سے نکل -جاتے ہیں ، 1967 ء میں اسرائیل یروشلم پر قابض ہو جاتا ہے اور یوں وہ پورے مشرق وسطی میں اپنی برتری ثابت کرنے کے میں کامیاب رہتا ہے۔ یروشلم بیک وقت مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے مقدس شہر ہے جس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس شہر کے حصول کے لئے ان تینوں مذاہب کے درمیان پہلے بھی کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں، یہودیوں کے عالمی حکومت کے خواب کی تعبیر کے لئے یہ شہر بہت اہمیت کا حامل ہے جہاں پر انہیں دو اہم کام یعنی تابوت سکینہ کی تلاش اور ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کا آغاز کرنا ہے جسے Armageddon کہا جاتا ہے۔

6 دسمبر 2017ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک میں سخت بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے۔ تمام باتیں ایک طرف مگر یہ اسرائیل کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس کے پیچھے یہودیوں کی مسلسل محنت اور مسلمانوں کی غفلت کار فرما ہے۔ اول تو ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عجیب مزاج شخص کا امریکی صدر بن جانا ہی کسی عذاب سے کم نہیں تھا البتہ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ڈونلڈ ٹرمپ کا -چناؤ ہی اس کام کے لئے کیا گیا تھا۔ جو بھی ہے بہر حال ہے مسلمانوں کو ایک بات کھلے دل سے تسلیم کر لینی چاہئے کہ آج سے ستر سال پہلے ہی جب اسرائیل نے یروشلم پر قبضہ کرلیا تھا تو تبھی یہ شہر ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ستر سالوں میں کیا مسلمان متحد ہوئے؟ کیا انہوں نے یروشلم واپس لینے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کی؟ کیا انہوں نے عالمی یہودی پالیسی کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل تشکیل دیا ؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب نہیں ہے تو پھر یقینا ایسا ہی ہونا تھا جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کر دیا ہے۔کے لگ بھنگ اسلامی ملکوں نے اس واقعے پر جس طرح کے رویے کا اظہار کیا ہے اسے کسی بھی لحاظ سے رد عمل نہیں کہا جاسکتا ،

اکیسویں صدی کے شروع سے اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر لا تعداد حملے کئے گئے ، ان حملوں میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فلسطینی بچوں کا قتل عام کر کے فلسطینیوں کی نسل کشی کی گئی مگر تب بھی اسلامی ممالک عالمی سطح پر موثر آواز اٹھانے میں ناکام رہے جس کی بنیادی وجہ طاقتور یہودی لابی کی پالیسی ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جبکہ دوسری طرف اسلامی دنیا میں اس وقت سرے سے ہی کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔ ایک ایسا وقت جس میں اتحاد وقت کی اہم ضرورت بلکہ مجبوری بھی ہے، مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔

آج اگر ایران شیعہ فرقے کی حیثیت سے میدان میں جنگ کی حالت میں ہے ۔ تو عرب ممالک فساد کے نام پر اسرائیل ایران جنگ سے دور ہیں۔

اگر آپ بغور جائزہ لیں تو وہ تمام اسلامی علاقے جن کو گریٹر اسرائیل کا حصہ بننا ہے کسی نہ کسی طرح انتشار کا شکار ہیں۔مشرق وسطی میں سنی اور شیعہ ایک دوسرے سے دست و گر یباں ہیں۔ سعودی عرب یمن پر حملہ آور ہے جبکہ ایران سعودی عرب کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہے، شام بدترین خانہ جنگی کا شکار ہے، بحرین اندرونی مسائل کا شکار ہے، یو اے ای اور قطر ایک دوسرے کی ناکہ بندی کرنے میں مصروف ہیں جبکہ عراق کی شیعہ اور کردخانہ جنگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد سے لے کر آج تک یہودیوں کے مسلمانوں کے تعلیمی، تاریخی، تجارتی اور ثقافتی مفادات پر کامیاب حملے جاری ہیں، مسلمانوں کو تاریخی اعتبار سے فرقہ اور نسل پرست ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کے ذریعے ایک کمزور اور جاہل قوم ثابت کرنے کے لئے کافی کوششیں کی جارہی ہیں، مسلمان سائنسدانوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہودی سائنسدانوں، سکالروں اور ادبیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ نیشنل کمپنیوں کا نیٹ ورک بچھا کر پوری دنیا کی معیشت پر کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے جس کی وجہ سے مسلمان بہترین وسائل کے ہوتے ہوئے بھی بے بس نظر آتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ اسلامی دنیا میں ایک منظم پالیسی کا مفقود ہوتا ہے، اب بھی وقت ہے کہ دنیا کے تمام اسلامی ممالک مل بیٹھیں اور ایک مضبوط مشتر کہ سیاسی معاشی اور دفاعی حکمت عملی ترتیب دیں ، بصورت دیگر یروشلم کے علاوہ وہ تمام علاقے جنہیں گریٹر اسرائیل میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے، مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے اور خدانخواستہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔

اگر ہم بغور جائزہ لیں تو اس وقت پوری دنیا کمیونزم اور کیپیٹلزم کے پروپیگنڈہ کا شکار ہے، ہر جگہ تجارتی ، معاشی اور دفاعی پالیسی میں آپ کو کمیونزم اور کیپیٹلزم تو سننے کو ملے گا لیکن اسلامک ازم کا عالمی پالیسی سے نام و نشان تک منایا جا رہا ہے۔ آپ خود سوچیں کہ جب عالمی پالیسی میں اسلامی ملکوں کا کوئی کردار نہیں ہے یا پھر موجودہ اسلامی قیادت عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہے، جب پوری دنیا کی معیشت کو چند کمپنیاں کنٹرول کر رہی ہوں اور ان تمام کمپنیوں میں کوئی ایک بھی کمپنی مسلمانوں کی نہ ہو تو پھر ایسی صورت حال میں تمام فیصلے مسلمانوں کے خلاف ہی جائیں گے۔

دفاعی میدان کی اگر بات کی جائے تو چند اسلامی ممالک کے علاوہ باقی تمام اسلامی ممالک کے دفاع کا انحصار مغرب پر ہے۔ اگر ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو موجودہ دنیا میں مسلمان کہیں بھی نظر نہیں آتے تعلیم جس کو دین میں مومن کی میراث کہا گیا ہے اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو ساری صورتحال واضحہو جائے گی کہ تعلیمی میدان میں بھی مسلمان بری طرح شکست کھا چکے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان اختلافات بھلا کر اپنی اس پہچان کو اپناتے ہوئے، جو آج سے 14 سو سال پہلے ملی تھی، ایک قوم کی صورت میں ڈھل جائیں۔ اپنی عالمی پالیسی دنیا کے سامنے لائیں، اور آئی ہی کے کردار کو فعال کریں ، نیٹو کی طرز پر اسلامی فورس کا قیام عمل میں لائیں اور ایک ہو کر فیصلے کریں تو پھر اس کے اثرات بھی ظاہر ہوں گے۔ جس دن مسلمان دنیا کے سامنے خود کو ایک قوم م ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے اس دن صرف پرو علم ہمارا ہوگا بلکہ دنیا میں مسلمانوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے بھی دیکھا جائے گا، بصورت دیگر سامراجی قو تیں تمام مسلم ممالک پیر کو تباہ کرنے کے لئے کمر بستہ رہیں گی۔

Comments

Avatar photo

عرفان علی عزیز

عرفان علی عزیز بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ و ناول نگاری اور شاعری سے شغف ہے۔ ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں افسانے اور جاسوسی کہانیاں ناول شائع ہوتے ہیں۔ سیرت سید الانبیاء ﷺ پر سید البشر خیر البشر، انوکھا پتھر، ستارہ داؤدی کی تلاش نامی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ شاعری پر مشتمل کتاب زیرطبع ہے

Click here to post a comment